علی احمد ڈھلوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جب تک الیکشن کی تاریخ نہیں دی جاتی، احتجاج جاری رہے گا‘‘ یہ ہے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا سب سے بڑا مطالبہ۔ اسی مطالبے پر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا آغاز بھی کیاگیا، جلسے، جلوس بھی منعقد کیے گئے اور کبھی کبھار سکیورٹی اداروں سے مدبھیڑ بھی ہوئی۔ جبکہ اسی لانگ مارچ کے دوران عمران خان پر قاتلانہ حملے نے ملک میں جاری سیاسی بحران کو اور بھی شدید کر دیا۔لیکن مجال ہے کہ پی ٹی آئی اپنے اس مطالبے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹی ہو۔ جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہر گزرتے دن اس احتجاج میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اور حیرانگی اس بات پر ہے کہ افراتفری کے اس عالم میں کسی کو پرواہ نہیں کہ مجموعی طور پر ملک کس قدر پیچھے جا رہا ہے۔ یعنی ایسی صورتحال میں سب سے بڑا مسئلہ جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے، ایسے میں ٹکرائو سے بچنے کے لیے ہمیشہ حکومت بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے درمیانی راستہ نکالتی ہے،یہاں بھی میرے خیال میں اگر حکومت الیکشن کی تاریخ دے دے تو اس میں آخر مسئلہ کیا ہے؟ اور پھر اگر الیکشن کی تاریخ دینے سے ووٹر گھروں سے نکلتا ہے تو یہ ملک کے لیے خوش آئند بات ہے؟ لیکن اس کے برعکس یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ یہاں ہر بندہ اپنی اپنی سیٹ پر چپکنا کیوں چاہتا ہے؟یورپ یا کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں ایسی صورتحال ہو تو فوراََ عوام سے رجوع کیا جاتا ہے،اور وسیع تر ملکی مفاد میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ تبھی تو دو ماہ میں برطانیہ کے 3وزرائے اعظم تبدیل ہو چکے ہیں، سبھی وزیر اعظم نے جاتے ہوئے ایک ہی بات کہی کہ اگر میرے جانے برطانیہ میں سیاسی استحکام آسکتا ہے تو وہ جانے کے لیے فوری تیار ہیں۔ جبکہ یہاں نہ تو ملکی مفاد کی خاطر استعفیٰ دینے کا رواج ہے نا ہی عوام کے پاس جانے کا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ خان صاحب کے ’’الیکشن مطالبے ‘‘کی سب سے زیادہ مخالفت اْن حضرات کی طرف سے کی جا رہی ہے جو 2018ء کے عام انتخابات کے اگلے روز سے ہی اس کے نتائج کو ماننے سے انکاری تھے اور نیا الیکشن چاہتے تھے۔ 2018ء کے انتخابات میں ناکام ہونے والی یا کم سیٹوں پر کامیاب ہونے والی جماعتوں کی قیادت کی کوئی بھی پریس کانفرنس، کسی بھی عوامی اجتماع میں کیا جانے والا خطاب یا کوئی معمول کا بیان اْٹھا کر دیکھ لیں، وہ آپ کو ایک ہی مطالبہ کرتے نظر آئیں گے کہ ملک میں اگلے عام انتخابات کے جلد انعقاد کا اعلان کیا جائے۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد کی ان کی کوئی میڈیا بریفنگ اٹھا کر دیکھ لیں وہ آپ کو یہی باتیں دہراتے نظر آئیں گے کہ یہ الیکشن جعلی تھے، یہ اسمبلی جعلی ہے اور یہ کہ ہم اس جعلی اسمبلی کو نہیں مانتے۔ ان کی طرف سے بار بار، تکرار کے ساتھ الیکشن کے روز آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے کے حوالے دیے جاتے رہے۔ اور اب ان کی سوچ اور اخلاقی معیار کا اندازہ کیجئے کہ جس اسمبلی کو وہ جعلی کہتے نہیں تھکتے تھے اب اْسی اسمبلی میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اْسی اسمبلی میں بیٹھ کر وہ اپنے خلاف دائر مقدمات ختم کروا چکے ہیں، اْسی اسمبلی میں بیٹھ کر وہ نیب کا حلیہ بگاڑ چکے ہیں۔ اب اْس اسمبلی اور اْن انتخابات کی شان اور افادیت پر ایسی ایسی بیان بازی کی جاتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔بقول شاعر حیدر علی آتش نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے حد تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں بھی مسائل چل رہے ہیں، وہ بھی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، پی ڈی ایم یا تو مرکز میں نظر آرہی ہے یا سندھ میں۔ جبکہ تحریک انصاف 2صوبوں میں بھی ہے۔اور مرکز میں بھی 150سے زائد سیٹیں رکھتی ہے۔ اور حالات یہ ہیں کہ تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلزپارٹی تینوں بڑی پارٹیاں ایک دوسرے کی جان کی دشمن بن چکی ہیں۔ تبھی ملک کی معاشی حالت دیکھ لیں، ڈالر ریٹ دیکھ لیں، مہنگائی دیکھ لیں،دنیا بھر میں ہماری ریٹنگ دیکھ لیں اور تو اور جب آپ کا ملک ڈونیشن پرچل رہا ہو تو ایسے میں سنبھل کر چلنے کے بجائے ہر کوئی دراڑیں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور خدشہ رہتا ہے کہ ایک ادارے کی باہمی لڑائی سے اس وقت ملک ٹوٹ رہا ہے، معاشی طور پر مفلوج ہو رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سیلاب نے بھی موجودہ معاشی مشکلات میں شدید اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے تو پھر مشرف کا دور بہتر تھا، نہ تو پیپلزپارٹی کے دور میں حالات ساز گار تھے، نہ اْس کے بعد آنے والے ادوار میں کبھی حالات سازگار ہوئے۔ جبکہ تحریک انصاف کے دور میں حالات ساز گار ہوئے بھی تھے تو اْنہیں چلنے نہیں دیا گیا۔لہٰذا میرے خیال میں اس بحران سے بچنے کے لیے فوری طور پر الیکشن کی تاریخ دے دی جائے اور پھر جو نتیجہ سامنے آئے سب اْسی پر عمل کریں۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ الیکشن شفاف ہوں! لہٰذاضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت الیکشن کی تاریخ دے دے۔خواہ عیدالفطر سے پہلے یا بعد کی دے دی جائے، یعنی اپریل کی تاریخ دے دی جائے۔ تو اس سے کیا فرق پڑنا ہے؟ کیا قومی مفاد کے لیے 2,4مہینوں کی قربانی نہیں دی جاسکتی؟ اور ویسے بھی پی ڈی ایم نے ان چار مہینوں میں کیا کر لینا ہے؟ اگر گزشتہ 30سال میں ان کا پیٹ نہیں بھرا تو اگلے چند ماہ میں کیسے بھر سکتا ہے؟ اس لیے ہوش کے ناخن لیں اور الیکشن کی تاریخ انائونس کر دیں تاکہ سیاسی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے! ٭٭٭٭٭
یہ بھی پڑھیں:
پڑھتاجا شرماتا جا!۔۔۔ علی احمد ڈھلوں
دوسری ہلاکت خیز لہر۔۔۔ علی احمد ڈھلوں
اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کیا ہو گا؟۔۔۔ علی احمد ڈھلوں
ملک مقروض :اشرافیہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں! ۔۔۔ علی احمد ڈھلوں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر