محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان جمعہ سے اپنا لانگ مارچ شروع کر چکے ہیں، جسے انہوں نے’’ حقیقی آزادی مارچ‘‘ کانام دیا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمی کو کوئی بھی من پسند نام دے دیتے ہیں۔ ماضی میں بھی ہم ایسا کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ حکومت کے خلاف چلنے والی کسی تحریک کو تحریک نجات کہہ دیا جاتا ہے، کبھی کچھ اور۔مولانا فضل الرحمن نے تین سال پہلے اپنے مارچ کو آزادی مارچ کہا تھا، قاضی حسین احمد اپنے لانگ مارچ کو ازخود ملین مارچ کہتے تھے یعنی دس لاکھ لوگوں کا مارچ ۔ اسی طرح عمران خان بھی لاہور سے اسلام آباد کے لانگ مارچ کو حقیقی آزادی مارچ قرار دے چکے ہیں۔ آپ کو اتفاق ہو یا اختلاف ، یہ نام تو رکھا جا چکا ہے۔ لانگ مارچ پر مزید بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ دو اصولی نکات بیان کر دئیے جائیں۔ اصولی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت کو سیاسی جلسہ، جلوس یا پرامن سیاسی اجتماع کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ شہر کی کسی جگہ پر دھرنا بھی دے سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ سے اجازت لی گئی ہو اور وہ جگہ منتخب کی جائے جہاں اجتماع سے لوگوں کی نقل وحرکت میں رکاوٹ نہ آئے۔ روزمرہ زندگی رواں دواں رہے۔ یہ حق عمران خان کو بھی حاصل ہے۔ دوسرا اصولی نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی جماعت، گروہ یا تنظیم کو عوامی قوت سے حکومت گرانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ وہ اپنے سیاسی احتجاج اور موقف بیان کرنے کے لئے جلسہ، جلوس، اجتماع، دھرنا وغیرہ کر سکتے ہیں، مگر انہیں یہ حق نہیں کہ وہ یلغار کرکے شہری انتظامیہ مفلوج کر دیں، لااینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کریں اور ایسی بحرانی صورتحال پیدا کر دیں کہ حکومت گر جائے یا پھر مقتدرحلقے دبائو ڈال کر حکومت کو پسپا ہونے پر مجبور کردیں۔ یہ حق مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ، پی پی پی کو حاصل نہیں تھا، عمران خان کے پاس بھی نہیں۔ یہ بات اس لئے اہم ہے کہ اگر ایک بار کوئی حکومت اس طرح گر گئی تو پھر کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گی۔ سیاسی جماعتوں کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اکیلے یا دیگر جماعتوں کا اتحاد بنا کر پچاس ہزار سے ایک لاکھ لوگ اکھٹے کریں اور اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں ۔ یوں ایک کامیاب لانگ مارچ کرنے والی اپوزیشن کل کو جب اقتدا رآئے گی تو جن کی حکومت گرائی گئی ، وہ اپوزیشن میں آ کر وہی حربے نئی حکومت کے خلاف استعمال کریں گے۔ مخالفت در مخالفت اورسیاسی انتقام لینے کی خوفناک روایت قائم ہوجائے گی ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اس طرح حکومت نہیں چلا پائے گی۔ اسی وجہ سے لانگ مارچ کو انتہائی صورت مانا جاتا ہے ۔ ذاتی طو رپر میں نے ہر قسم کے لانگ مارچ اور دھرنوں کی مخالفت کی ہے۔ 2014ء میں جب عمران خان نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل کر اسلام آباد پر چڑھائی کی اور طویل دھرنے کا اعلان کیا تو خاکسار نے اپنے کالموں میں اس کی ڈٹ کر مخالفت کی ۔ اگرچہ عمران خان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا تھا، مگر ایک غیرجمہوری، غیر سیاسی لائحہ عمل کے خلاف لکھا۔ دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد جب مولانا فضل الرحمن نے یہی سب کیا، تب بھی اس کی مخالفت کی ۔ اب عمران خان کے لانگ مارچ کے حوالے سے بھی میری ذاتی رائے وہی ہے کہ اس انتہا پر نہیں جانا چاہیے اورایسا کرنا کئی اعتبار سے خطرناک ہوسکتا ہے۔ عمران خان بہرحال ہر قسم کی تنقید وتوصیف سے بے نیاز ہو کر اپنا لانگ مارچ شروع کر چکے ہیں۔ پہلا دن لاہور میں گزرا، تعداد کے اعتبار سے یہ اچھا شو تھا۔ لبرٹی میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے، بعد میں اچھر ہ اوراس سے آگے بھی بھرپور رہا۔ دوسرے دن شاہدرہ سے مارچ شروع ہوا اور آگے مریدکے تک چلا، تاہم مارچ شام سات بجے ہی ختم کر دیا گیا۔ تیسرے دن کامونکی سے شروع ہو کر گوجرانوالہ تک لے جانے کا ارادہ ہے۔ اگلے دنوں میں گجرات، وزیرآباد ، سیالکوٹ، جہلم، گوجر خان وغیرہ سے ہو کر پنڈی تک جانا ہے۔ اعلان کردہ منصوبے کے مطابق اسلام آباد میں چار نومبر کو داخلہ ہوگا، یعنی چھ سات دن تک یہ لانگ مارچ جاری رہے گا۔ لانگ مارچ کے حوالے سے یہ لگ رہا ہے کہ عمران خان کو اسلام آباد پر چڑھائی کر کے اسے تسخیر کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ پانچ ماہ قبل انہوں نے پچیس مئی کو لانگ مارچ نکالا تھا تو کوشش یہی تھی کہ چوبیس گھنٹوںمیں اسلام آباد پہنچا جائے۔ کے پی سے ان کا قافلہ اسلام آباد پہنچ بھی گیا مگر وہاں پراسرار طور پر عمران خان نے دھرنا دینے یا ڈی چوک پر تقریر کرنے کے بجائے مختصر سی تقریر کے بعد مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس حوالے سے بعد میں مختلف دلائل اور توجیہات پیش کی گئیں، مگر کوئی بھی متاثرکن نہیں تھی۔ اس بار عمران خان کا پلان مختلف ہے۔ کرکٹ کی اصطلاح میں وہ لمبا کھیل رہے ہیں، وکٹ پر زیادہ دیر تک ٹھیرے رہنے کی کوشش اور آخری اوورز میں ہٹنگ کرنا۔ ایک زمانے میں جاوید میانداد ایسا کرتے تھے، بعد میں انضمام اور مصباح الحق کا بھی یہ مخصوص سٹائل تھا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان دبائو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔شائد کہیں پس منظر میں کچھ اور بھی چل رہا ہو۔ کوشش یہی لگ رہی ہے کہ چھ سات دنوں تک کوریج لیں، عوام رابطہ مہم چلائیں اور پھر جب کوئی دوسری آپشن نہ رہے تب اسلام آباد میں گھسنے کی کوشش کی جائے۔ عمران خان اسلام آباد میں ایک دھرنا دے چکے ہیں، انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ جلسہ کرنا اور بات ہے، لاکھوں لوگ اس میں جمع ہوسکتے ہیں، چند گھنٹوں کے بعد وہ واپس گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ جلسہ کے مقابلے میں کسی جگہ پرلاکھوں تو کیا ہزاروں لوگوں کو بھی دھرنے کے لئے بٹھانا زیادہ مشکل اور پریشان کن معاملہ ہے۔ ان سب لوگوں کے لئے کھانے پینے کے انتظامات، حوائج ضروریہ کے لئے عارضی ٹوائلٹس وغیرہ، اسلام آباد کی خنک راتوںمیں رات گزارنے کی منصوبہ بندی وغیرہ۔ پھرجب دھرنا شروع ہوجائے تو اسے ختم کرنا بھی آسان نہیں۔مطالبہ منوائے بغیر دھرنا چھوڑنے کی کوئی تک نہیں اور اگر مطالبہ نہ مانا جائے تو پھر باعزت واپسی کا راستہ نکالنا مشکل ہے۔ خان صاحب یقینی طور پر یہ سب چیزیں اپنے ذہن میںلئے چل رہے ہوں گے۔ ان کے لانگ مارچ کے حوالے سے امکانی منظرنامے تین ہیں۔ لانگ مارچ مکمل ہونے سے پہلے کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے ۔الیکشن کی ایسی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے جوتحریک انصاف کے لئے قابل قبول ہو۔ بظاہر یہ بات آسان نہیں لگ رہی ۔ دو دن پہلے جو غیر معمولی پریس کانفرنس ہوئی، اس کے بعد واضح ہوچکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں، وہ الٹا ان پر برہم ہیں اور ان کے لانگ مارچ کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تحریک انصاف کی ناکامی اسٹیبلشمنٹ کے لئے دل خوش کن ثابت ہوگی۔ دوسری آپشن یہ ہے کہ عمران خان بھرپور عوامی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد جا دھمکیں۔ وہ ڈیڈھ دو لاکھ لوگوں کے ساتھ شہر میں داخل ہوں اور کسی مخصوص جگہ پر جلسہ کریں اور پھر دھرنے کا اعلان کر دیں۔ اگر عمران کے ساتھ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ ہوں تو اس کا امپیکٹ بڑا اورگہرا ہوگا۔ معلوم نہیں تب چیزیں کس طرف چلی جائیں۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے، اتنے لوگ جمع ہوں تو چیزیں بالکل ایج (کنارے)پر ہوتی ہیں، معمولی سی غلطی بھی سب کچھ الٹ پلٹ دے گی۔ تیسرا منظرنامہ یہ ہے کہ عمران خان کو کسی بھی صورت اسلام آباد داخل نہ ہونے دیا جائے۔ طاقت کا بھرپور استعمال کر کے مارچ کو روکا جائے۔ گرفتاریوں کا وقت تو گزر چکا ہے، پنجاب اور کے پی صوبائی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے وفاقی حکومت تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کو گرفتار نہیں کر سکتی، جیسا پچیس مئی کو کیا گیا۔ اب مارچ کو کنٹینر اور آنسو گیس کی شیلنگ وغیرہ ہی سے روکا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ کسی عدالتی حکم کے ذریعے مارچ روکنا ہوسکتا ہے۔ وفاقی حکومت یہ چاہ رہی ہے کہ کسی مبینہ آڈیو کا جواز بنا کر لانگ مارچ پر عدالتی پابندی لگوائی جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں تحریک انصاف مجبور ہوسکتی ہے، ورنہ توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے میں ابھی چار دن پڑے ہیں، دیکھیںاونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ایک بات ابھی سے طے ہوچکی ہے کہ اگر لانگ مارچ شہر اقتدار میں داخل ہوگیا، دھرنا بھی شروع ہوگیا، تب بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی سپورٹ نہیں ملے گی۔ پاکستانی تاریخ میں آج تک کوئی بھی سیاسی دھرنا اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اپنے ایجنڈے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ صرف عوامی قوت کے ذریعے حکومت نہیں گرائی جا سکتی ۔ اللہ کرم فرمائے اور ملک وقوم کو تصادم، ٹکرائو سے محفوظ رکھے۔ ہماری کمزورمعیشت اور منقسم سیاست کسی بڑے دھچکے کو برداشت نہیں کر پائے گی۔لگ یوں رہا ہے کہ کسی بھی ممکنہ صورت میں عمران خان کی حالیہ سیاسی اننگ کا یہ فائنل رائونڈ ثابت ہوگا۔ وہ کامیاب لوٹیںگے یا پھر ناکام ہو کر اگلے چھ آٹھ ماہ کے لئے سکون سے بیٹھ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر