شیر علی خالطی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیب کے دور افتادہ علاقے اور کسانوں کی بستی میں ڈھول کی تھاپ پر مرد جھومر (وسیب کا لوک ڈانس) ڈال رہے ہیں اور خواتین سہرے ( سرائیکی لوک گیت) گا رہی ہیں جبکہ بارات میں شامل لوگ دولہے پر نوٹ نچھاور کر رہے ہیں۔
اس شادی میں موجود تمام افراد کے چہرے خوشیوں سے تمتما رہے ہیں۔ دلہے کی والدہ خواتین کے حلقے میں مرکز نگاہ بنی ہوئی ہیں جبکہ خانو( دلہے کا فرضی نام) دلہا کی بہنوں کی خوشی دیدنی ہے۔ وہ ایک خاص غرور کے ساتھ اپنے بھائی کے ہاتھوں اور پیروں کو باری باری مہندی لگا رہی ہیں۔
دلہے کی والدہ اپنی دوستوں میں کھڑی تھوڑی سی مضطرب لیکن فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بار بار کن انکھیوں سے مردانہ بیٹھک کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ وہاں سے کوئی آئے اور خوشخبری سنائے کہ نکاح ہونے لگا ہے تاکہ وہ فوری طور پر اپنی بہو اور بیٹے کو بیاہ کر اپنے گھر لے جا سکیں۔
اسی اثنا میں نکاح خواں نے رجسٹر نکالا اور کوائف درج کرنا شروع کر دیے۔ پہلے نکاح خواں نے دلہا اور دلہن کے شناختی کارڈ مانگے، اس پر دلہا نے بتایا کہ انھوں نے اب تک اپنا شناختی کارڈ نہیں بنوایا۔
نکاح خواہ نے اس پر جواب دیا کہ ’تو پھر ب فارم لے آؤ۔‘
ب فارم لایا گیا۔ نکاح خواں نے تشویش کے ساتھ بار بار ب فارم پڑھا اور کہا کہ یہ نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ لڑکے کی عمر چودہ سال ہے۔ یہ بات برادری والوں کے لیے حیران کن تھی کہ ایک نکاح خواں کیسے اس بنیاد پر نکاح پڑھوانے سے انکار کر سکتا ہے۔
نکاح خواں کے اس اعلان کے بعد ڈھول کی تھاپ رک گئی اور اس تقریب میں موجود تمام مرد اور خواتین پریشان دکھائی دینے لگے اور ایسے لگتا تھا جیسے پورے ماحول نے غم کی چادر اوڑھ لی ہے۔
وہاں پر موجود چند افراد نے نکاح خواں سے پوچھا کہ ’تو تمہیں اب زیادہ فیس چاہیے۔ ایسے کہو نا کہ مہنگائی ہو گئی ہے اور تمھیں بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔ تم نکاح پڑھاؤ ہم زیادہ پیسے دے دیں گے۔۔۔‘
تاہم نکاح خواں اٹل رہا اور اس نے کہا کہ ’اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادی میں نہیں کروا سکتا۔‘
اس جواب پر راجن پور میں موجود بستی کے لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم نکاح نہ پڑھاؤ، پہلے کبھی ایسی بات نہیں ہوئی، ہمارے پورے علاقے اور بستی کے تم ہی تو نکاح پڑھاتے ہو۔
اس پر نکاح خواں اپنا بستہ باندھ کر جانے لگا تو زبردستی اُن کو بٹھایا گیا اور کہا گیا کہ نکاح پڑھائے بغیر نہیں جانے دیں گے۔ تقریب میں موجود بزرگ افراد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’کوئی حل نکالو ہم تمھیں اچھا خاصا معاوضہ دیں گے اور اس تقریب کی کوئی ویڈیو بھی نہیں بنے گی۔‘
نکاح خواں اس پر جواب دیا کہ ’اب موبائل سے کوئی ویڈیو نہیں بنائے گا۔‘
اس کے بعد نکاح خواں نے ایک سادہ کاغذ لیا، دلہا اور دلہن کا نام لکھا اور کہا کہ ہمارے مذہب میں ہے کہ جب لڑکی اور لڑکا بلوغت کی عمر کو پہنچیں فوری طور پر اُن کا نکاح کر دیا جائے تاکہ وہ ہر قسم کی برائی سے بچے رہیں اور یوں انھوں نے شرعی نکاح پڑھانا شروع کر دیا جسے مقامی لوگ ’محمدی نکاح‘ بھی کہتے ہیں۔
اس طرح بچوں کی شادی ہوگئی اور پھر سے خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے۔ نکاح خواں نے دس ہزار لیے اور چلتے بنے اور جاتے جاتے دلہا کے والد کو کہا کہ ’چار سال بعد میرے پاس آنا میں اپنے رجسٹر اور یونین کونسل میں نکاح رجسٹر کروا دوں گا۔‘
