نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان پر قاتلانہ حملہ : کیوں، کیسے ، کون ؟…||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات کا دن پاکستان کے لئے خوش قسمت رہا کہ وزیرآباد میں عمران خان پر حملہ کامیاب نہیں ہوا اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنماﺅں میں سے بھی سب محفوظ رہے، ایک بدقسمت کارکن البتہ جاں بحق ہوا، عمران خان سمیت کئی زخمی ہوئے۔

اس حملے کے حوالے سے بعض پہلو اہم بھی ہیں اور ان کا ہر سطح پر نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔

حملہ خطرناک تھا

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک نہایت خطرناک اور تباہ کن حملہ تھا۔ یہ قاتلانہ حملہ تھا۔ عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش ۔ عمران خان پر فائرنگ کی گئی، انتہائی خوش قسمتی اور اللہ کی رحمت سے کامیاب نہ ہوسکی۔

درحقیقت یہ ڈائریکٹ فائرنگ ہی تھی، ڈرانے کی کوشش نہیں۔ اگر اتفاق سے تحریک انصاف کا ایک ہوشیار اور بیدارمغز کارکن پسٹل کو فوری نہ دیکھ لیتا، وہ چھلانگ لگا کر پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے پستول کو تھوڑا نیچے نہ کر دیتا تو گولیاں یقینی طور پر کنٹینر کی چھت پر کھڑے لوگوں کے سینے یا گردن ، ماتھے وغیرہ پر لگتیں۔

استعمال ہونے والا ہتھیار

حملہ میں نائن ایم ایم پسٹل استعمال کیا گیا جو جدید اور نہایت خطرناک ، طاقتور ہتھیار ہے۔ نائن ایم ایم پسٹل کے ساتھ تیرہ گولیوں کا میگزین لگتا ہے جو الگ ہوسکتا ہے۔

اس کی رینج خاصی ہے، سو میٹر تک کارگر ہے جبکہ پچاس میٹر تک انتہائی موثر ۔ اس پسٹل کی گولیاں چھوٹی موٹی لوہے کی چادر اور اینٹ کی عام دیوار سے بھی گزر جاتی ہیں۔ انسانی جسم پر گولی لگے تو بہت اندر تک چلی جاتی ہے۔ یہ خاصا مہنگا ہتھیار ہے اور پاکستانی مارکیٹ میں چار پانچ لاکھ سے کم نہیں ملتا۔

ڈراما کہنے والے ذہنی مریض

سوشل میڈیا پر دیکھا کہ بعض عمران خان مخالف لوگ بلا سوچے سمجھے اس حملہ کو ڈرامہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ نہایت بچکانہ بات ہے۔ اپنے آپ کو کون گولی مرواتا ہے؟ فلموں، ڈراموںکی بات الگ ہے، مگر عملی زندگی میں ایسی کوئی حرکت نہیں کی جاتی۔ اس لئے کہ جہاں اصلی گولیاں استعمال ہو رہی ہوں، وہاں ڈرامہ حقیقت بنتے دیر نہیں لگتی۔

گولی ٹانگ میں مارنے کا ارادہ ہو تو ہاتھ کی معمولی سی لغزش سے وہ پیٹ یا سینے میں لگ سکتی ہے، خون زیادہ بہنے یا اندرونی اعضا متاثر ہونے سے جان جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس لئے ایسی احمقانہ تھیوری پر یقین کرنے والوں کو کل صبح کسی نفسیاتی ہسپتال سے چیک اپ کرانا چاہیے۔ یقینی طور پر ان کے دماغ کا کیمیکل بیلنس نارمل نہیں۔

فائرنگ کیسے ہوئی ؟

اکثر لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ جب فائرنگ اوپر کی گئی تو زخمی ہونے والوں کو گولیاں نچلے دھڑ میں کیوں لگیں؟

بات بہت آسان ہے ۔ آپ زمین پر کھڑے ہو کر سامنے موجود بلڈنگ کی دوسری منزل کی بالکونی پر کھڑے اپنے دوست کے پاس گیند پھینکیں، اس کے قوی امکانات ہیں کہ آپ کی پھینکی گیند اس تک نہ پہنچے ، اسے آگے نیچے کی طرف جھک کر گیند پکڑنا پڑے گی ۔ اگر گیند پھینکتے ہوئے کوئی بچہ یا دوست آپ کے ہاتھ کو ہلا دے تو پھر گیند اوپر تک جا ہی نہ پائے گی، ممکن ہے پہلی منزل تک بمشکل پہنچ پائے۔

