گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریکی سے روشنی کیسے کشید کریں؟
جب پاکستان 1947 میں وجود میں آیا تو خواندگی کی شرح پندرہ سولہ فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ اور اعلی تعلیم یافتہ لوگ تو ایک فیصد بھی نہیں تھے۔ لیکن وہ ایک فیصد پڑھے لکھے لوگ بے سروسامان ملک کی ہچکولے کھاتی کشتی کو اگلے بیس سال میں سات آٹھ فیصد ترقی کی شرح تک لے گئے ۔نہ ملک پر قرضہ تھا نہ ڈالر کی قیمت بڑھتی اور نہ اشیاۓ ضرورت کے ریٹ روزانہ بدلتے تھے۔روپیہ بھی مستحکم تھا۔1970ء کے بعد ہم نیچے کی طرف پھسلنا شروع ہوئے اور پھسلتے چلے گئے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے تعلیمی نظام سے تربیت اور کردار سازی کا عنصر غائب ہو گیا۔ پھر ہم نے جمھوریت کے مزے لینے شروع کئے تو منتخب نمائندوں کے لیے تعلیم کا معیار ختم کر دیا۔ اب ان پڑھ اور نیم خواندہ حکمران جب ہم پر مسلط ہوۓ تو وہ اخلاقی معیار سے خالی تھے چنانچہ حکومت کے پڑھے لکھے کل پرزوں کو بھی وہ اپنی ڈھب پر لے آۓ اس طرح گورنس کا وہ غدر مچا کہ 1857ء کے غدر سے بھی زیادہ تباہی پھر گئی۔اب ہم اس سٹیج پر پہنچ گئے ہیں کہ کوئی اپنا صاف ستھرا نظام تو تخلیق نہیں کر سکتے کم از کم باہر کے کسی آزمودہ نظام کی کاپی کر لیتے۔مگر مفاد پرست طبقہ مگر مچھ کی طرح دانت گاڑے نظام کو تبدیل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ ہمارا انٹیلیکچول طبقہ قوم کو ایک صاف ستھرا نظام دینے میں متحد کیوں نہیں ہوتا کیا وہ بھی لفافہ صحافت کی طرح بھاڑے کا ٹٹو بن گیا ہے اور باغ اجڑتا دیکھتا رہے گا؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