نکاح خواں ’شرعی نکاح‘ کا کیسے دفاع کرتے ہیں کیونکہ کم عمری کی تمام شادیاں ’شرعی نکاح‘ کے تحت ہوتی ہیں۔
نکاح خواں حاجی بشیر (فرضی نام ) نے بی بی سی کو بتایا کہ جدید دور سے قبل پرانے وقتوں میں نکاح کی رجسٹریشن نہیں ہوتی تھی اور تب طلاق کی شرح زیرو تھی۔
’جب سے پاکستان کے لوگوں میں پڑھنے لکھنے کی وجہ سے شعور آیا ہے، تب سے رجسٹریشن شروع ہوئی ہے اور ساتھ ہی طلاق کی شرح میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’شرعی نکاح‘ تمام لوگوں کی موجودگی میں ہوتا ہے، دونوں طرف سے گواہان موجود ہوتے ہیں پھر جا کر کہیں نکاح ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے سوال کیا کہ ’ہمیں کسی قسم کی سرکار سے تنخواہ نہیں ملتی۔ بس اس طرح نکاح پڑھانے کے کام سے ہمارے بچوں کی روزی مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم کیا کریں۔ ویسے بھی یہ قوم کی خدمت اور مذہبی فریضہ ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان کی آب و ہوا کی وجہ سے لڑکیاں جلدی جوان ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ماں باپ اپنی بچیوں کی شادیاں جلدی کر دیتے ہیں۔ جب سے حکومت کی طرف سے شادی کی عمر بڑھائی گئی ہے تب سے ہمارے وسیب کی یونین کونسلوں میں شادیوں کی رجسٹریشن کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘
کیا ’شرعی شادی‘ تصور صرف سرائیکی وسیب میں ہے یا پورے ملک میں؟
پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی ) کی ڈائریکٹر طاہرہ حبیب کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں اب پہلے کی نسبت سے اس طرح کے کیسز میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے مگر یہ سلسلہ اب بھی پورے ملک میں جاری ہے۔
طاہرہ حبیب کے مطابق ان کے کمیشن میں سنہ 2020 سے 2022 تک کم عمری کی شادی 99 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور یہ وہ کیسز ہیں جن کی رپورٹنگ پاکستان کے مختلف اخبارات میں ہوئی یعنی وہ کیسز جو بوجوہ میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر سکے وہ اس تعداد میں شامل نہیں ہیں۔
طاہرہ بتاتی ہیں کہ ان 99 کیسز میں سے 96 کیسز ایسی کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کے ہیں، جو بڑی عمر کے مردوں سے بیاہی گئیں۔ جبکہ تین کیسز کم عمر لڑکوں کی شادیوں کے رپورٹ ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کم عمری کی شادی کے کیسز زیادہ تر سندھ سے رپورٹ ہو رہے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ سندھ میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی قانون کی رو سے ہو ہی نہیں سکتی۔
یاد رہے کہ سندھ کی حکومت نے چائلد میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2016 میں نافذ العمل کیا تھا جس کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی قابل تعزیر جرم ہے۔ لیکن ایچ آر سی پی کے مطابق عمرکوٹ سندھ میں چائلڈ میرج یا کم عمری کی شادی کے 11 کیس،گھوٹکی میں دس، میرپور میں نو، تھرپارکر میں آٹھ، کراچی میں آٹھ، بدین میں پانچ، خیر پور میں چار، کشمور اور لاڑکانہ میں تین، تین کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی اس نوعیت کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
