گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ سے محبت کا جنون ۔۔۔
جب میں بچپن میں لاھور کے ایک سکول میں پڑھتا تھا اس وقت ڈیرہ دریاخان پکا پل نہیں بنا تھا ۔ہم 25 کلومیٹر پھیلے سمندری جزیرہ نما دریائے سندھ میں لانچوں اور ایس ایس جھلم جہاذ کے ذریعے دریا خان سے ڈیرہ آتے تھے۔ سارا دن دریا کی مختلف شاخوں کو عبور کرتے شام کے قریب ڈیرہ پتن کے درخت جونہی نظر آتے تو سب لوگ خوشی سے کھڑے ہو جاتے اور زور سے نعرہ لگاتے اللہ دا ناں اللہُ اللہ۔
آج یونائیٹڈ بک سنٹر پر ہمیں ڈھونڈتے ڈاکٹر محمد اشفاق آ نکلے۔ڈاکٹرصاحب پیشے کے لحاظ سے ڈینٹل سرجن ہیں اور سعودی عریبیہ کی king Khalid University میں سات سال سے پروفیسر ہیں ۔ ان کی یونیورسٹی سعودی عرب کے جنوبی شھر Abha میں ہے جو ہمارے ایبٹ آباد اور مری کی طرح ٹھنڈا خوشگوار موسم کا شھر ہے مگر ڈیرہ کی محبت انہیں ڈیرہ کے 49 ڈگری انتہائ سخت گرم موسم میں یہاں آنے سے نہ روک سکی اور ہمیں ڈیرہ کی محبت کا وہ پرانا زمانہ یاد دلا دیا۔۔ ڈاکٹر اشفاق صاحب طب کے علاوہ علم و ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر کافی ایکٹیو ہیں اور ہمیں بھی سوشل میڈیا پر ڈھونڈ نکالا ۔ آج کی محفل میں ڈیرہ کے دانشور ۔مصنفین۔شاعر حضرات میں ابوالمعظم ترابی ۔پروفیسر ڈاکٹر فخر گیلانی۔ سید ارشاد حسین شاہ بخاری ۔رحمت اللہ عامر ۔بشیر سیماب۔ اور یونائیٹڈ بک سنٹر کے محمد لطیف موجود تھے اور کئی علمی ادبی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔
ڈیرہ کی عید کا رنگ پھیکا پڑنے لگا ۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں کوئ خاص انڈسٹری نہیں ہے اس لئے یہاں کے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی لاھور کوئٹہ اسلام آباد اور پشاور کا رخ کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہر عید کے موقع پر اپنے پیاروں کو ملنے ڈیرہ آتے ہیں اور پھر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ پٹرول کی شدید مہنگائ کی وجہ سے اس دفعہ بہت سے لوگوں نے ڈیرہ آنے کا پروگرام کینسل کر دیا ہے جس کے نتیجے میں یہ تہوار اب پھیکا سا رہے گا ۔ حالت یہ ہے کہ سکول اور کالج کے بچوں کے تعلیمی اداروں میں آنے جانے کے اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ماں باپ سخت پریشان ہیں۔ خود ہمارے دوست جو روزانہ یونائیٹڈ بک سنٹر پر اکٹھے ہوتے اب آنا کم کر دیا ہے اور اس کی وجہ مہنگائ ۔ میں خود ایک سو روپے روزانہ کا پٹرول موٹر سائیکل میں ڈلواتا ہوں ایک کپ جتنا ملتا ہے اور بمشکل دن گزرتا ہے حالانکہ میں صرف بازار جا کر واپس آتا ہوں۔ بڑے شھروں میں تو افراتفری مچی ہے۔ایک مزدور اگر گاٶں سے شھر مزدوری پر آنے جانے کے چار سو روپے خرچ کرے تو کیسے گزارا کرے گا۔ گاڑیوں والے موٹر سائیکل اور موٹر سائیکل والے پیدل شفٹ ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کے عوام کے ٹیکس پر اخراجات اور عیاشیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔بڑی بڑی گاڑیاں سیکورٹی کے جلوس جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان سورج جتنا فاصلہ ہے جو عوام کے حالات سے ناواقف ہیں۔
ڈیرہ کی دو اہم شخصیات۔ایک گھر دو ڈاکٹرز۔۔
آج یونائٹڈ بک سنٹر ڈیرہ ڈاکٹر محمد عبداللہ عابد اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹر سعد عبداللہ تشریف لائے اور جدید عصری و فکری مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ڈاکٹر عبداللہ عابد اسلامی علوم کے سبجیکٹ کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں اور متعدد یونیورسٹیوں میں پڑھانے اور Phd کرانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سعد عبداللہ نے فارمیسی میں تعلیم حاصل کی لیکن ایک بڑے شاعر ۔ادیب ۔ دانشور ۔سوشل ورکراور نوجوانوں کے رہنما بھی ہیں۔ اس موقع پر درگاہ پیر کھگلاں شریف کے پیر فقیر شیر محمد صاحب بھی موجود تھے جو ایک بڑے سکالر ۔سوشل ورکر اور دینی رہنما ہیں۔تصویر میں یونائٹڈ بک سنٹر کے پروپرائٹر محمد لطیف سرائیکی شاعر بشیر احمد سیماب اور گلزار احمد موجود ہیں۔
کھجور اتارنے کا عمل اور ڈیرہ ۔۔۔
شھروں میں آجکل جگہ جگہ تازہ کھجور بک رہی ہے۔ کھجور کی سیکڑوں قسمیں ہیں اور کھجور کا درخت تیس چالیس فٹ بلند ہوتا ہے۔ اس کے پتوں میں بڑے تیز نوکدار کنڈے ہوتے ہیں۔ کھجور اتارنے کا عمل خاصا مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے ۔ اس کے لیے دس بارہ فٹ لمبے مضبوط رسے جسے کمند کہتے ہیں کی ضروت ہوتی ہے۔ یہ وہی کمند ہے جو شاعر نے کہا ہے؎ قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند ۔۔۔دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا۔
اس کمند کے ذریعے مزدور لوگ کھجور اتارتے ہیں اور پھر بازاروں اور مارکیٹوں پہنچتی ہے ۔ آج کھجور اتارنے کے عمل کی وڈیو دیکھئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر