نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نواز شریف کی ایک بار پھر وطن واپسی۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی کی خبریں ایک بار پھر گرم ہیں ، حکومت نے نواز شریف کو پاسپورٹ بھی جاری کر دیا ہے، نواز شریف علاج کی غرض سے باہر گئے تھے اور اُس وقت عمران خان کی حکومت نے ان کو ایک قانونی پلان کے تحت باہر بھیجا تھا، ان کو علاج کے بعد واپس آنا تھا مگر وہ صحت یابی کے باوجود واپس نہیں آئے، قانونی طور پر وہ طویل عرصہ برطانیہ میں رہنے کے حق دار نہ تھے، اب نواز شریف واپس آتے ہیں تو کیا صورت حال بنتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملک میں ان کی جماعت کے صدر شہباز شریف وزیر اعظم ہیں مگر قانون سب کے لئے برابر ہے۔ ہمارے ملک کی جیلوں میں بند لوگ بیمار بھی ہیں اور بہت سے قیدی بیماری کی وجہ سے جیلوں میں فوت ہو جاتے ہیںمگر ان کو بیرون ملک تو کیا مقامی ہسپتالوں میں بھی علاج کرانے کی اجازت نہیں ملتی۔ ان کا جرم صرف غریب ہونا ہوتا ہے، قانون غریب اور امیر کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ نواز شریف علاج کی غرض سے 2019ء میں برطانیہ چلے گئے تھے اور پانامہ ریفرنس میں عدالت کی طرف سے دی گئی چار ہفتے کی مدت میں وہ واپس نہیں آئے تھے، جس کے بعد ان کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری ہوئے، اب ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف واپس آکر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں ؟۔ قانونی ماہرین کے مطابق ایک عام ملزم کو تو ان حالات میں ائیرپورٹ سے ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ نواز شریف سزا یافتہ سیاسی رہنما ہیں اور انھیں مفرور بھی قرار دیا جا چکا مگر ہمارے ہاں طاقت کا نام قانون ہے۔ طاقت ور قانون نہیں سمجھتے، سرائیکی کی ایک کہاوت کا مفہوم ہے کہ ’’قانون اور غصہ ایسی چیز ہے جو طاقت ور پر آتا نہیں اور کمزور پر سے اُترتا نہیں‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کبھی نہیں آئی اور نہ ہی یہاں جمہوری اصول وضع ہو سکے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے سزا یافتہ رہنمائوں کے لئے بھی فضا تیار کی جاتی ہے تاکہ وہ ملک میں واپس آکر آسانی کے ساتھ سیاسی سرگرمیاں شروع کر سکیں اور آگے چل کر اقتدار بھی ان کو مل جائے۔ پی ڈی ایم برسراقتدار ہے ، کل یہ پیشیاں بھگت رہے تھے، قانون ، انصاف اور جمہوریت کی مضبوطی میں ہی ملک کی بقاء ہے۔ یہ بھی عرض کروں گا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق صدر آصف زرداری کے خلاف نا اہلی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ نا اہلی کا فیصلہ دینے میں کسی بھی غلطی سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، عوام کو ہی اختیار ہونا چاہئے کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کی نمائندگی کا حق دار کون ہے۔ وطن واپسی پر نواز شریف کو قانونی کے ساتھ ساتھ سیاسی چیلنج بھی درپیش ہونگے، سیاسی حوالے سے یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک وقت نواز شریف نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا تھا اور انہیں پنجاب میں بہت مقبولیت ہوئی تھی مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف ملک کی سیاست میں حصہ لینے کی وہ اہلیت اور شہرت نہیں رکھتے جو اب عمران خان کو حاصل ہو چکی ہے۔پنجاب میں ضمنی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت بھی قائم کر چکی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان نے عوام کو کچھ نہیں دیا ، تقریباً 9 سال سے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی بر سراقتدار ہے اور پونے چار سال مرکز ، پنجاب اور آزاد کشمیر ان کے پاس رہے، بہت بڑا اقتدار تھا لیکن ریلیف کی بجائے لوگوں کو تکلیف ملی۔ سیاسی حوالے سے یہ تو عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی حکومت کو قبل از وقت ہٹایا گیا اور ان کو عوامی ہمدردیاں سمیٹنے میں کافی مدد ملی ہے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کا معاملہ کچھ اور ہے۔ اب بات صرف مقتدر قوتوں پر یا عدالتی فیصلوں پر ہی منحصر نہیں ہے، نواز شریف کو سوچ سمجھ کر سیاسی میدان میں آنا ہوگا اور عمران خان نے بھی الیکشن کامطالبہ کر رکھاہے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کی مدت کو کتنا وقت رہ گیا ہے؟ الیکشن ریفارمز کی بات کی جاتی ہے جبکہ قومی امور پر ریفارمز کی ضرورت ہے۔ جنرل الیکشن سے زیادہ دستور ساز اسمبلی کے الیکشن ہونے چاہئیں اور کرسی و اقتدار کے حصول کیلئے نام نہاد میثاق جمہوریت کی بجائے پاکستان میں بسنے والی قوموں کے درمیان عمرانی معاہدے ہونے چاہئیں، آگے کا سوچا جائے ، آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچا جائے۔ اقتدار سب کچھ نہیں ہوتا، آگے جو سیاسی حالات نظر آ رہے ہیں ، الیکشن ہو بھی گئے تو ان کے نتائج تسلیم کرنے کا مرحلہ آئے گا جو جماعت شکست کھائے گی وہ دھاندلی کا شور مچائے گی ، پچھلی تاریخ سب کے سامنے ہے۔ 2013ء میں (ن) لیگ کامیاب ہوئی تو تحریک انصاف پورے پانچ سال دھاندلی کا شور مچاتی رہی ، بیلٹ بکس چوری ہونے کی بات کی جاتی رہی اور کہا جاتا رہا کہ (ن) لیگ کامیاب نہیں ہوئی بلکہ کامیاب کرائی گئی ہے۔ (ن) لیگ کا دور اقتدار ختم ہوا تو 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت بنی ،پورے ساڑھے تین سال وہی الزامات (ن) لیگ دہراتی رہی جو ان کے دور حکومت میں تحریک انصاف نے ان پر لگائے تھے۔ یہ بھی دیکھئے کہ (ن) لیگ کا مطالبہ بھی مڈٹرم الیکشن کا تھا مگر عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو (ن) لیگ کو اپنا ہی مطالبہ بھول گیااور اب تحریک انصاف الیکشن کی بات کرتی ہے مگر (ن) لیگ سننے کو تیار نہیں۔ یہ سب کرسی اور اقتدار کی جنگ ہے، ملک اور قوم کی بہتری کیلئے کوئی نہیں سوچ رہا، غریب کی غربت کا کسی کو احساس نہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، غریب کا جینا مشکل کر دیا گیا ہے مگر ان سب کو اقتدار کی پڑی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ محروم طبقات کے لئے سوچا جائے اور مل بیٹھ کر اس طرح کا دستور مرتب کیا جائے جو اپنا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ محکوم لوگوں کے حقوق کا بھی تحفظ کر سکے۔ ٭٭٭٭

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author