اس واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ملزم نے کنٹینر کی چھت پر کھڑے عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماﺅں کا نشانہ لے کر فائرنگ کرنا چاہی۔ عین اسی وقت پر تحریک انصاف کے کارکن (غالباً ابتسام نام )نے پسٹل دیکھ کر چھلانگ لگائی اور ہاتھ پکڑ کر پسٹل چھیننے کی کوشش کی۔ پستول کی نالی جھک گئی اوریوں اوپر کھڑے لوگوں کے سینے ،سر وغیرہ کا نشانہ خطا ہوا اور گولیاں دو تین فٹ نیچے لگیں۔

کنٹینر میں نیچے وہاں پر شیٹ لگی ہوئی تھی، مگر وہ بلٹ پروف نہیں تھی، گولیاں شیٹ کو چیرتی ہوئی عمران خان سمیت دیگر لوگوں کی ٹانگوں وغیرہ کو لگیں، ایک آدھ کو کہیں اوپر بھی لگ گئی۔

گن چونکہ آٹومیٹک تھی ، اس لئے روکتے روکتے بھی برسٹ فائر ہوگیا، چھ سات فائر ہوگئے۔ پستول پکڑے حملہ آور بھاگنے لگا تو وہاں پر ہلکے نیلے شلوار قمیص میں ملبوس ایک اور کارکن اسے پکڑنے لپکا، اسے گولی لگی ، وہ بدقسمت گرا اور پھر نہیں اٹھا۔ برسٹ کے چند لمحوں بعد فائر ہونے والی گولی یہ تھی، اس کا تحریک انصاف کے کارکن ابتسام نے بھی اپنے بیان میں ذکر کیا۔ ایک گولی اور چلی، مبینہ طور پر وہ کنٹینر کے اوپر موجود کسی گارڈ نے فائر کی، اس نے شائد حملہ آور کو نشانہ بنایا یا لاشعوری طور پر فائر کر دیا۔

بعض لوگوں کو اس پر حیرت ہے کہ کنٹینر بلٹ پروف ہے تو گولیاں اندر کیسے چلی گئیں؟ دراصل نیچے کنٹینر بلٹ پروف تھا، وہاں پر موجود لوگ گولیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں، تاہم کنٹینر کے اوپر تو کھلی چھت ہے، وہ کیسے بلٹ پروف ہوسکتی ہے؟ اس کی ایک ہی صورت ہے کہ بلٹ پروف شیشہ لگایا جاتا مگر عمران خان نے اس کی اجازت نہیں دی، وہ تو جلسوں میں بلٹ پروف ڈائس سے بھی خطاب نہیں کرتا۔

کیا پکڑا جانے والا ہی اصل حملہ آور ہے؟

بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی فوٹیج کے کلرز ایسے ہیں کہ وہاں حملہ آور کا لباس بعد میں اعترافی ویڈیو دینے والے شخص کے لباس سے مختلف لگ رہا ہے۔ ایسا مگر نہیں۔ حلیہ ایک ہی ہے۔ جس نے اعترافی بیان دیا ، وہی حملہ آور ہے۔ میں نے مختلف کرائم رپورٹرز سے معلومات لینے کی کوشش کی، ان کے پولیس کے ذرائع یہی بتاتے ہیں۔

ویسے اسے چیک کرنا مشکل نہیں۔ جب بھی کسی گن سے فائر کیا جائے تو نادیدہ گن پاﺅڈر ہاتھوں پر لگ جاتا ہے۔ پولیس والے ایک فارنسک ٹیسٹ کرتے ہیں جسے پیرافین ٹیسٹ( paraffin test) کہا جاتا ہے، اس کے ذریعے پتہ چل جاتا ہے کہ اسی شخص نے گن چلائی ۔اس واقعے میں حملہ آور فوری پکڑا گیا، اسے ہاتھ دھونے کا موقعہ بھی نہیں ملا۔ پولیس کو اپنے پروٹوکول کے مطابق ملزم کا پیرافین ٹیسٹ کرنا چاہیے، اس سے کنفرم ہوجائے گا کہ یہی شخص ہے جس نے نائن ایم ایم پسٹل چلایا۔

