نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روشنی کا لمبا سفر۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روشنی کا لمبا سفر۔
میرے بچپن کا زمانہ اپنے گاوں کے جنوں اور پریوں میں گزرا۔پہلے ہماری نانیاں دادیاں جنوں اور پریوں کے قصے سنا کر ہمیں لوری دیتیں پھر سیف الملوک سننی شروع کی اور ناران جا کے سیف الملوک جھیل بھی دیکھ آے۔ وہاں کھڑے قصہ گو پریوں کی داستان سنا کر روزی کماتے ہیں۔ ہماری ذھن میں پری کا تصور سچ مچ ایک خوبصورت نوجواں لڑکی کا جس کے پر ہوں اور وہ اڑتی پھرتی ہو بٹھا دیا گیا۔پریوں کو دیکھنے کوہ قاف روس کا چکر بھی لگا آیا۔ گاوں کے لوگوں کے پاس تفریح کے پارک۔ سینما تو نہیں تھے بس جن۔بھوت۔پریاں۔چڑیل۔جادو۔ٹونہ۔تعویز گنڈے۔پوکھو۔ پر بہت اعتقاد رکھتے تھے۔میرا خیال ہے یہ سب کچھ غربت پسماندگی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے تھا۔غریب آدمی کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہوتے تو وہ آسان اور سستا راستہ تلاش کرتا ھے۔ ہمارے لوگوں کی گاے ۔بھینس۔بکری بھی بیمار ہوتی تو دم کرانے سے علاج ہوتا جس پر خرچہ کم آتا۔ خود دانت کے درد کا علاج بھی دم درود سے کیا جاتا۔اگر ملیریا بخار ہو جاتا تو ایک بزرگ ۔۔تنڑی فقیر۔۔کی قبر پر سات دفعہ دھاگہ ناپ کے پہنا دیتے۔یرقان کے لیے کسی لکڑی کی چھوٹی ٹہنیوں کا ہار دم کر کے باندھ لیتے۔ بد نظری۔میاں بیوی کے لڑائی ۔جھگڑے۔ حل کرنے کے علیحدہ تعویز تھے۔اگر باولا کتا کاٹ لیتا تو نمک دم کر کے دیا جاتا۔گردے کی پٹھری نکالنے کا دم علیحدہ تھا۔مقدمہ جیتنے ۔کاروبار چلنے کے علیحدہ تعویز تھے۔۔سانپ کے کاٹنے پر منکا لگا دیتے جو زھر چوس لیتا۔ ہڈی ٹوٹ جاتی تو لوکل پہلوان لوگ آٹے کا گرم حلوہ رکھ کر پٹی باندھ دیتے۔ ہم بچہ لوگ حلوہ کھاتے بھے تھے ۔ایک جھمٹاں والی ملم بھی ٹوٹے جوڑ جوڑنے میں کام آتی۔جو چیزیں مجھےحیران کرتی رہیں وہ عجیب تھیں ۔جب میں تین چار سال کا تھا تو گاوں کی ماسیاں جب دہی سے مٹوری میں مکھن بلونا شروع کرتیں تو مجھے چلنے کا کہتیں میں کیٹ واک کرتا اور وہ دہی بلونا شروع کر دیتیں۔ان کا خیال تھا کہ میرا پوکھو ایسا ہلکا یا بھاری ھے کہ مکھن زیادہ نکلے گا۔ دوسرے والی ماسی جب دوپٹہ کاڑھنا شروع کرتی تو مجھے کیٹ واک کراتی کہ میرا پوکھو ہلکا ھے کام جلد مکمل ہو گا۔ایک دفعہ ہمارے گاوں میں کسی کے گھر سے کپڑے سینے والی مشین چوری ہو گئی۔پہلے تو کُھرا دیکھنے والے کو بلایا گیا جو پیروں اور جوتوں کے نشان پر چور پکڑتا مگر ناکامی ہوئی۔پھرایک دارے والے کو بلا بھیجا۔دارے والے عامل نے کہا پانچ سال کا سیانہ بچہ لاو جس کے انگوٹھے پر سیاہی لگا کے کچھ پڑھونگا تو چور ٹی وی کی طرح نظر آے گا۔ اتفاق کی بات ہے میری عمر کے گاوں کے سارے بچے کودن تھے اور ایک میں افلاطون کی طرح سیانہ بچہ تھا اور گاوں والوں نے پکڑ کر عامل کے آگے بٹھا دیا۔ عامل نے میرے انگوٹھے پر کالی سیاہی اس طرح لگائی کہ وہ ٹی وی سکرین بن گئی اور کچھ کلام دہرانے کا کہا وہ کلام یہ تھا۔۔۔کالی گنجی واسطہ سلیمان پیغمبر دا چور کوں حاضر کر۔۔۔ یہ بار بار کہنا ہوتا اور انگوٹھے کی سکرین پر یہ دیکھنا تھا کہ گاوں کا کونسا آدمی مشین چراتا نظر آ رہا ھے۔ ایک گھنٹے کی لا حاصل دارے کی کوشش میں مجھے کچھ نظر نہ آیا اور چور صاف بچ گیا۔ ابھی پچھلے دنوں ڈیرہ میں چور پکڑنے کے لیے سدھاے ہوے کتوں کے استعمال کا رواج شروع ہوا ہے وہ شاید اب بھی ہے۔ ہمارے گاوں میں ایک واردات کے لیے کتے لاے گیے میں بھی ان کے ساتھ یہ کرتب دیکھنے کے لیے گھومتا رہا مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ دس ھزار روپے ان کی فیس تھی۔۔ ایک دن
میرے کمرے میں میرا برش اور دوائی کی ڈبی نہیں مل رہی تھی تو میری بیوی سے گرمی ہوگئی۔ میری بیوی نے غصے میں کہا مجھ پر مت برسو خود گم کیے ہونگے اگر اعتبار نہیں تو کتے لے آو وہ تمھیں چور ڈھونڈ دینگے۔میں نے کہا ٹوٹل 136 روپے کا سامان نہیں مل رہا تو دس ھزار کے کتے کیوں لاوں ۔ تو کہنے لگی چور کا تو صحیح پتہ چلے گا۔۔ مطلب تم خود پکڑے جاو گے۔سچ بھی یہی ہے کہ میں چیزیں رکھ کے بھول جاتا ہوں۔ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ میرے گاوں کے اکثر لوگوں پر جن کا سایہ تھا اس کے لیے رات کو ہارمونیم اور ڈھولکی والے آتے اور ڈھولک کی تھاپ پر سر کو دائیرے کی شکل میں ہلا ہلا کر ناچتے ہوۓ جن کھیلے جاتے اس کو جاتر کا نام دیا جاتا۔ بہت سے لوگ بلوٹ شریف میں بھی جن کھیل کر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ گاوں کے لوگوں نے کئی دفعہ چڑیل بھی دیکھی اور اس کا حلیہ بیان کرتے تھے۔ کہا گیا ایک بزرگ پر پریاں عاشق تھیں وہ چلتے پھرتے بولتے رھتے جیسے کوئی اسکے ساتھ چل رہا اور محو گفتگو ہو۔
پھر میں نے قران پاک کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تو ہماری دنیا ہی بدل گئی ۔یہ ایسا نور کا منبہ ہے جو دل کو توحید کے سورج سے منور کر دیتا ہے۔میرے بھائیو زندگی اور ماحول کی ان بھل بھلیوں میں رہ کر اللہ کی توحید کا تصور اگر میرے دل میں پیوست ھے تو یہ اللہ کا کرم اور فضل ھے ۔

About The Author