محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں بہت دلچسپ ڈرامائی پیش رفت ہوئی۔
اس کی تفصیل لکھتا ہوں، مگر پہلے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی اور اس کے سٹرکچر کو سمجھ لیں۔
آج سپریم کورٹ کے لئے تین ججوں کی نامزدگی کا فیصلہ ہوگیا ہے۔
ان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اظہر حسن رضوی جبکہ لاہورہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کی نامزدگی میں اتفاق رائے تھا جبکہ جسٹس اظہر حسن اور جسٹس شاہد وحید کی نامزدگی کا فیصلہ پانچ چار کے تناسب سے ہوا۔
چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجاز الحسن ، ریٹائر جج سرمد جلال عثمانی کے علاوہ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے تینوں ججوں کی حمایت میں ووٹ ڈالے
جبکہ تین سینئر ججوں جسٹس فائز عیسیٰ ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ اور پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین نے جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی کے تقرر کی مخالفت کی ۔
واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز شامل ہوتے ہیں، ایک ریٹائر سینئر جج سپریم کورٹ کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کرتا ہے۔ دو نمائندہ وفاقی حکومت کی جانب سے ہوتے ہیں، اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیرقانون ۔ جبکہ ایک ممبر وکلا کی تنظیم یعنی پاکستان بارکونسل کی نمائندگی کرتا ہے۔
مخالفت کی سب سے بڑی وجہ لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں لئے جانے والے ججوں کا سینئر موسٹ نہ ہونا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو پچھلی بار بھی بائی پاس کیا گیا، اس بار بھی ان سے جونئیر جج کا تقرر ہوا، مگر انہیں زیربحث نہیں لایا گیا۔ یہی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ کیا گیا۔ لاہور سے نامزد ہونے والے جج شاہد وحید کا سینارٹی میں چوتھا نمبر ہے۔
یاد رہے کہ چند ماہ قبل بھی ایسا کیا گیا تھا اور جسٹس عائشہ ملک کو چوتھے نمبر پر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا، مگر اس کے پیچھے جسٹس عائشہ ملک کا شاندار ریکارڈ ہونے کے ساتھ یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ ان کے جج بننے سے پاکستانی عدالتی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون سپریم کورٹ کی جج بنی گئیں۔
وکلا تنظیموں اور جسٹس فائز عیسیٰ، طارق مسعود، منصور علی شاہ وغیرہ کا موقف ہے کہ سینئر ترین جج ہائی کورٹ یعنی چیف جسٹس ہائی کورٹ ہی کو سپریم کورٹ بھیجنا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ جو کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ہیں، ان کی صورت میں یہ شرط پوری ہوتی تھی، اس لئے انہیں نو کے نو ارکان نے ووٹ ڈالا۔
آج چار ججوں پر غور ہونا تھا، تین جج نامزد کر دئیے گئےجبکہ چوتھے جج جسٹس شفیع صدیقی کی مخالفت ریٹائر جج سرمد جلال عثمانی نے بھی کر دی ، یوں ان کے خلاف پانچ ووٹ ہوگئے تھے۔ چیف جسٹس عطا بندیال نے ان کے تقرر کو ملتوی کر دیا۔
جوڈیشل کمیشن کے بعد پارلیمانی کمیٹی نے فیصلہ کرنا ہے، عام طور پر پارلیمانی کمیٹی انہی نامزد ارکان کو منظور کر لیتی ہے۔
آج سب سے دلچسپ کام یہ ہوا کہ جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی کی پچھلے اجلاس میں وزیرقانون اور اٹارنی جنرل نے مخالفت کی تھی۔ ان کی مخالفت کے باعث ہی چیف جسٹس مجبور ہوگئے اور انہوں نے اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔
آج کے اجلاس میں نجانے کیوں دونوں حکومتی نمائندوں وفاقی وزیرقانون اور اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس عطا بندیال کے موقف کی تائید کر دی۔ یوں دونوں ہائی کورٹ کےنسبتاً جونئیر جج صاحبان نامزد ہو گئے۔
اس کا پتہ نہیں چل سکا کہ وفاقی حکومت اچانک ہی اپنے پچھلے موقف سے یوٹرن لے کر چیف جسٹس کی حمایتی کیسے بن گئی ؟
وکلا کے نمائندہ پاکستان بارکونسل کے اختر حسین نے اس پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا معاملہ حکومت ہی جانے، مگر ہم وکلا تنظیمیں واضح موقف رکھتے ہیں کہ سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں بھیجا جائے۔
وفاقی حکومت کے تازہ ترین یوٹرن پر اسلام آباد کے وکلا ذرائع چہ میگوئیاں کر رہے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جن دو فاضل جج صاحبان کی صرف مہینہ پہلے حکومتی نمائندے مخالفت کر رہے تھے، اب اچانک ہی ان کے حق میں ووٹ کیسے ڈال دئیے؟
خیر اچھی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ جہاں پے در پے کئی جج صاحبان ریٹائر ہوگئے تھے، اب وہاں تین ججوں کی نامزدگی ہوگئی، امید ہے کہ پارلیمانی کمیشن کی منظوری کے بعد یہ تینوں جج صاحبان سپریم کورٹ کی افرادی قوت میں اضافہ کریں گے اور جج صاحبان پر کیسز کا دبائو کم ہوجائے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر