گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے شکاری نئے جال ۔
ایک زمانے میں شھر میں تین بہت چالاک ٹھگ رہتے تھے جو صرف باتیں کر کے لوگوں کو لوٹ لیتے ۔ ان میں ایک باپ اور دو بیٹے تھے یعنی ایک ٹھگ فیملی۔
ایک دفعہ انہوں نے گاٶں سے ایک تگڑی دودھ دینے والی گاۓ کو ہتھیانے کا فیصلہ کیا۔
وہ جانوروں کی منڈی کے دن گاٶں سے منڈی جانے والے راستے پر الگ الگ کچھ فاصلے پر کھڑے ہو گۓ۔
سامنے ایک دیہاتی ایک اعلی نسل کی گاۓ لے کر آرہا تھا۔
سب سے پہلے چھوٹا بھائ آگے بڑھا اور کسان سے کہا بھائ یہ مرغی منڈی بیچنے جا رھے ہو مجھے ضرورت ھے مجھ پر بیچ دو اچھے دام دیتا ہوں۔ کسان نے کہا اندھے ہو یہ گاۓ ھے مرغی نہیں۔
چھوٹے ٹھگ نے کہا بھائ کسی اور سے پوچھ لو یہ مرغی ھے تم گاۓ بنا رھے ہو۔وہ کسان کے ساتھ چلنے لگا اور کچھ فاصلے پر ٹھگ کا بڑا بھائ نظر آی تو چھوٹے نے کہا بے شک سامنے ایک شریف آدمی نظر آرہا ھے اس سے پوچھ لیتے ہیں۔
جب وہ قریب گۓ تو دوسرے ٹھگ بھائ نے خود دور سے آواز لگائ کہ بھائیو یہ مرغی انڈے بھی دیتی ھے یا نہیں ۔اصیل نسل ھے؟
پھر کسان پریشان ہو کے کہنے لگا یار یہ گاۓ ھے۔
اب دونوں اس کے ساتھ چلنے لگے اور کہا کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں یہاں تک وہ بڑے ٹھگ کے پاس پہنچ گۓ۔ اب چھوٹے نے کہا یار یہ نورانی شکل بزرگ ہیں اس سے فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ جب قریب گۓ تو بزرگ نے چھوٹتے ہی کہا جوانو یہ مرغی بیچنے جا رھے ہو یا نئ خریدی ھے۔
اب بزرگ کی بات سن کر کسان ہکا بکا اور پریشان ہو گیا اور آخر اونے پونے گاۓ مرغی کی قیمت پر فروخت کر دی۔
میڈیا پر کنٹرول کا یہی نتیجہ اور message کے بار بار نشر کرنے کا یہی راز ھے۔ کہ آخر وہ سچ لگنے لگتا ھے اور ہم ہر جھوٹ مان لیتے ہیں۔اور بار بار لٹتے رہتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