حملہ آور کتنے تھے ؟

یہ بھی بہت اہم سوال ہے۔ انصافین کارکن ابتسام کے بیان سے تو یہ لگتا ہے کہ یہی ایک حملہ آور تھا۔ ویسے سٹیج اور آس پاس کا علاقہ بے شمار موبائل کیمروں اور ٹی وی کیمروں کی زد میں تھا، اسی وجہ سے ملزم کے کئی فوٹیج سامنے آ گئے۔ اگر کوئی اور حملہ آور ہوتا تو گن سمیت وہ بھی نظر آجاتا۔

یہ کہا گیا کہ چھتوں سے بھی فائرنگ ہوئی۔ اگر چھت سے فائرنگ ہوتی تو وہ کنٹینر پر کھڑے لوگوں کے اوپری جسم پر لگتی، پیروں پر لگنے کی تک نہیں تھی۔ پھر ان گولیوں کی آواز کیوں نہیں آئی؟ جو آواز آئی وہ واضح طو رپر ایک ہی گن کے برسٹ کی تھی، ماہرین کے مطابق یہ نائن ایم ایم پسٹل ہی کا برسٹ تھا۔ کوئی اور ہتھیار چلایا جاتا تو اس کی الگ سے آواز سنائی دیتی۔

بعض خبریں آئی ہیں کہ زخمیوں کو گولیوں کے چھرے لگے۔ نائن ایم ایم کی گولیوں کے چھرے نہیں لگتے، ریپیٹر یا بعض دیگر گنوں کی گولیوں کے چھرے لگ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے ۔ بظاہر تو چھرے لگنے کی تک نہیں۔ ممکن ہے جب گولیوں نے کنٹینر کی شیٹ کو کراس کیا تو لوہے کے ننھے ٹکڑے زخمیوں کو لگے ہوں۔

اس معاملے کو حل کرنا بہرحال مشکل نہیں۔ گولیوں سے باآسانی پتہ چل جائے گاکہ وہ نائن ایم ایم کی ہیں یا کوئی اور ہتھیار بھی استعمال ہوا۔ زخموں کی نوعیت سے بھی پتہ چل جاتا ہے کیونکہ مختلف گن کی گولیاں مختلف انداز سے زخم ڈالتی ہے۔

اعترافی بیان کیوں وائرل ہوا؟

اعترافی بیان کے حوالے سے سب سے قابل اعتراض اور سنگین بات یہ ہے کہ فوری طور پر یہ ویڈیو کیوں وائرل ہوئی ؟ کس کے کہنے پر ایسا ہوا؟یقینی طور پر کچھ طاقتور حلقوں نے ایسا کرایا اور وہ پنجاب حکومت ہرگز نہیں تھی۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے اس امر کا نوٹس لے کر تھانے کے افسران کو معطل بھی کیا ہے۔

اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ کن کے کہنے پر ایسا کیا گیا۔ عام طور پر پولیس ایسا نہیں کرتی۔ پولیس کبھی ملزم کی تصاویر یا ویڈیو بھی جاری نہیں کرتی کیونکہ اس سے کیس کمزور پڑ جاتا ہے۔ بعد میں ملزم کی شناخت پریڈ ہوتی ہے اور عینی شائدین شناخت کرتے ہیں۔ اس کیس میں انصافین کارکن ابتسام اور موقعہ پر موجود دیگر لوگوں کی شناخت اور گواہی اہم تھی۔

ملزم کی ویڈیو جاری ہوجانے کے بعد شناخت پریڈ والا معاملہ کمزور ہوجاتا ہے۔ ملزم کا وکیل کہہ دیتا ہے کہ انہوں نے ویڈیو یا تصویروں سے ملزم کو پہلے ہی پہچان رکھا تھا اور شناخت پریڈ محض فارمیلیٹی تھی۔

ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ کسی پر الزام لگائیں یا کوئی حتمی رائے دیں، انکوائری کے بعد ہی حقائق سامنے آنے چاہئیں۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ جنہوں نے ایسا کرایا، انہیں اس میں دلچسپی تھی کہ اس حملے کا شبہ ان پر نہ کیا جائے اور لوگ فوری طور پرملزم کے اعترافی بیان کو ڈسکس کرنے لگ جائیں۔

کمزور اعترافی بیان

ملزم کا اعترافی بیان بڑا کمزور اور ناقابل یقین ہے۔ پہلااعتراض تو یہ کہ جس ٹھنڈے اور پرسکون انداز میں وہ گفتگو کر رہا ہے، وہ خلاف معمول ہے۔ ایک شخص جو بھرے مجمع میں ایک بڑے سیاسی لیڈر پر گولیاں چلا کر آیا ہے، اسے نہیں معلوم کہ کتنے لوگ مر چکے ہیں۔ ایسے شخص کو ہیجان اور سنسنی کی کیفیت میں ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے پرسکون انداز میں اعتراف کرنا عجیب لگا۔

دو قسم کے لوگ ایسا کرسکتے ہیں، وہ جو کسی نشے یا ہپناٹائز کی کیفیت میں ہوں اور جنہیں اس جرم کی سنگینی کا اندازہ ہی نہ ہو، دوسرا وہ جو پیشہ ور قاتل ہوانسانی جان کی اس کے نزدیک اہمیت ہی نہ ہو۔

پھر ایک بظاہر مفلوک الحال نظر آتا شخص اتنی مہنگی پسٹل کہاں سے خرید سکتا ہے؟ اگر اس کے پاس کوئی دیسی پستول ہوتا تو قابل فہم تھا کہ کہیں سے چند ہزار میں پستول لے کر یا کسی سے ادھار مانگ کر اس نے یہ کارروائی کر ڈالی۔ نائن ایم ایم پسٹل واضح طور پر ملزم کی اوقات اوراستطاعت سے بہت اوپر کی گن ہے۔

ملزم کی یہ بات بھی نہایت بچکانہ اور فضول ہے کہ میں لاہور سے اس کے پیچھے چلا آ رہا ہوں۔ لاہور میں اس طرح کی کسی بھی کارروائی کے لئے حالات زیادہ سازگار تھے۔ مارچ وہاں کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر رہا تھا۔ پھر پچھلے چھ دنوں سے یہ مارچ چل رہا تھا، اب اچانک اس خاص ایریا میں یہ کارروائی کیوں ہوئی ؟

واضح طور پر کچھ نہ کچھ مقامی سہولت کار موجود ہیں، جنہوں نے ترغیب دی ، برین واشنگ کی یا کچھ اور ایسا کیا کہ حملہ آور تیار ہوگیا۔ اسے گن بھی کسی اور نے دی ہے۔

آذان کے موقعہ پر ڈیک چلانے والی بات بھی فضول ہے۔یہ ایسی بات نہیں جس پر کوئی شخص اتنا مہنگا پسٹل لے کر قتل کرنے نکل کھڑا ہو اور جس طرح اس نے فائرنگ کی، اگر ہاتھ کارخ نہ مڑ جاتا تو کئی لوگ قتل ہوجاتے ۔اعترافی بیان میں اس نکتہ کے ذکر سے یوں لگ رہا ہے کہ اس طرح رخ ایک مذہبی گروپ کی طرف موڑنا مقصود ہے۔ ویسے ملزم کا اس گروہ سے تعلق نہیں لگ رہا، ان کی ڈکشن اور گفتگو کا مزاج اور ہوتا ہے۔

غیر جانبدارانہ تفتیش ہونی چاہیے

پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ پنجاب پولیس کی یہ ذمہ داری ہے، وہ غیر جانبدارنہ تفتیش کرے۔ ملزم کے ماموں کو یقینی طور پر پکڑا جا چکا ہوگا، جہاں وہ اپنی موٹر سائیکل کھڑا کر آیا۔ اس کے سیاسی، دینی، مسلکی رجحانات، دوستوں، سرپرستوں وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے معلومات جمع کی جائیں، شفاف تحقیقات ہوں جس سے پتہ چل سکے کہ ملزم کے ساتھ اور کون ہے اور کیا اس کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں:ابتسام کون ہے؟ عمران خان پر حملہ کیسے ناکام بنایا؟

اگر یہ واقعہ اسلام آباد میں ہوتا تو تحریک انصاف تفتیش کرنے والے اداروں پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیتی۔ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے، یہاں پراپنی مرضی کے قابل اعتماد پولیس افسروں سے تفتیش کرائی جا سکتی ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ پنجاب حکومت اس امر کا خاص خیال رکھے گی اور اگلے ایک دد دنوں میں باقاعدہ ابتدائی انکوائری رپورٹ بھی میڈیا سے شیئر کرے گی۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author