عبادت نثار ضلع بہاول پور میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر( ڈی پی او) ہیں۔ انھون نے بی بی سی کو ایک کیس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کو ایک 14 سالہ بچی نے اطلاع دی کہ ان کی زبردستی شادی ایک 55 سالہ شخص سے کی جا رہی ہے۔ پولیس فوری طور پر حرکت میں آئی اور موقع پر جا کر دلہا اور لڑکی کے والد کو گرفتار کر لیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس کیس میں تفتیش ہوئی تو پتا چلا کہ کچھ ہفتے قبل نکاح ہو چکا تھا مگر رخصتی ہونا باقی تھی تاہم رخصتی سے قبل بچی نے خود ہی پولیس کو آگاہ کر کے خود کو اس زبردستی کی شادی سے بچا لیا ہے۔‘
اُن کے مطابق عام طور پر بچیوں کی والدین اس طرح کی شادیوں میں مذہب کی آڑ لیتے ہیں اور شادی کو ’شرعی شادی‘ قرار دیتے ہیں۔
’درحقیقت یہ کوئی مذہب سے متعلقہ معاملہ نہیں ہوتا بلکہ ان علاقوں کا سماجی، معاشرتی اور معاشی مسئلہ ہے۔ بعض کیسز میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ والدین پیسے لے کر بھی اپنی بچیوں کی جلدی شادی کر دیتے ہیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ اس طرح کی شادیوں پر مائل ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں گزشتہ ایک سال میں صرف ایک ہی کیس رپورٹ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں برادری سسٹم مضبوط ہونے کی وجہ سے کیسز کم ہی رپورٹ ہوتے ہیں۔
ان معاملات میں مذہبی پریشر کیسے کام کرتا ہے؟
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب میں پولیس کو سب معلوم ہوتا ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے مگر اس طرح کی شادی کے معاملے پر وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
’بعض کیسز میں دیکھا گیا کہ کیس رپورٹ ہو بھی جائے تو کوئی کارروائی نہیں ہوتی، تھانے کا انچارج پیسے لے لیتا ہے، تو کبھی مذہبی جماعتوں کے ڈر سے پولیس مصلحتاً چپ ہو جاتی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار انھوں اس طرح کی شادی روکنا چاہی تھی تو کچھ مذہبی لوگوں نے کہا کہ ’آپ پولیس والے ہیں، ہمارے شرعی معاملات میں مداخلت نہ ہی کریں تو آپ کے حق میں بہتر ہو گا۔ یہ اسلامی ملک ہے ہمارا یہاں برطانوی قانون کے تحت نہیں ہانکا جا سکتا۔ آپ باقی معاملات دیکھیں، شرعی معاملات ہم دیکھ لیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کے پاس آنے والے لوگوں کی تعداد اور ان کے جذبات دیکھنے کے بعد ’میں نے فیصلہ کیا کہ اک چپ سو سکھ۔‘
ایڈیشنل آئی جی جینڈر کرائم پنجاب اعجاز رشید نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جب بھی اس نوعیت کا کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے تو ضلعی پولیس فوری حرکت میں آتی ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ چونکہ پولیس ان معاملات کا علیحدہ سے کوئی ریکارڈ نہیں رکھتی اس لیے وہ اعدادوشمار مہیا نہیں کر سکتے۔
آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایسے کیسز میں نکاح خواں بھی گرفتار کیے جاتے ہیں۔
وہ افسوس کے ساتھ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی نکاح خواں کو قانون توڑنے پر سزا نہیں ملی۔ انھوں نے کہا کہ پولیس اپنے تئیں قانون کی عمل داری کروانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس طرح کے کیسز میں قانون شکن عدالتوں سے بچ نکلتے ہیں۔
کم عمر بچیوں کی شادیوں کا ’گھڑے‘ سے کیا تعلق ہے؟
ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی اور سماجیات کے ماہر مؤرخ نثار صفدر کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیاں سماج میں معاشی ناہمواری اور عدم تحفظ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ’جب ریاست اپنے شہریوں کو معاشی تحفظ دینے میں ناکام رہے تو کثیر اولاد والد اپنی بیٹیوں کی جلدی شادی کرنا چاہتے ہیں، یعنی مقامی زبان میں جیسے ہی وہ ’گھڑا اٹھانے کے قابل‘ ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ خود کو بیٹیوں جیسے بوجھ سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔‘
اس کے پس پردہ غریب والدین میں یہ سوچ بھی ہوتی ہے کہ ’بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں۔‘
نثار بتاتے ہیں کہ ’ہمارے اس معاشرے میں جب بیٹی کی شادی ہو جاتی ہے تو لوگ، لڑکی کے والد کو یہ کہہ کر مبارک دیتے ہیں کہ ’شکر ہے آپ کا بوجھ اتر گیا یا ذمہ داری ختم ہوگئی۔‘
انھوں نے بتایا کہ دیہاتی علاقوں میں عام طور پر گھڑا اٹھا لینے کو لڑکیوں میں بلوغت کی عمر سمجھ لیا جاتا ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اب لڑکی گھر سنبھالنے کے قابل ہو چکی ہے، وہ کھانا پینا اور گھاس کی کٹائی بھی کر لے گی اور سسسر اور ساس کو بھی سنبھال لے گی۔
انھوں نے کہا مگر یہ سب سوچتے ہوئے اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ بچی کی ذہنی گروتھ ہوئی ہے یا نہیں، اس کے برعکس ظاہری جسمانی بلوغت ہی کو شادی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں زیادہ تر بچیوں کے رشتے بچپن میں ہی طے کر دیے جاتے ہیں اور یہاں تک کہ بچوں کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی طے کر دیے جاتے ہیں۔
کم عمری کی شادی کے نقصانات کیا ہیں؟
غیرسرکاری تنظیم ’بیداری‘ کی صوبائی کوارڈینیٹر ارم فاطمہ کہتی ہیں کہ 18 سال سے کم عمری کی شادی کے نتیجے میں بچے انسانی بنیادی حقوق جیسا کہ تعلیم، صحت، معاشی آزادی سے محروم ہو جاتے ہیں۔
’بیٹیاں آئے روز گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ چونکہ اس طرح کی شادیاں یونین کونسل اور نادرا کے ساتھ رجسٹر نہیں ہوتیں اس لیے اگر کبھی خلع لینے کے لیے عدالت جانا پڑ جائے تو نہیں جا سکتیں۔ اور پھر پھرا کر یہ مسئلہ پنچایت میں حل کیا جاتا ہے۔ یوں مذہب کی آڑ میں کم عمری کی شادی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
ارم کہتی ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام صوبوں میں شادی کی عمر، اقوام متحدہ کے بین الااقوامی کنوینشن کے مطابق 18 سال مقرر کرے اور خلاف ورزی کی صورت میں تمام ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرے اور اس طرح شادی کی حوصلہ شکنی کے لیے پیدائش اور شادی کی رجسٹریشن لازمی قرار دے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ صوبہ سندھ میں شادی کی عمر اٹھارہ سال کر دی گئی ہے مگر پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں لڑکی کی شادی کی عمر سولہ سال جبکہ لڑکے کی عمر اٹھارہ سال ہے۔
’اس میں بھی تضادات ہیں کہ جب لڑکی کی عمر اٹھارہ سال نہیں ہوگی تو شناختی کارڈ کیسے بنے گا۔ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے شادی رجسٹر بھی نہیں ہو سکے گی۔‘
جب بی بی سی نے وزیر قانون پنجاب سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں قانون کے مطابق ہی تمام شادیاں ہو رہی ہیں۔ ’صوبہ پنجاب میں شادی کے لیے لڑکی اور لڑکے کی عمر اٹھارہ سال ہے۔‘ جب بی بی سی نے انھیں آگاہ کیا کہ پنجاب میں لڑکی کی عمر کم از کم سولہ سال جبکہ لڑکے کی عمر اٹھارہ سال ہے تو وہ کہنے لگے کہ ’وہ ایک ضروری میٹننگ میں ہیں، وہ بعد میں کنفرم کر کے بتائیں گے۔
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