گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب کے لطیفے ۔
ہمارے ڈیرہ کے دوست جب یونائٹڈ بک سنٹر پر اکٹھے ہوتے ہیں تو میرے منع کرنے کے باوجود بات چیت کا رخ موسم ۔ادب شاعری ۔تاریخ سے موڑتے ہوۓ سیاست اور مہنگائی پر لےآتے ہیں۔ یار سارا میڈیا دن رات سیاست ۔ مہنگائ ۔بے روزگاری ۔بدامنی ۔دھشت گردی پر دھاڑتا رہتا ہے پوری قوم ڈیپریشن کا شکار ہے ہم چند لمحے بک سنٹر کچھ گپ شپ کے لیے گزارنے آتے ہیں پھر وہی ڈیپریشن والی باتیں۔ مگر بیٹھے تو سارے پروفیسر ادیب شاعر اور دانشور ہوتے ہیں تو وہ اپنی بات بتانے کی ترکیب نکال لیتے ہیں ۔آج مجھے ایک سرائیکی لطیفہ سنایا مگر اس میں چھپی سیاست صاف نظر آ رہی ہے۔ یہ لطیفہ سن کر آپ خود انصاف کریں۔ اردو ترجمہ بھی دے دیا ہے۔
سرائیکی وسیب کے سکول کے ایک استاد نے شاگرد سے پوچھا۔۔
پڑھ کے کیا بنڑسیں۔۔
سرائیکی بچے نے جواب دیا ۔۔پائیلٹ بنڑساں استاد جی۔۔
استاد نے پوچھا۔۔ ول جڈاں توں جہاز تے آسیں تاں ساکوں کیویں پتہ لگسی اے رمضو دا جہاز ویندا پیے۔۔ بچے نے جواب دیا ۔۔استاد جی میں تہاڈے اتے بم سٹی ویساں۔۔
ترجمہ۔۔استاد نے پوچھا بڑے ہو کے کیا بنو گے؟بچے نے کہا پائلٹ بنوں گا۔۔
استاد نے جب پوچھا کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا اوپر والا جہاز رمضو شاگرد کا ہے ۔ رمضو کہتا ہے استاد جی میں آپ کے اوپر بم گرا دونگا تاکہ پتہ چلے رمضو کا جہاز جا رہا ہے۔
اب میں اپنے دوستوں کو کیا کہوں کہ مہنگائی کے لیے ایسا لطیفہ گھڑنے کی کیا ضرورت تھی کہ جس کو پائلٹ بناتے ہیں بم گرا دیتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر