میں بھی پوری قوم کی طرح مبہوت ہوا کہ آئی ایس آئی کا چیف پریس کانفرنس سے خطاب کر رہا ہے۔ اپنے اعتماد والے ہی صحیح لیکن صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہا ہے۔
رات کی تاریکی میں ہونے والی ملاقاتوں کا حال لائیو ٹی وی پر بتا رہا ہے اور اُردو کے بھاری بھر کم الفاظ استعمال کر کے ہمارے سیاستدانوں اور صحافیوں کو شرمندہ کر رہا ہے۔
اگر آئی ایس آئی چیف ٹی وی پر آ کر بولے گا تو اس کو جواب بھی عوامی جلسوں میں ملے گا۔ عمران خان نے اگلے دن ہی للکارا کہ کان کھول کر سُن لو تم آدھا سچ بول رہے ہو۔
یہ باتیں سُن کر ماضی کے آئی ایس آئی کے سربراہوں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔
پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے آئی ایس آئی کے چیف اسد درانی صاحب ہیں۔
پہلے ہمیں بتایا گیا کہ اے پی ایس (آرمی پبلک سکول کا واقعہ) محض کولیٹرل ڈیمج تھا، پھر را کے سابقہ چیف کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھ ڈالی۔ اس کے بعد ان کی نقل و حرکت پر کچھ پابندی لگی تو گھر بیٹھے بیٹھے ایک ناول لکھ ڈالا۔ وہ پہلے دو صفحے پڑھ کر میں نے ایک طرف رکھ دیا۔ اگر کسی نے پورا پڑھا ہو تو خلاصہ مجھے بتا دے۔
درانی صاحب چونکہ پڑھنے لکھنے کے شوقین تھے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ادبی تقاریب میں نظر آنے لگے۔ ایک تقریب میں میری ایک دوست مصنفہ نے پوچھا کہ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کرتے ہیں تو کہا کہ مجھے باغبانی کا شوق ہے۔ چند ماہ بعد ایک اور تقریب میں پائے گئے، میری دوست نے ان سے پھول کیاریوں کا حال پوچھا، فرمانے لگے آپ کیا کہہ رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آپ نے ہی کہا تھا کہ آپ کو باغبانی کا بہت شوق ہے۔ ہنس کر فرمانے لگے میں آئی ایس آئی چیف رہا ہوں آپ مجھ سے کیوں توقع کرتی ہیں کہ میں سچ بولوں گا۔
سچ بولنا شاعروں، درویشوں اور کبھی کبھی باغی سیاستدانوں اور صحافیوں کا کام ہے۔ آپ کسی پیشہ ور جاسوس سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ وہ سچ بولے گا۔
پاکستان میں آئی ایس آئی کا چیف یا تو اتنا طاقتور ہوتا ہے یا اتنا کمزور کہ وہ کبھی سچ بول ہی نہیں سکتا بلکہ سچ بولنا شاید اس کے عہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔
ہمارے زندگی کے پہلے مشہور آئی ایس آئی چیف اختر عبدالرحمان تھے۔
خود اپنے آپ کو ’خاموش مجاہد‘ کا خطاب دیا، پھر افغانستان میں اپنی کامیابوں کے حوالے سے ایک سوانح عمری لکھوائی، عنوان اس کا تھا ’فاتح‘۔
اس میں ذکر تھا کیسے انھوں نے افغانستان میں سویت یونین کو شکست دی۔ روس اور افغانستان آج دونوں آزاد ہیں اور ہم اب بھی حقیقی آزادی کے لیے ایک سست رو مارچ کر رہے ہیں۔
جنرل حمید گل سے زیادہ مشہور تو کوئی آئی ایس آئی چیف نہیں رہا۔ وہ جلال آباد فتح کرنے چلے تھے لیکن رستے میں میڈیا کو انٹرویو دینے لگے اور اپنے آخری دم تک دیتے رہے۔
ان کی کمان میں ان کے آرمی چیف اور درجن بھر سینیئر جنرل بظاہر ایک جہاز کو گرا کر ہلاک کر دیے گئے لیکن ان کی فاتحانہ مسکراہٹ کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
اور اب حال یہ ہے کہ ہم جلال آباد والوں کی داڑھی کو ہاتھ لگا کر منتیں کرتے ہیں کہ ہم آپ کے بھائی ہیں ہمیں بخش دو۔
جس طرح ہم سب کا اپنا پسندیدہ کرکٹر، گلوکار یا بریانی کا برانڈ ہوتا، میرے پسندیدہ آئی ایس آئی چیف جنرل جاوید ناصر رہے ہیں۔ وہ قدرے غیر معروف ہیں اور شاید اپنے زمانے میں تھوڑے نالائق بھی سمجھے جاتے تھے۔ ٹرک بھر بھر کر مجاہدین کو کابل بھیجتے تھے اور ان ٹرکوں کے ساتھ کھڑے ہو کر نعرہ تکبیر بھی بلند کرتے تھے۔ اور شاید پاکستان کے پہلے باریش آئی ایس آئی چیف تھے۔
کہتے ہیں کہ انھوں نے بوسنیا کے جہاد میں بھی اپنا حصہ ڈالا تھا، پر وہ ریٹائر ہو گئے اور ہم بھی انھیں بھول گئے۔ پھر ایک دن میں نے دیکھا کہ جنرل صاحب کا ٹی وی پر انٹرویو چل رہا ہے لیکن سکرین بلینک ہیں۔ نہ ان کی فوٹیج نہ کوئی تصویر، صرف سکرین پر نام لکھا ہے پھر انٹرویو کے دوران اینکر نے خود ہی بتایا کہ جنرل صاحب تصویر کشی کو حرام سمجھتے ہیں، ٹی وی پر شکل دکھانا مکروہ ہے لیکن اپنا پیغام تو پہنچانا ہے تو اس لیے قوم سے مخاطب ہیں۔
ہمارے موجودہ آئی ایس آئی چیف ظاہر ہے ایک پروفیشنل سولجر ہیں، غیر سیاسی ہیں اور ظاہر ہے ان کا اپنا حلال حرام ہے۔ تو چاہیں تو وہ بھی جنرل جاوید ناصر سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ شکل بھی نظر نہ آئے، پیغام بھی پہنچ جائے۔ ویسے آدھا سچ تو آدھا سچ ہی رہتا ہے چاہے اردو کتنی ہی شستہ کیوں نہ ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر