مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا عرس۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا125 واں سالانہ عرس مبارک آج سے کوٹ مٹھن شریف میں شروع ہو رہا ہے ۔ عرس مبارک کی تقریبات تین دن جاری رہیں گی ، اندرون و بیرون ممالک سے لاکھوں عقیدت مند عرس کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کور سرائیکی زبان کا بے بدل شاعر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ 150 سال پہلے کی شاعری آج بھی وسیب کے دلوں پر راج کر رہی ہے اور جو بھی خواجہ فریدؒ کی کافی سنتا ہے تو اسے اپنی اور آج کی بات لگتی ہے ، یقینا خواجہ فرید صدیوں کے شاعر ہیں ،خواجہ فرید کا زمانہ انگریز راج کا زمانہ ہے ‘ خواجہ فرید کی پوری زندگی میں کسی انگریز عہدیدار سے ملاقات کا کوئی حوالہ نہیں ملتا، خواجہ فریدؒ نے اپنی شاعری میں جو پیغام دیا وہ پیغام ’’ اپنی نگری آپ وسا توں ، پٹ انگریزی تھانے ‘‘ کا پیغام تھا ۔ حضرت خواجہ صاحب 26 ذیعقد 1261ھ بمطابق 1845ء میں خان پورکے مشہور قصبہ چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حضرت خواجہ خدا بخش المعروف خواجہ محبوب الٰہی نے آپ کا نام تاریخی نام خورشید عالم رکھا،بعد میں بابا فرید کی نسبت سے نام غلام فرید تجویز ہوا اوراسی نام سے شہرت حاصل فرمائی۔ آپ کی پرورش مکمل اسلامی ماحول میں ہوئی۔ 3 سال کی عمر میں آپ کے بڑے بھائی حضرت خواجہ فخر جہاں نے آپ کو اپنے بھائی حضرت خواجہ تاج محمود کے پاس پڑھنے کے لئے بٹھایا۔ ملتانی قاعدے کی الف پر انگلی رکھتے ہوئے خواجہ تاج محمود نے فرمایا ’’آکھ فرید الف‘‘ معصوم فرید نے بھی جواب میں کہا ’’آکھ فرید الف‘‘۔ خواجہ تاج محمد نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے اور جواب میں خواجہ صاحب نے بھی ہو بہو الفاظ دہرائے۔ یہ سن کر حضرت خواجہ فخر جہاں اور حاضرین مجلس پر وجد طاری ہو گیا ۔ اللہ والوں کی محفل تھی، بات ملتانی قاعدے کی الف سے اللہ کی الف تک جا پہنچی اور اللہ والوں کی محفل کیف و سرور بن گئی۔ حضرت خواجہ غلام فرید کی عمر چار سال تھی کہ والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا، آٹھ سال کی عمر میں والد ماجد اللہ کو پیارے ہوگئے،والد صاحب کی وفات کے بعد بڑے بھائی حضرت خواجہ فخر جہاں سجادہ نشین بنے، ان کی اولاد نہ تھی اور خواجہ صاحب کو اپنا بیٹا بنایا۔ آپ نے خواجہ فریدؒ کی تعلیم، تربیت، پرورش اولاد سے بڑھ کر کی اور آپ کو یتیمی کا احساس نہ ہونے دیا، والدین کی وفات کے بعد نواب آف بہاولپور نے حضرت فخر جہاں سے استدعا کی کہ خواجہ فرید کو ہمارے ہاں بھیج دیں تاکہ شاہی محل میں کامل اساتذہ کی نگرانی میں آپ کی تعلیم ہو سکے۔ چنانچہ فخر جہاں نے اپنے مرید کی استدعا قبول کرتے ہوئے خواجہ فرید کو شاہی محل ڈیرہ نواب صاحب بھجوا دیا۔ آپ نے آٹھ سال کی عمر میں نہ صرف قرآن مجید حفظ کر لیا بلکہ بہت سے دینی علوم سے بھی واقفیت حاصل کر لی۔آپ نو سال شاہی محل میں مہمان رہے۔ 