گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے عید کارڈ کہاں گئے ؟
آج بہت سے دوستوں کی جانب سے عید مبارک کے پیغامات واٹس ایپ۔فیس بک پر مل رہے ہیں تو یاد آیا ان دنوں ہمیں بڑے خوبصورت پینٹنگ اور شعروں سے مزین عیدکارڈ ملتے تھے جن کا نئ نسل کو پتہ بھی نہیں۔اب نہ ڈاک رہی نہ ڈاکیا نہ خطوط سب کچھ انٹرنیٹ پر چلا گیا۔ چنانچہ ان پیغامات میں وہ رومانس بھی ختم ہو گیا۔پہلے ہمارے ہاتھ سے لکھے خطوط جذبات سے پُر ہوتے تھے۔
میرے بچپن کے زمانے ہمارے گاٶں میں نہ فون تھے نہ موبائیل ۔ تعلیم کی کمی کا یہ حال تھا کہ گاٶں میں دو کلاس پاس منشی کہلاتا تھا۔ میں جب چوتھی پانچویں کلاسں میں گیا تو گاٶں والوں کو خطوط نویس ہاتھ آ گیا۔ جن لوگوں کے بچے فوج یا کسی اور ملازمت میں باہر تھے وہ مجھ سے خط لکھواتے جن میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔ مجھے بھی کوئی خاص خط لکھنے کی ترتیب کا پتہ نہیں تھا۔۔ خط کچھ اس طرح لکھوایا جاتا۔۔سب سے پہلے سب گھر والوں کی طرف سے سلام۔ پھر تمام گھر والوں کے نام لکھ کر سلام۔ پھر خاتون اپنے شوھر کو اپنے بچوں کا نام لکھوا کر کہتی یہ سب آپکو بہت یاد کرتے ہیں۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور آہیں بھرتی۔۔ میں بے حسی سے دیکھتا رہتا۔ پھر لکھواتی اگر دوماہ سے تنخواہ کا منی آرڈر نہیں بھیجا تو خیر ہے ہم گزارہ کر لیں گے تمھاری پردیس میں تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔تیڈی خیر منگدے ہیں۔
آخر میں کہا جاتا لکھو آپ کو چالیس سلام۔ اس طرح کے عجیب خطوط ماٶں بہنوں اور بیویوں کی طرف سے لکھواۓ جاتے جو آہوں اور سسکیوں پر ختم ہوتے۔ اس کے بعد میں یہ خط لفافے میں بند کر کے مقررہ پتہ لکھ کر ڈاکخانے ڈال آتا۔
میں خود کاتب اس عمر میں نہ جانے کیوں پتھر کی طرح بے حس تھا مجھ پرآہوں سسکیوں آنسوٶں کا ذرہ اثر نہ ہوتا ۔بس خاموش پتھر بنا بیٹھا رہتا شاید بعدکی ٹھوکروں نے تراش کر کچھ انسان بنایا ۔۔اب کئ سال بعد میں ان سسکیوں اور آہوں کی تپش محسوس کرتا ہوں۔ کمال ہے ان آہوں کا اثر اتنے لمبے عرصے میرے دل میں جانگزیں رہا اور اب ستانے لگا۔؎
یاد آیا جو اسیران قفس کو گلزار ۔۔
مضطرب ہو کے یوں تڑپے کہ قفس ٹوٹ گئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