1857ء میں آپ اپنے مربی اور بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں کے دست بیعت ہوئے اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔ خواجہ صاحب نے فرمایا: فخر جہاں قبول کیتوسے، واقف کل اسرار تھیوسے ہر جاہ نور جمال ڈٹھوسے، مخفی راز تھئے اظہار میں نے ایک کتاب فکر فراق فریدی میں لکھا تھا کہ سرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فرید کو کوئی گوئٹے ، کوئی شیلے ، کوئی سارتر، کوئی اقبال کوئی داغ اور غالب کہتا ہے ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ خواجہ فرید کسی کی مثال نہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ خواجہ فرید ایک ذات نہیں بلکہ ایک کائنات کا نام ہے ۔آج میرا موضوع تقابلی جائزہ نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ خواجہ فرید کا وسیب کے مرکز ملتان سے کیا تعلق ہے ؟ خوشی کی بات ہے کہ خواجہ فرید نے ملتان کے ساتھ ساتھ ملتان کی ایک خاتون سے محبت کی اور یہ محبت ازدواجی رشتہ میں تبدیل ہوئی، سر زمین ملتان سے خواجہ غلام فرید ؒکا گہرا رشتہ ہے۔ ان کے بزرگ خواجہ محمد زکریا سندھ سے نقل مکانی کر کے ملتان کے نواح میں واقع بستی منگلوٹ (تحصیل لودھراں) میں آئے اور یہاں ایک عظیم الشان دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی ۔شاہجہاں بادشاہ ہند نے مخدوم نورمحمد کو پانچ ہزار بیگھہ اراضی پر مشتمل 140 چاہات نذر کیے تھے جس کی آمدنی سے مدرسے کا خرچ چلایا جاتا تھا، تین پشت کے بعد خواجہ غلام فرید کے بزرگان میں سے مخدوم محمد شریف نقل مکانی کر کے سیت پور یا ریوالی میں آباد ہو گئے ۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ خواجہ فرید کے مرید نواب بہاولپور نے ایک شخص کو ریاست بدر کر دیا، وہ شخص روتا ہوا خواجہ فرید کے پاس پہنچا، خواجہ فرید نے مختصر ترین خط لکھا نہ اس میں کوئی القابات لکھے نہ خطابات۔ خواجہ صاحب نے لکھا ’’صادق! زیر تھی، زبر نہ بنْ، متاں پیش پووی‘‘، سائل وہ خط لے گیا، اس کی ریاست بدری ختم ہوئی۔ خواجہ فرید اتنے انسان دوست تھے کہ معروف کتاب مقابیس المجالس کے مطابق خواجہ فرید نماز عصر کے بعد مجلس جمائے بیٹھے تھے، ایک غیر مسلم عورت پلیٹ میں گرم پکوڑے لے کر آئی اور استدعا کی کہ یہ میں آپکے لئے لائی ہوں، کھائیں۔ آپ نے کھا لئے، مجلس میں بیٹھے ہوئے مصاحبین نے کہا کہ حضور آپ روزے سے تھے، آپ نے فرمایا مجھے معلوم ہے، بتائیے کہ روزہ توڑنے کا کیا کفارہ ہے؟ تو علماء نے کہا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ساٹھ روزے رکھنا، آپ نے فرمایا یہ دونوں کام میرے لئے مشکل نہیں۔ البتہ دل توڑنے کا کفارہ میں ادا نہ کر سکتا تھا، وہ غیر مسلم عورت مسلمان ہو گئی۔ خواجہ فرید کی پوری زندگی انسان دوستی سے بھری پڑی ہے، وہ جبہ و دستار سے کوسوں دور تھے، سادہ لباس، سادہ کھانا اور غریبوں میں اٹھنا بیٹھنا تھا ۔آخر میں عرض کروں گا کہ محکمہ اوقاف کے پاس ساڑھے 12 ہزار ایکڑ دربار فرید کی وقف اراضی ہے ، دوکانات ، مکانات ، باغات و دیگر املاک اس کے علاوہ ہیں لیکن عرس کے موقع پر زائرین کیلئے کوئی سہولت نہیں ہوتی، نہ کوئی رہائش گاہیں ہیں نہ باتھ روم کی سہولت ۔ ایک عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ چاچڑاں شریف کے فرید محل کو قومی یادگار اور کوٹ مٹھن کو تحصیل کا درجہ دیا جائے مگر آج تک کوئی شنوائی نہیں ہو سکی ۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: