نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈی جی آئی ایس آئی اورترجمان پاک فوج کی پریس کانفرنس کا مکمل متن

ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا گیا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا، پاک فوج

اسلام آباد: ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد انجم اور ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار نے اہم پریس کانفرنس ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والی اس اہم ترین پریس کانفرنس کا مکمل متن ڈیلی سویل کے قارئین کے لئے  ذیل میں دیا جارہاہے :

DG ISPR AND ISI PRESS CONFERENCE

Oct 27, 2022

starting

11:20 to 11:50

اس سے پہلے کہ میں پریس کانفرنس کا باقاعدہ آغاز کروں، آج ستائیس اکتوبر ہے، کشمیر کی مناسبت سے یوم سیاہ منایا جا رہا ہے، یہ وہ دن ہے ،جس دن انیس سو سنیتالیس میں بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لیے اپنی فوجیں وہاں وہاں پر اتاری تھیں ۔ اور اس دن سے اب تک کشمری کے غیور اور  بہادر عوام ان کا  بے جگری سے  مقابلہ کر رہے ہیں ، پاکستان اور  پاکستانی قوم کل بھی ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی تھی، اج بھی کھڑی ہے اور ہمشیہ ان کے ساتھ کھڑیں رہیں گے ۔ ان شا اللہ اور ہم چاہتے ہیں کشمیر کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جائے

 

Coming to the issue of the day

اج کی پریس کانفرنس کا مقصد سینیر اور ممتاز صحافی ارشد شریف صاحب کی کینیا میں وفات اور ان سے جڑے حالات اور واقعات کےحوالے سے اپ کو کچھ آگاہی دینی تھی، یہ پریس کانفرنس کچھ ایسے حالات  کے تناظر میں کی جا رہی ہے جہاں حقائق کا صحیح ادارک انتہائی ضروری ہے تاکہ  فیکٹ، فکشن اور  اوپینین میں فرق کیا جا سکے اور سچ سب کے سامنے لایا جا سکے ۔

 

اس پریس کانفرنس کی اہمیت اور  حساسیت کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر پیشگی آگاہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا احاطہ  کرنا بہت ضروری ہے جن کے تحت نہ صرف ایک مخصوص بیانیہ بنایا گیا بلکہ اسی جھوٹے بیانے کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا گیا

اداروں اور ان کی لیڈر شپ یہاں تک کہ چیف آف آرمی اسٹاف  پر  بے جا الزام تراشی کی گئی  اور اس کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم اور غیر معمولی اضطراب کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی

ارشد شریف کی وفات ایک انتہائی اندوہناک وقعہ ہے اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے

اللہ تعالی ارشد شریف صاحب کی مغرفت فرمائے

دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہے

ارشد شریف پاکستانی صحافت کا ایک آئیکون تھے

کیونکہ ایک فوجی کے بیٹے، ایک شہید کے بھائی اور ایک سرونگ افیسر کے برادر نسبتی تھے

اس لیے فوج اور شہیدوں کے حوالے سے ان کے پروگرامو ں میں وہ درد اور احساس ہیشہ جھلکتا تھا

سیاچن ہو، قبائل علاقہ جات ہوں، فوج مشقیں، آپریشنل ایریا، لائن آف کنٹرول

ارشد شریف صاحب کے پروگرام جرنلزم کی دنیا میں ایک رول ماڈل کے طور پر یاد رکھے جائیں گے

وہ ایک محنتی صحافی تھے جنہوں نے اپنے شاندار کام سے صحافت میں مقام بنایا

چونکہ ان کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی  لہذا جب سافئر کا معاملہ سامنے لایا گیا تو ارشد شریف صاحب نے اس پر بھی متعدد پرگرامز کیے

اس حوالے سے انہوں نے اس وقت کے وزیرواعظم سے کئی ملاقاتیں  بھی کیں اور ان کے کئی انٹریوز  بھی کیے

جس کے نتیجے میں یہ بات بھی کی گئی شائد انہیں مختلف میٹنگ کے منٹس اور سائفر  بھی دکھائے گئے

سائفر اور  ارشد شریف صاحب کی وفات کے حوالے سے جڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے

تاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا ابہام اور قیاس آرائی پیدا  نہ ہوں اور قوم سچ جان سکے

جہان تک سائفر کا معاملہ ہے آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں سابق وزیراعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا، جس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں

ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا گیا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں  تھا

سائفر کے حوالے سے حال میں کئی حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور  من گھرٹ کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے

کہ کیسے پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا

31 مارچ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھی

آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پروفیشنل انداز میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی  کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی  بھی قسم کے سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے

نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو بریف کیا  گیاکہ یہ پاکستانی سفیر کی ذاتی اسسیٹمنٹ ہے ۔ اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل ریکمینڈ کیا تھا اور وہی لائحہ عمل نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے فارن آفس کو ریکمینڈ کیا تھا ۔

آئی ایس آئی کی سائفر سے متعلق فائنڈنگ میں کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے  اور یہ تمام فائنڈنگز ریکارڈ کا حصہ ہیں

ہم ان فائنڈنگز کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے جو آئی ایس ائی کی فائنڈنگز تھیں تاہم یہ فیصلہ  ہم نے اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ ائی ایس ائی کی فائنڈنز کو پبلک کرے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ مزید افوائیں  اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں  جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانہ تشکیل دینا تھا کہ حکومت کے خلاف آئینی اور قانونی اور سیاسی معاملے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک ریجیم چینج اپریشنز  کا حصہ  تھی ۔

پھر اس حوالے سے امریکی کے دنیا بھر میں ریجیم چینچ اپریشنز کے حوالے دیے گئے اور ان کو  پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا

پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی لیڈرشپ کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینز آپریشنز سے لنک کر دیا گیا

یہ ہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف اور دیگر  کئی صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو ایک مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا جس کی حقیقت بھی بہت حد تک واضح ہو گئی ہے ۔

ذہن سازی کے ذریعےقوم اور افواج پاکستان، سپاہ اور لیڈرشپ میں  نفرت پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ۔

پاکستان اور پاکستان کے ادروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی

اس میڈیا ٹرائل میں  اے ار وائی چینل نے  بالخصوص نے پاکستان آرمی اور لیڈرشپ کے حوالے سے ایک جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے کے لیے Spin Doctor کا کردار ادا کیا   اور ایجنڈا سیٹنگ کے ذریعے فوج کے خلاف ایک مخصوص بیانے کوپروان چڑھایا

نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگز اور اعلامیے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، حتی کہ دوسری این ایس سی میٹنگ کے حوالے سے اسد مجید  صاحب کے حوالے سے  من گھرٹ خبر بھی چلائی گئی ۔ پاکستان آرمی  سے ایک سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو کہ آئین پاکستان کے خلاف ہے  لفظ  اے پولیٹکل نیوٹرل کو گالی بنا دا گیا ۔ اس تمام جھوٹے بیانے اور گمراہ کن پراپیگینڈے کے باوجود ادارنے اور خاص طور پر ارمی چیف نے رسیٹریٹ اورتحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر خود قومی مسائل کو حل کریں لیکن  ایسا ممکن نہ ہو سکا، یہاں تک کہہ گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا، تو پھر سوال یہ ہے فارن آفس جو سائفر کو اسسٹ کر رہا تھا کیا اس نے اسے چھپایا اور جو اس وقت سائفر کو ہینڈل کرنے کے ذمہ دار تھے، ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا اور اگر نہیں لیا گیا  کوئی ایکشن ان کے خلاف کیوں نہیں لیا گیا، اور ان کے نام کیوں نہیں لیے جاتے، لفظوں کے ہیر پھیر گمراہ کن اور  جھوٹی خبریں پھیلا کر اداروں اور ان کی لیڈر شپ کو  غدار ٹھہرا کر کٹہرے میں لا کھڑا کیا ۔مرحوم ارشد شریف  کے علاوہ دیگر صحافیوں  اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ نے  بھی سائفر  کے حوالے سے بنائے گئے بیانئے پر بات کی اور بہت سخت باتیں بھی کیں ۔ ارشد شریف صاحب تو نومبر دو ہزار  اکیس  سے اے آر وائی چینل کے پلیٹ فارم پر اداروں پرتنقید کر رہے تھے جس میں انہوں نے مختف اداروں کے حوالے سےبہت  سخت تنقیدی پروگرامز بھی کیے ۔  لیکن اس کے  باوجود ان کے حوالے سے کسی قسم کے منفی جذبات ہمارے دل میں  تھے نہ ہیں ۔ کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کر رہے تھے لیکن وہ پاکستان میں نہیں رہے، آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے ۔

 

تمام سائفر ڈرامے کے دوران جب بھی کسی  صحافی یا چینل سے ہم نے  بات کی تو ان سے یہ ہی کہا کہ بنا ثبوت اور من گھڑت مفروضات پر غداری اور سازشوں کے الزامات ادارے کی لیڈرشپ پر نہ لگائے جائیں اور فوج کے اے پولیٹیکل اسٹانس کو متنازع نہ بنایا جائے ۔

 

اج دیکھنا یہ ہو گا کہ مرحوم ارشد شریف صاحب کے حوالے سے اب تک سامنے والے حقائق کیا ہیں، پانچ اگست دو ہزار بائیس کو خبیر پختونخواہ گورنمنٹ کی جانب سے اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف صاحب کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ۔ ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ چیف منسٹرخیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر  جاری کیا گیا ۔  جس میں شبہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی  گروپ نے اسپن بولدک میں ایک میٹنگ کی ہے جو ارشد شریف صاحب کو راولپنڈی یا ملحقہ علاقوں میں ٹارگٹ کرنا چاہتے تھے، اس حوالے سے وفاقی حکومت یا  پھر سیکیورٹی اداروں سے مزید کسی قسم کی معلومات شیئر نہیں کی گئی کہ کیسے  اور کس نے  کے پی گورنمنٹ کو یہ اطلاع مہیا کی کہ ارشد شریف  صاحب کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا جس کا مقصد شاہد ارشد شریف  صاحب کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا ۔ جبکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ارشد شریف صاحب ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن بار بار ان کو یہ بارور کرایا جاتا رہا کہ انہیں خطرہ لاحق ہے ۔

 

آٹھ اگست دو ہزار بائیس کو شہباز گل کے  اے آر وائی چینل پر فوج میں  مداخلت پر اکسانے کے متنازعہ بیان کی  تمام مکاتب فکر نے مذمت کی اور اسے ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قرار دیا ۔ نو اگست کو انہیں گرفتار کیا گیا، اس متنازعہ اسپیل ٹرانسمنشمین کے حوالے سے جب اے آر وائی نیوز  کے سینئر  ایگزیکٹو وائس  پریزیڈینٹ عماد یوسف سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اے آر وائی کے چیف وائس ایگزیکٹو افیسر مسٹر سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے  فورا بعد عماد یوسف کو ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو  جلد از جلد پاکستان سے باہر بھیج دیا جائے ۔ اس کے جواب میں عماد یوسف نے انہیں بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کے لیے روانہ ہو گئے ہیں ۔ پھر اس حوالے سے متواتر ایک بیانیہ بنایا جاتا رہا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کر دیا جائے گا۔ نو اگست دو ہزار بائیس کو چار بج کر چالیس منٹ پر کراچی سے دبئی کے لیے ارشد شریف کی  ایک ٹکٹ بک کی گئی ۔ جو اے آر وائی گروپ کے اسسٹنٹ مینجر پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن مسٹر عمران کے کہنے پر فضل ربی نامی ٹرول ایجنٹ نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد بک کی ۔

 

اس ٹرویل پلان کے مطابق، نو ستمبر دو ہزار بائیس کو ارشد شریف کو پاکستان واپس آنا تھا، دس اگست کو ارشد شریف باجا خان انٹریشنل ایئرپورٹ پشاور سے ایمریٹ انٹرنیشنل کی پرواز ای  کے سکس تھری سیون کے ذریعے صبح چھ بج کر دس منٹ پر دبئی کے لیے روانہ ہوئے ۔ ارشد شریف کو کے پی گورنمنٹ نے اس دوران مکمل پروٹوکول فراہم کیا ۔ انہیں چیف منسٹر سیکٹریٹ سے ایک پروٹوکول آفیسر عمر گل آفریدی نے گرین نمبر پلیٹ ڈبل کیبن نے ایئرپورٹ پہنچایا ۔ چیف منسٹرسیکتڑیٹ خیبرپختنوخواہ کے اسٹاف نے تمام کاونٹز پر ارشد شریف کی معاونت کی اور انہیں فلائٹ تک پہنچیایا ۔ اس حوالے سے ادروں کی جانب سے ارشد شریف کو روکنے کی کسی  بھی قسم کی کوشش نہیں کی گئی ۔ اگر گورنمنٹ روکنا چاہتی تو ایف آئی اے کے ذریعے یہ کر سکتی تھی ۔ ارشد شریف صاحب تب تک یو اے ای میں رہے جب تک ان کے پاس یو ای اے کا ویلیڈ ویزا تھا ۔ ارشد شریف یو اے ای سے کینا کی جانب اس وقت روانہ ہوئے جب ان کا دبئی کا ویزا ایکسپائر ہوا ۔ ہماری اطلاع کے مطابق ۔ کسی نے سرکاری سطح پر ارشد شریف کو دبئی سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا تو وہ کون تھے جنہوں نے انہیں جانے پر مجبور کیا ۔ اس سوال کا جواب لینا چاہیے۔ یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ یو اے ای روانگی سے منسلک دستاویزی معاملات کو کس نے سرانجام دیئے ۔  متحدہ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا ۔ کس نے انہیں مسلسل یہ باور کرایا کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا ۔ کس نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی جان بیرون ملک خاص طور پر کینیا جیسے ملک میں محفوظ ہے ۔ ایک بیانیہ یہ بھی بنایا جا رہا ہے کہ جب ارشد شریف کو نکلوایا گیا تو صرف کینیا ہی وہ ویزا فری ملک ہے جہاں وہ انٹری لے سکتے تھے ۔ حالانکہ دنیا میں کم از کم چونتیس ایسے ممالک ہیں، جہاں ویزا انٹری پاکستان کے لیے موجود ہے ۔ ارشد شریف کیونکر کینا پہنچے اور ان کی میزبانی کون کر رہا تھا ۔ ان کا پاکستان میں کس کس سے رابطہ تھا ۔ ارشد شریف کی وفات سے منسلک کردار وقار احمد اور خرم احمد کون ہیں ۔ ان کا ارشد سے کیا رشتہ تھا ۔ کیا ارشد انہیں پہلے سے جانتے تھے یا کسی نے یہ رابطہ استوار کرایا ۔

کچھ لوگوں نے ارشد شریف صاحب کے لندن میں ملاقاتوں کے دعوے بھی کیے ۔ وہ دعوے ان سے کس نے کرائے اور کن بنیادوں پر وہ دعوے کیے گئے۔ کیا یہ دعوے بھی فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کیمپین کا حصہ تھے ۔  ارشد شریف کی وفات ایک دور افتادہ علاقے میں ہوئی اور کینیا پولیس نے انہیں پہچانا ہی نہیں تھا ۔ تو ان کی وفات کی خبر کس نے اور کس کو دی ۔ کینیا پولیس اور حکومت نے اس کیس میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ واقعی ایک مسٹیکن اڈینٹٹی کا واقعہ تھا یا ٹارگٹ کلنگ تھی ۔  بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔ اس افسوسناک واقعے کی صاف، شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات بہت ضروری ہے ۔ اور اس کے لیے ہم نے حکومت سے ہائیسٹ لیول انکوائری  کمیشن کی استدعا کی ہے ۔ اس کمیشن کو اگر بین الاقوامی ایکسپرٹ فرانزک آئی ٹی ایکسپرٹ اور even the under of umbrella of UN نمائندوں ماہرین کی ضرورت ہو تو انہیں بھی شامل کرنا چاہیے۔ ان تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹیو افسر سلمان اقبال صاحب کا ذکر  بار بار آتا ہے ۔ لہزا انہیں پاکستان واپس لانا چاہیے اور شامل تفتیش کرنا چاہیے ۔ ارشد شریف کی ناگاہی موت کے فورا بعد سوشل میڈیا پر  مخصوص لوگوں نے  فورا ہی الزامات کا رخ فوج کی طرف موڑنا شروع کر دیا ۔ اس سفاک موت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے ۔ ارشد شریف کی وفات  ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس نے پوری قوم کو رنج و غم میں مبتلا کر دیا ہے ۔  میں نے اب تک حاصل ہونے والی تفصیلات اور حقائق اپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں، اب اپ کا بھی فرض ہے کہ  اپ ان تفصیلات کی تہہ تک پہنچیں اور  تمام کرداروں کو سامنے لائیں اور حقائق قوم کے سامنے رکھیں ۔ ہم سب کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے ۔ جب تک کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی، کسی پر الزام تراشی کسی صورت مناسب نہ ہو گی ۔

 

ہم آزاد اور خوددار قوم ہیں، اور ہم میں سے ہر کسی نے پاکستان کی ترقی اور امن کے لیے کردار ادا کرنا ہے ۔ میری  آپ سے request  ہو گی کہ اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں

 

اگر ہم سے ماضی میں کوئی غلطیاں ہوئی ہیں تو پچھلے بیس سالوں سے ہم اپنے خون سے انہیں دھو رہے ہیں، یہ آپ کی فوج ہے، یہ وردی پہنے ہوئے پینتیس پینتیس چالیس چالیس سال نوکری کے بعد کوئی غداری کا طوق لے کر گھر نہیں جانا چاہتا ۔ ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں، مگر ہم غدار اور سازشی ہرگز نہیں ہو سکتے۔ اس چیز کا ادراک سب کو کرنا ہو گا۔ کیونکہ فوج عوام کے بغیر کچھ نہیں ہے ۔ ایک بہت مشہور اسکالر نے کچھ عرصہ بعد کہا تھا کہ ایک بہت مشہور اسکالر نے  کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو توڑنا ہے تو اس کی فوج کو کمزور کرنا ہو گا۔  اور آج   Hyberate warfare کی  Application

Fifth Generation Warfare کی اپلیکیشن، ان سب کے مترادف Exactly        ایک Copy Book Application پاکستان میں ہو رہی ہے اس وقت  اور ہم سب کو ، ہم سب اس سے  نبردآزما ہیں اور ہم سب اس سے  باہر نکلیں گے، ان شا اللہ ۔ ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے ۔ ہماری شناخت اور پہچان سب سے پہلے پاکستان ہے  اور کچھ نہیں اور ہم کبھی  بھی ایک institution کے طور پر  اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ نہ کیا ہے نہ کریں گے ان شا اللہ ۔ یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے ۔ یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے اور  مل کر ہم نے پاکستان کو تمام چیلنجز سے نکالنا ہے اور ان شااللہ ہم ان سے نکلیں گے

Thanks You Very Much

Before I start a Q&A

اس ٹاپک کی sensitivity کو دیکھتے ہوئے اور جو بات چیت کی ہے

میں نے    DG ISI کو بھی request کی ہے کہ وہ میرے ساتھ بیٹھیں ۔ اور اپ کے کچھ سوالات ہیں تو ان کا بہتر انداز میں جواب دے سکیں ۔

احمد منصور، اسپیشل کورریسپانڈٹ 24 نیوز

جنرل صاحب، آپ نے بھی اپنے ابتدائیے میں جو بات کی ہے نیوٹرل کی اور ساری، جو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب ہیں، وہ پہلے تو اشاروں کنایوں میں بات کرتے رہے کہ جو نیوٹرل ہے وہ کسی کو حق نہیں ہے  نیوٹرل ہونا ۔ پھر وہ اس سے آگے بڑھے اور اہوں نے نام لے لے کر میر صادق   میر جعفر بھی کہنا شروع کیا  اور حوالہ دے کر فوج اور فوج  کی قیادت even  جنرل باجوہ کو سمجھیں وہ ٹارگٹ کرتے رہے ۔ ساری scenario  ہے ۔ میں یہ بات کر رہا تھا کہ جو خان صاحب ہیں، انہوں نے پہلے تو یہ بات اشاروں کنایوں میں کی     کہ نیوٹرل ہے اس کا کسی کو حق نہیں ہے  کہ نیوٹرل ہو ۔ پھر انہوں نے نام لینے شروع کر دیئے ۔ میر جعفر اور میر صادق کا لقب دینا شروع کر دیے اور ظاہری بات ہے جب وہ اور کھلے اور یہاں تک پہنچے ہیں ۔ وہ target fingering    بھی ک ر رہے ہیں،  کہ وہ کن  کو کہہ رہے ہیں ۔ وہ فوج کو جنرل باجوہ صاحب کو ۔ اس طرح کہ ان کا بھی اشارہ ۔ تو اس کے پیچھے ان کا مقصد کیا ہو سکتا ہے ۔ کیا وہ کہہ رہے اور کیا ان کا مقصد ہے وہ پورا ہونے دیا جائے گا

 

دیکھیے اس کے جو ظاہری عوامل ہیں، اس terminology  کے  unfortunate use کی گئیں اور جس بیانیے کو پروان چڑھایا گیا اور اس کو تقویت بخشی گئی، اس کے ظاہری عوامل  اور ان کی chronology  تو میں نے اپ کو دے دی ہے، اس کے کچھ اندرونی  محرکات کیا ہیں اور   کس direction  میں چیزیں جا رہی ہیں ۔

ڈی جی آئی ایس آئی

Thank You

بسم الله الرحمن الرحيم

مجھے شعوری احساس ہے کہ اپ لوگ مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں اور میں اپ کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، اپ کو معلوم ہو، میری ذاتی تصاویر ہوں، میری ذاتی تشہیر ہوں، اس پر میری پالیسی ایک سال سے واضح ہے ۔ اس پر میں اور میری ایجنسی سختی سے پابند ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے  اور میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا ہے لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے ۔ آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں آیا آپ کے پاس، بلکہ اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں ۔ جس کے جوان جس کے آفیسرز صبح اور شام اس وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور  خصوصی طور پر اپنی ایجنسی کے لیے آیا ہوں ۔ جس کے آفیسرز اور ایجٹنس پوری دنیا میں، پاکستان   کے اندر، اس ملک کی پہلی دفاعی لائن بن کر چوبیس گھنٹے جاگ کر کام کرتے ہیں ۔ جب ان کو  جھوٹ کی بنیاد پر  بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جائے، تضحیک کا نشانہ بنایا جائے  تو بحیثیت اس ایجنسی کے، اس ادارے کے سربراہ کے میں خاموش نہیں رہ سکتا ۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں جب جھوٹ اتنی آسانی، روانی اور فراوانی سے بولا جائے ایک سائیڈ سے ۔ اور ملک میں فتنہ اور فساد کا خطرہ ہو ۔ تو  سب کی لمبی خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہے، اس ملک کے لیے ۔ میں کوشش کروں گا بلاضرورت سچ نہ بولوں ۔ قوم نے میرے منصب پر  مجھ پر یہ  بوجھ ڈالا ہےکہ میں ان رازوں کو جو میرے پاس ہیں، ان امانتوں کو اپنے سینے میں لے کر قبر میں لے جاوں ۔ اور جہاں ضرورت سمجھی میں وہ  راز اپ کے سامنے رکھوں گا ۔تاکہ اپنے ادارے کا، اپنے جوانوں کا اور اپنے شہدا کا دفاع کر سکوں ۔ اپ نے دیکھا لسبیلہ میں ہمارے کور کمانڈر صاحب اور ان کے ساتھ آفیسرز اور جوان شہید ہوئے ۔ اس مٹی کی خاطر انہوں نے جان دی  لیکن ان کا بھی مذاق اڑایا گیا ۔ لہزا اس پس منظر میں جو اپ نے پہلا سوال پوچھا ہے  کہ میر جعفر ، میر صادق اور غدار کا کیا پس منظر ہے ۔ دیکھیے اس میں دو رائے نہیں ہے ۔ کہ آپ کسی کو میر جعفر کہیں، میر صادق کہیں ۔ اپ کے پاس کوئی شواہد نہ ہوں تو ظاہری بات ہے، اس کی جتنی بھی مذت کی جائے، کم ہے ۔ میں آپ کو کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سو فیصد جھوٹ پر بنایا گیا نظریہ ہے  لیکن اپ کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ یہ نظریہ بنایا کیوں گیا ہے ۔ یہ میر جعفر کہنا ، میر صادق کہنا، غدار کہنا۔ نیوٹرل کہنا، جانور کہنا ۔ اس لیے نہیں ہے کہ میرے ادارے نے میری ایجنسی نے آرمی چیف نے غداری کی ہے ۔ یہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی کام کیا ہے ۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے، ان کے ادارے نے غیر آئینی غیرقانونی کام کرنے سے انکار کیا ہے اپ کو معلوم ہے پچھلے سال اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نے اپنے اپ کو  اپنے آئینی کردار میں محدود رکھنا ہے ۔ یہ فرد واحد کا فیصلہ نہیں تھا ۔ صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں تھا، اس میں ادارے کے اندر اس کی قیادت میں بہت بحث ہوئی اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک کا مفاد اسی میں ہے، ادارے کا مفاد اسی میں ہے  کہ ہم کو آئینی کردار تک محدود کر لیں ۔ سیاست سے باہر نکل جائیں ۔ اور میرا یہ ایمان ہے، میرا ادارہ اور میری ایجنسی ہو ۔ پاکستان کے ہر فرد کا اس  کی کوئی بھی  سیاسی سوچ ہو، افکار ہو ۔ اس کا برابر مساوی حق ہونا چاہیے ۔ اس کو کسی ایک گروہ، کسی ایک نام کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہیے، یہ ہی اس ادارے کی شان ہے ۔ ان تمام امور کو ذہن مین رکھ ہم نے یہ فیصلہ کیا ۔

 

اپ کو معلوم ہے پچھلے سال سے اور بالخصوص اس مارچ میں ہم پر بہت پریشر آیا ۔ اور مختلف طریقے سے پریشرڈالا گیا مگرادارے نے اور آرمی چیف نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نے جو بنیادی فیصلہ کیا ہے ۔ کہ اپنے آپ کو آئینی کردار میں محدود رکھنا ہے ۔ ہم اس سے نہیں ہٹیں گے ۔ میں یہ بھی اپ  کو بتا دوں ۔ جنرل باجوہ  صاحب چاہتے تو اپنے آخری چھ سات مہینے بہت سہولت سے گزار سکتے تھے ۔ وہ یہ فیصلہ نہ کرتے، اپنی ذات کو مقدم رکھتے ۔ آرام سے نومبر میں  اگلے مہینے ریٹائرڈ ہو کر چلے جاتے ۔ نہ کسی نے تنقید کرنی تھی ۔ لیکن انہوں نے فیصلہ ملک کے حق میں کیا ۔ وہ فیصلہ کیا جو ادارے کے حق میں ہے ۔ انہوں نے اس کے لیے اپنی ذات بھی قربان کی ۔ اپ کو معلوم ہے ان پر اور ان کے بچوں پر کتنی غلیظ تنقید بھی کی جاتی رہی لیکن میں انہیں جانتا ہوں جو میں سمجھا ہوں ۔ انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا وہ چاہتے تھے ۔ کہ جب وہ چلے جائیں تو ان کی legacy  میں ایک ایسا ادارہ ہو ۔ جس کا constitutional role  ہو  ۔ اس کا ایسا رول نہ ہو جسے متنازع بنایا جا سکے ۔ لہزا اس چیز کے لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ۔ میں یہ بھی اپ کو بتا دوں ، مارچ کے مہینے میں آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع کی   پیشکش بھی کی گئی، میرے سامنے کی گئی،  یہ بہت پرکشش پیشکش تھی لیکن انہوں نے اسے بھی ٹھکرا دیا ۔ اس لیے کہ انہوں نے جو بنیادی فیصلہ کیا تھا کہ ادارے کو متنازع رول سے ہتا کر ائینی رول میں لانا ہے اور میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں اپ کو حق ہے اپنی رائے دینے کا

I respect that right

As a soldier I protect that right to the extent possible but

میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں، کہ اگر اپ کا دل مطمئن ہے کہ اپ کا سپہ سالار غدار ہے، میر جعفر ہے تو ماضی قریب میں اتنی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے ۔ اگر اپ سمجھتے ہیں  اپ کا سپہ سالار غدار ہے، میر جعفر ہے تو اس کی مدت ملازمت میں اتنی توسیع کیوں دے رہے ہیں ۔

عجیب بات ہے اگر اپ سمجھتے ہیں کہ سپہ سالار غدار ہے لیکن اپ انہیں کہہ رہے ہیں کہ پوری زندگی کے لیے بھی آپ نے مدت ملازمت میں رہنا ہے تو رہیں ۔ اور واقعی وہ اپ کی نظر میں غدار ہے، آپ کی سوچ میں غدار ہے ۔ تو پھر اج بھی ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں ۔ اپ کے ان سے ملنے پر اعتراض  نہیں ہے ۔ آپ ملیے یہ ہمارا فرض ہے ۔ اس ملک کے ہر شہری کی آواز پر لبیک کہنا  لیکن یہ نہ کریں کہ اپ رات کی خاموشی میں بند دروازوں کے پیچھے ہم سے ملیں ۔ اپنی آئینی غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں وہ بھی اپ کا حق ہے ۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ دن کی روشنی میں اس بندے کو اپ غدار کہیں ۔ آپ کے قول و فعل میں، فکر و تدبر میں اتنا کھلا تضاد اور اتنا بڑا تضادٹھیک نہیں ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

11:50 to 12:24

صحافی: کوئی عام صحافی فوج کے خلاف بات کرے تو اس پر مقدمے ہوجاتے ہیں، عمران خان نے سرعام فوج کی دھجیاں اڑا دئیں، ان کے اوپر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا، یہ کیا رول آف لا ہے اس ملک میں؟اس ملک کو کیسے آگے لے کر جانا ہے؟؟ دوسرا کل واوڈا نے کہا اور پہلے عمران خان نے بھی کہا کہ ارشد شریف کے قتل کی ان کے پاس انفارمیشن تھی ، اس لیے انہوں نے انکو باہر نکلے پر مجبور کیا ، یہ انفارمیشن ان کے پاس کیا عسکری اداروں سے آئی تھی؟ اگر عسکری ذرائعے سے آئی تھی تو وہ کون سے عسکری ذرائعے تھے؟ فیصل واوڈا کہ رہے ہیں کہ ان کے فون کا آڈٹ کرا لیا جائے، کیا آپ اس سلسلے میں کچھ کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا اسکے بینیفشری ہی اسکے قاتل ہیں؟ کون ہیں  بینیفشری اور اسکا لانگ مارچ سے کیا تعلق ہے؟؟  یہ سب کیسے دیکھا جائے گا؟؟

بابر افتخار: ہم بھی حکومت کے نیچے ایک ادارہ ہیں، فوج کے خلاف اگر کوئی بات کرتا ہے یا تہمت لگاتا ہے ، جیسے آزادی رائے کا حق پاکستان کا آئین دیتا ہے اسی طرح کردار کشی کی اجازت پاکستان کا آئین نہیں دیتا، اور خاص طور پر اداروں کے اوپر بات کرنے کا حق بھی پاکستان کا آئین نہیں دیتا، اس قانون کی امپلینٹیشن موجودہ حکومت نے کرنی ہوتی ہے، اگر ادارے پر کوئی انگلی اٹھا رہا ہے تو اس پر حکومت ایکشن لیتی ہے، جب بھی کوئی ایسی چیز ہوئی ہے ہم نے ہمیشہ حکومت کو اپروچ کیا ہے، اس پر حکومت جو بھی ایکشن لیتی ہے وہ انکی صوابدید ہت ہماری نہیں ، کسی کو گرفتار کرنا یا کچھ اور کرنا، ہم صرف حکومت سے التجا کرتے ہیں ، میں نے آپکو بتایا ہے ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی، جب کے پی حکومت نے تھرٹ لیٹر جاری کیا ، مجھے یقین ہے کہ ادارے کی طرف سے کوئی ایسی انفارمیشن نہیں دی گئی، کسی نے یہ انفارمیشن ہمیں نہیں دی، فیصل واوڈا کی کل والی پریش کانفرنس پر میں کوئی کامنٹ نہیں کروں گا، لیکن جو انکوائری کمیشن بنا ہے وہ ان تمام لوگوں اور شواہد کو دیکھے گا، اسی لیے میں نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس کیس کی غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات ہوں، اور اس کیس میں بین الاقوامی فرینزک اور ٹیکنیکل ایکسپرٹس کو شامل کیا جائے، اگر یہ کیس اپنے منطقی انجام تک نا پہنچا تو بہت نقصان ہوگا، اگر کل فیصل واوڈا نے یہ بات کی ہے تو مجھے یقین ہے انکوائری کمیشن اس کو دیکھے گا

ڈی جی آئی ایس آئی: شہید ارشد شریف بہت قابل اور محنتی صحافی تھے، میں ذاتی طور پر انکی بہت عزت کرتا ہوں، انکی سیاسی رائے پرکچھ احباب کو اختلاف کی گنجائش غالبا ہے لیکن انکا ایک نام ہے، ایک مقام ہے، انکی ایک لگن ہے اپنے کام کے ساتھ اسے انکار نہیں ہے، لیکن میرے پاس اور معلومات اور تحقیق ہے اسکی بنیاد پر میں آپکو بتا سکتا ہوں کہ شہید ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، ان کے خاندان میں غازی بھی ہیں اور شہید بھی ، جب وہ یہاں تھے انکا اسٹیبلشمنٹ اور میرے ادارے کے کچھ لوگوں سے رابطہ تھا ، باہر گئے وہاں سے بھی انکا رابطہ تھا، بلکہ اس مہینے بھی انہوں نے میرے ساتھ جو جرنل صاحب کام کرتے ہین ان سے رابطہ رکھا اور وہ واپسی  کی خواہش کا بھی اظہار کر رہے تھے، کینیا میں اسکی انکوائری ہو رہی ہے میں وہاں پر لوگوں سے رابطے میں ہوں، انکی ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ایک غلط شناخت کے باعث حادثہ پیش آیا، اس پر حکومت پاکستان اور ہم شائد مکمل مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے حکومت نے ایک ٹیم بنائی ہے، جو تحقیتات کرنے کینیا جائے گی، حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی بنایا ہے اور میں نے دانستا طور پر ان دونوں فورم سے آئی ایس آئی کے ممبران نکال لیے ہیں تاکہ قوم کے سامنے غیرجانبدار، سو فیصد شفاف تحقیقات ہوں، اور جو بھی اسکا نتیجہ آئے گا ڈی جی آئی ایس پی آر آپ کو اس سے آگاہ رکھیں گے

صحافی: آج میڈیا کے لوگ جتنی افواج پاکستان پر تنقید کر رہے ہیں اور مختلف قسم کا جو پراپیگینڈا کیا جا رہا ہے ، میں ان لوگوں کی بات کررہا ہوں جو اس دنیا میں ہیں، ان سب کا تعلق میں ماضی میں جو اپکے انٹیلیجنس کے چیف اور باقی افسروں کے ساتھ رہا ہے، آپ نے اس اینگل پر اب تک کیا تحقیق کی ہے اور کہ آئیندہ تعناتی  کے سلسلے میں یہ پراپیگینڈا افواج پاکستان کے خلاف تو نہیں کیا جا رہا؟

بابر افتخار: تعلقات، ملنا انفارمیشن کی شئرنگ کو غلط رنگ نہیں دینا چاہیے، جہاں تک تنقید کی بات ہے وہ ہر ایک کا حق ہے اور ہمیں تنقید سے کبھی مسلہ نہیں ہوا، مسلہ تب ہوتا ہے جب بات تنقید سے بڑھ کر الزام تراشی اور من گھرت پراپیگینڈے پر پہنچ جاتی ہے، اس چییز کو ہمیں اوائید کرنا چاہیے، ہمارے پاس کوئی اسیا فورم نہیں ہے جو ہم روز آ کر ہر ایک کسی کی کہی ہوئی بات کا جواب دے سکیں، نا میں یہ کرنا چاہیے، اسی لیے اداروں کا دفاع حکومت وقت کرتی ہے لیکن تنقید پر کوئی مسلہ نہیں، آرمی چیف کی تعناتی اپنے مقرر وقت پر اور آئینی طریقہ کار پر ہوگی، اس میں کوئی شک و شبہات نہیں ہونے چاہیں،

ڈی جی آئی ایس آئی: میں اپکے سوال سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ پاکستان کہ ہر شہری کا آئینی حق ہے کہ وہ آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرے بھلے وہ میری تنقید ہی کیوں نہ ہو، بطور سپاہی اس آزادی حق کو تحفظ فراہم کرنا میں زمہ داری ہے، آپ ہمارا محاسبہ کیجیے، صبح شام کیجیے، لیکن پیمانہ یہ رکھیں کہ میں نے ملک اور قوم کے لیے کیا کیا ہے، یہ نہیں کہ میں نے آپکی ذاتی سیاسی مفاد کے لیے کچھ کیا ہے یا نہیں، وہ پیمانہ ٹھیک نہیں ہے، اگر میں ملک کے لیے کام ٹھیک نہیں کر رہا تو آپ مجھ پر تنقید کریں میں خوشی سے اپنے کام میں بہتری لاوں گا، شکریہ

بابر افتخار: بڑا مشہور ایک قول ہے کہ سب کو اپنی رائے دینے کا حق ہے، لیکن اپنی رائے کو سچ ثابت کرنا نہیں، اپنی رائے دیں لیکن اسکو سچ بھی کہیں، ففتھ جینیریشن وار فئیر پراپیگینڈا یہی ہے کہ فیکٹس کو طور موڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر افواہیں اور پراپیگینڈا کیا جاتا ہے،

صحافی: جس سیناریو کو آپ نے بیان کیا اس میں بہت سے بین الاقوامی چیلیجیز بھی سامنے آتے ہیں ، تھوڑی سی روشی ڈالیں گے کہ کیا  بین الاقوامی چیلیجیز ہیں اور اس پر کیا حکمت عملی ہے؟ اور ڈجی جی آئی نے ابھی ذکر کیا کہ مارچ میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن کی آفر کی گئی ، نام بتانا پسند کریں گے کس نے کی تھی؟

بابر افتخار: جتنی انفارمیشن انہوں نے بتائی اتنی ہی بتا سکتے تھے، کچھ اور بتا سکتے تو آپکو ضرور بتاتے، آپ نے جو  بین الاقوامی چیلیجیز کی بات کی ہے وہ اس کیس سے ریلیٹڈ ہے؟ جو  بین الاقوامی چیلیجیز ہی ہیں، پاکستان دنیا میں ایک اسٹریٹیجک ملک ہے، چیلنجز ہمیشہ رہے ہیں اور رہیں گے اور ان چیلنچر سے لڑنے کے لیے انٹرنیشل آپرچونیٹیز ہیں، انکو اور کم کرنے کے لیے تمام ادراے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، اور ہم ان چیلنجز کو اورکم کریں گے، اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، اور اسکے بارے میں ہر کسی کی اپنی رائے ہو سکتی ہے، ہر کام کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور اسی کے مطابق کر رہے ہیں۔ یہاں میں یہ بتا دوں جیسے آپ نے کہا کہ مارچ میں،، آپ 2021 مارچ میں چلے جائیں اس وقت ایک سینٹ کا الیکشن ہوا تھا آپ جانتے ہین کیا ہوا، اسکے بعد اگر کسی الیکشن میں آپ ضمی انتخابات کہہ لین ، کینٹونمینٹ بورڈ۔ لوکل باڈیز یا اس سال ہونے والے انتخابات لے لیں کہیں پر اگر فوج کی یا آئی ایس آئی کی کوئی مداخلت کا کسی کو کوئی ثبوت ملا ہو تو بتاہیں، ہم نے بار بار اس پر بات کی ، کہا جاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ، یہ ہوا وہ ہوا، کہیں اگر ادراے نے مداخلت کی ہو اور اسکا ثبوت ہے تو دیں، مجھے یقین ہے ایسا کچھ نہیں

ڈی جی آئی ایس آئی : آپ نے مارچ میں  آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا سوال پوچھا،ظاہر سی بات ہے اس وقت جو حکومت تھی اس نے پیش کش کی، اور وہ اس لیے کی گئی کہ جو تحریک عدم اعتماد ہے وہ اپنے عبور پر آ سکے، پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ، پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کو منتخب کرنا حکومت کا کام ہے، فوج اور آئی ایس آئی کا کام ہے اپنی خفیا معلومات حکومت کے آگے پیش کرنا، آگے فیصلہ انکا ہے، پاکستان کے جو بیرونی اور اندرونی خطرات ہیں اس پر بحث ضرور پو سکتی ہے، یا کسی اور نشت میں لیکن آپکو یہ بتا دوں کہ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظات سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، اسکی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس ایٹمی قوت ہے، صرف یہ وجہ بھی نہیں کہ پاکستان کی فوج بہت بہادر اور مضبوط ہے، پاکستان کا دفاع اس لیے مظبوظ ہے کہ اس کی زمہ داری 22 کڑور عوام نے خود  لی ہوئی ہے، جو ہر وقت اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، ہماری قوم کا بہت جزبہ ہے، خطرہ عدم استحکام سے ہے، یہ وہ چیز ہے جس پر میں آپکی توجہ لانا چاہتا ہوں،  عدم استحکام کی کیا وجوہات ہیں، جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے ہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتا ہے، اگر ہم نے تاریخ سے نہیں سیکھا تو کچھ دہائیاں پیچھے چلے جائیں، ہم مسلمان ملک تھے، ہمارے دو حصے تھے لیکن ہم الگ ہوگئے کیوں کہ ہم نے نفرت اور تقسیم کو ذیادہ ابھارہ، یہی چیز ہمارے معاشرے اور مملک کی بنیادیں کھوکھلی کر رہی ہے، پاکستان میں عدم استحکام معاشی حالات کی وجہ سے بھی ہے ، میں جب ڈی جی آئی ایس آئی بنا تو میرے سے پوچھا گیا پاکستان کا نمبر ایک مسلہ کیا ہے؟ میں نے کہا میری نظر میں معاشی مسائل ہیں، جنہوں نے سوال پوجھا وہ میری رائے سے متفق نہیں ہوئے ان کی نظر میں حزب اختلاف سب سے بڑا مسلہ تھا، پاکستاں سیاسی اور معاشرتی عدم برداشت، گالی گلوچ ، آپ خود دیکھتے ہیں سوشل میدیا پر، بڑے بڑے معزز لوگ جو زبان استعمال کرتے ہیں اس سے عدم استحکام آتا ہے، خطرہ اس سے ہے، باہر ہمارے دشمنوں کو پتا ہےہم کیا کر سکتے ہیں ، عدم استحکام کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں چاہیے ہم آئینی اور قانونی راستے اختیار کریں اپنی خواہشات کی تکمیل میں، جب ہم چور دروازے ، غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہیں تو ملک میں انتشار آتا ہے، ادارے نے فیصلہ کر لیا ہے صرف وہ کام کرے گا جو قومی امنگوں کا مظہر ہے، اور آئین کے مطابق کرے گا، اس سے باہر نہیں جائے گا،

صحافی: یہ کس حد تک خطرناک ہے کہ عمران خان مزہبی رنگ دے رہی ہیں اور کہہ رہے ہین کہ اگر آ پ نیوٹرل رہے تو اسلام اسکی اجازت نہین دیتا، امربلمعروف کا اکثر حوالہ دیتے ہیں، گزشتہ دنوں بھی آپ نے رات کی تاریکی کی ملاقاتوں کی بات کی ، جس کا اہتممام صدر مملکت نے کروایا تھا، اس کا انجام کیا ہوا؟

بابر افتخار: ہم نے کبھی خود نیوٹرل کا لفظ استعمال نہیں کیا،ہم نے ہمیشہ کہا ہم اے پولیٹیکل ہیں جو ہمارا آئینی کردار ہے، غیر سیاسی، اسکو نیوٹرل کہہ دینا یا اسکو جانور سے تشبیہ دینا، اور بھر اس میں دین کا حوالہ بھی دے دینا، مین کوئی دینی عالم نہین ہوں، جتنا دین مجھے سمجھ آتا ہے اس کردار کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہین ہے، یہ ہمارا آئینی کردار ہے اور پاکستان کا آئین شریعت کے عین مطابق ہے، اس میں کسی کو کوئی شک نہین ہے، اسی آئین میں یہ لکھا ہے کہ ادارے اپنا کردار اپنی آئینی حدود میں رہ کر کریں گے، اسی آئین پر ہم حلف لیتے ہین، میں نے جیسے کہا ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئیں، ایک تاریخ ہے اس ہی کی وجہ سے ہم پر آج بھی انگلیاں اٹھتی ہیں، اس بوجھ اور غلطیوں کا قرض ہم بہت عرصے سے ادا کر رہے ہیں، جیسے ڈی جی آئی نے بتایا یہ فرد واحد کا فیصلہ نہیں تھا کہ ہم نے اپنے آپ کو ہر سیاسی چیز سے باہر نکال لینا ہے، مین نے اپنے پریسر میں بھی بات کی آپ لیں ، آپ ایف اے ٹی ایف لیے لیں، آپ کارکل لے لیں، این سی او سی کے دوران جو کام ہوا وہ لے لین ، ملٹری دپلومیسی کے تحت آرمی چیف نے اپنی ذاتی طور پر بھی جو ہو سکتا تھا کیا ، یہ سب کیس ایک فرد کے لیے نہیں کیا، یہ پاکستان اوراسکی عوام کے لیے کیا، ملک کی نیشنل سکیورٹی سے متعلق فوج ہیمشہ سامنے آئی ہے، آج بھی ہے اور آئیندہ بھی رہے گی، اس میں کسی حکومت یا سیاسی جماعت کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کام پاکستان کے لیے کررہے ہین اور یہ ہمارا فرض ہے لکین سیاست میں مداخلت یا کسی ایک فرد سے یہ ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ اب آگے نہں چل سکتا، اور انشاالہ آپ دیکھیں کہ ہم اپنے اس فیصلے پر رہیں گے، یہی ہمارا آئینی کردار ہے اور جیسے ڈی جی آئی نے کہا آئین اجازت دیتا ہے،

ڈی جی آئی: صدر مملکت کی جن ملاقاتوں کا آپ نے زکر کیا وہ ملاقاتیں ہوئیں اور میں اس میں کوئی بری چیز نہیں دیکھتا کیوں کہ اسکی نیت ملک میں استحکام اور سیاسی ٹھہراو لانا تھا، اور روئیوں میں جتنی تلخی آچکی تھی اسکو کم کرنا تھا، وہ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی، وہ کیوں نا پہنچی اوراس کے علاوہ کتنی ملاقاتیں ہوئیں میں نے آپکو شروع میں کہا کہ بلا ضرورت سچ شر ہے۔ شکریہ

صحافی: ڈی جی آئی ایس پی ار، اگر کوئی 3 سٹار جرنل غلط کام کرتا ہے تو اسکا کورٹ مارشل ہو جاتا ہے، تو یہ جو کینیا میں فارم ہاوس ہے وہ بھی انہی صاحب کا ہے تو کیا ڈی جی آئی نے بتایا ہے کہ میں نے اپنے دو افسران کو وڈرا کیا تاکہ صحیح انکوئرای ہو اور جوڈیشیل کمیشن جو بھی فیصلہ کرے تو کیا اس شخص کو بھی سامنے لایا جائے گا؟ جس نے یہ قتل کروایا ہے؟

بابر افتخار: اس بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا، ہمیں انکوائری کمیشن کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے، میرا یا آپکا یہ حق نہیں بنتا کہ ہم یہ کہیں کہ کس نے یہ کروایا اور کیا ہوا، تحقیتات ہونگی ،میں نے آپ کے سامنے جو سب بھی رکھا ہے اس میں کوئی رائے نہیں ہے، وہ فیکٹس پر ہے، آپ کے ساتھ شیئیر کیا اس لیے کیوں کہ انگلیاں اٹھ رہی تھیں ، پراپیگینڈے کی شکل دی جا رہی تھی، عجیب و غریب قسم کی باتیں ہو رہی تھیں، جسے خدشہ تھا کہ انکوائری بھی اثر انداز ہو سکتی ہے، یہ چند حقائق سب کے سامنے لائے ہیں جو ہمارے پاس تھے، کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا ، یہ ضرور کہا ہے کہ جو جو لوگ اس سے منسلک ہیں یا جن وجوہات پر انکا نام شواہد میں آ رہا ہے انکو شامل تفتیش کرنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی کوئی  رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اس میں اگر انٹرنیشنل ایکسپرٹس چاہیئے جو بھی چاہیئے اس لئے ڈی جی ائی نے کہا انگلیاں ہم پر اٹھنا شروع ہوگئی ادارے پر کیوں یہ it was totally un necessary ، اس ہی لئے اس کو شفاف رکھنے کے لئے اس کو غیر جانبدار رکھنے کے لئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کوئی بھی شخص اس ادارے سے اس انکوائری کمیشن کا حصہ نہیں ہو گا،تاکہ کوئی ادارے کے اوپر کوئی شک نہ کر سکے،ہم نے کسی چیز کو کچھ کرنے کی کوشش کی ہے،انشااللد جب یہ رپوٹ ائے گئی اس میں چیزیں کلیر ہو جائیں گئی، انگلش میں کہا ترجمہ ابھی نتیجے پر نہیں پینچا چاہیئے،ابھی کسی پر بھی انگلی نہیں اٹھانی چاہیئے،

 

سوال

اسلام وعلیکم سر پہلا سوال ڈی ٹی ائی ایس ائی سے جرنل ندیم صاحب سے آپ کا آنا حیران کن چیز تھی وہ کیا معاملہ تھا جس نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ اپنا فیصلہ آپ منظر عام پر نہیں ائیں گے،یا آپ کا ادارہ جاتی فیصلہ جو اصول پر منبی تھا کیا یہ ارشد شریف کی شہادت ہے یا اس سے جوڑا ہوا بیانیہ جس نے آپ کو یا آپ کے ادرارے کو مجبور کر دیا کہ آپ اپنا اصول خود ہی توڑ دیں ؟،دوسرا سر جرنل بابر صاحب آپ نے کہا ارشد شریف کو سائفر شاید دکھایا گیا، کیا یہ بھی ایک الیمنٹ ہو سکتا ہے ارشد شریف کو ٹارگٹ کئے جانے کے پیچھے یا کوئی ان کو ٹریپ میں لا کر ان کو اس طرح الجھانے کے پیچھے دوسرا سر عمران خان نے خود کہا میں نے بھیجا ارشد شریف کو میں نے کہا ملک سے باہر جانے کے لئے یہ کہ ان کے قتل کا منصوبہ مجھے بھی معلوم ہے، پھر کے پی گورنمنٹ کا تھرلٹ لیٹر وہ ہم سب کو معلوم تھا آج آپ نے دیکھا بھی دیا، کیا عمران خان کو کمیشن بلائے گا یا بلانا جانا چاہیئے؟،اور کے  پی گورنمنٹ کو سی ایم کو کمیشن بلائے گا یا ان کو بلانا جانا چاہیئے،انہوں نے بھجوایا فیسلیٹیٹ کیا عمران خان کا بیان بھی سامنے ہے،بھر آپ نے بہت زبر دست سوالات آپ نے اٹھائے جرنل بابر صاحب کہ کینیا میں اور یو اے ائی میں کون سولت کار کہاں سے بڑے پرنسل سوالات میں جن کے جواب انے چاہیئے،ایک سوال آپ نے کہا کس نے کسے خبر دی ارشد شریف کی شہادت کی،تو جو ہمارے پاس اطلاعات ہیں ان کے مطابق تو خرم نے سب سے پہلے سلمان اقبال کو فیملی کو بھی نہیں تو یہاں پر  کنکشن ڈیولپ ہو رہا ہے کہا ان سب چیزوں کی بھی تفتیش اور تحقیق ہونی چاہیئے،دوسرا سر ایسی سے جوڑا سر آپ نے بھی کہا کہ کوئی خطرہ نہیں تھا ارشد شریف کو پاکستان کے اندر جب خطرہ نہیں تھا بھر جو لوگ بھجوانے میں ملوث تھے، یا جنہوں نے ان کو خوف زدہ کر دیا تھا کیا ان سب سے تفتیش ہونی چاہیئے، دوسرا سر آپ نے کہا کہ لاسٹ سوال ہے، آپ نے کہا ادارے نے فیصلہ کر لیا ہے،A پولیٹیکل رہنا ہے یہ فیصلہ ادارے کا مستقل ہے یا افراد سے منسلک ہے یا ادارہ جاتی فیصلہ ہے یا یہ افراد کا فیصلہ ہے،یا جب اس کے بعد تبدیلیاں ائیں گئی ادارے میں ہم وہاں پر بھی تبدیلی دیکھیں گے،

 

 

بابر افتخار کا جواب،آپ کے آخری سوال کا جواب پہلے دیتا ہوں،میں نے پہلے بھی کہا یہ ادارے کا فیصلہ ہے، یہ کیس فرد واحد کا فیصلہ نہیں ہے،ہمارے ادارے کا ایک میکینیزم ہے،جس تحت سنیر ملٹری لیڈر شپ فری کیونٹ لی بیٹھتی ہے اور مختلف چیزوں کے اوپر غورکیا جاتا ہے، SO IT WAS NOT A ONE OF DESICION، یہ ایک فیصلہ ادارے کا ہے، انشا اللد ادارے کی آنے والی لیڈر شپ بھی،اس پر قائم رہے گئی،اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے،یہ کوئی فیصلہ ایسا نہیں ہے،کہ اپ کہ دیں بک سے باہر چیز ہے،یہ قانون پاکستان کا حصہ ہے،

 

آپ نے تفتش کی بات کی میں نے جیسے پہلے بھی کہا اس تفتیش کو مکمل غیر جانب دار اور شفاف ہونا ہے،اس میں جس جس شخص کو میرا خیال میں یہ سمجھتا ہوں کمیشن جو بنایا گیا ہے ہم نے درخواست کی گورنمنٹ،اور گورنمنٹ نے یہ بنایا بھی، ہائی ائسٹ لیول کا انکوائری کمیشن اس لئے ہے وہ کسی کو بھی بلا سکتا ہے کسی سے بھی تفتیش کر سکتے ہیں،اور ہونی چاہیئے،اس واقعے کے جتنے بھی اینگل ہیں جتنے بھی اس سے متعلق شواہد ہیں ان کو پوری طرح سے پرکھنا ہو گا،جنہوں نے بھی اس بارے میں کوئی بھی انفامیشن شئیر کی ہے،یا وہ انفامیشن رکھتے ہیں،میں یقین رکھا ہوں ان کو بھی بلایا جائے اور ان کو پیش بھی ہونا چاہیئے،

 

 

ڈی جی آئی ایس آئی کا جواب،آپ نے بات کی یہ جو غیر سیاسی آئینی کردار تک محدود رہنے کا جو فیصلہ ہے،کیا یہ فرد واحد کا ہے یا ادارے کا ہے،میں نے آپ سے شروع میں کہا،بہت دن ادارے کے جو قائدین ہیں،ان میں بہت بحث ہوئی ہے،اس پر ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد ادارے نے یہ فیصلہ کیا باحیثیت ادارہ ہم آئینی کردار تک محدود رہیں گے،آپ کو یہ معلوم ہو جو اس فیصلے میں شامل تھے،ان میں وہ لوگ تھے جنہوں سے آگے 15 سے 20 سال تک اس ادارے کی قیادت کرنی ہے،یہ فیصلہ فرد واحد کا نہیں ہے، دوسری جو آپ نے بات کی کس چیز نے مجھے مجبور کیا،یہ لفظ ٹھیک استعمال ہوئے ہیں، میری اپنی پالیسی تھی کہ میں نے  تصویر بھی نہیں لانی ہے اپنی،وہ یہ تھی میں دیکھتا تھا جیسے میں نے شروع میں کہا کہ ایک سائیڈ پر جھوٹ کو اتنی آسانی ہے،اتنی فراوانی ہے،ہمارے جو نوجوان ذہن ہیں،وہ اس کو قبول کرتے جا رہے ہیں،مجھے کسی ذاتی چیز کی وجہ سے،مجبور نہیں ہوا،جب میں نے دیکھا کہ اس سے ادارے اور ملک میں ایک فتنہ اور فساد پھیلنے کا خطرہ ہے صرف جھوٹ کو جھوٹ ثابت نہیں کیا رہا ہے،یا سچ خاموشی پر تلا ہوا ہے،اس لئے میں نے یہ خاموشی توڑی ہے،اور جو باقی باتیں میں نے آپ کو بتا دی ہیں،لیکن میں دوبارہ دھراوں گا غیر ضروری سچ سے میں پرہیز کروں گا،

12:19

ڈی جی آئی ایس آئی صاحب کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ دوسرا آپ کی اردو سن کر اچھا لگا۔ میرے دو سوالات ہیں۔ ارشد شریف صاحب کی فیملی اور ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ آپ کے ماتحت جو لوگ ہیں وہ متواتر ارشد شریف کو تھریٹ کررہے تھے۔ اور ان کے لیے ماحول ایسا بنا دیا گیا کہ انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ دوسرا جو فیصل واوڈا صاحب نے پریس کانفرنس کا نچوڑ ہے وہ یہ کہ اندر کی لڑائی ہے جس کا کولیٹرل ڈیمج ارشد شریف کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جس طرف فیصل واوڈا صاحب نے نشاندہی کی ہے۔

کیا وہ پچھلے سسٹم میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی بات کررہے ہیں۔ تو کیا ان کے خلاف بھی کوئی تفتیش یا کارروائی متوقع ہے۔

جواب ڈی جی آئی ایس پی آر:

ایک جو بات آپ نے کی فیصل واوڈا صاحب کی تو میں اس پر کمنٹ نہیں کرنا چاہوں گایہ ان کا ذاتی بیان ہے جو بھی انہوں نے بات کی۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ جیسے انہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔۔  کہا کہ ان کا فون بھی حاضر ہے تو میرے خیال میں  انکوائری کمیشن کو دیکھنا چاہیے۔ میں اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی رائے دوں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

دوسرا سوال آپ کا کیا تھا؟؟

اس کے لیے میں ڈی جی آئی ایس آئی سے کہوں گا۔ جواب دیں۔

ڈی جی آئی ایس آئی : جو معلومات میرے پاس ہیں۔ ارشد شریف صاحب کے جو ماتحت میرے افسر ہیں۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ وہ ایک دوسرے سے ملتے بھی رہے ہیں ان کے باہر جانے سے پہلے۔ تو میں اس چیز سے اتفاق نہیں کروں گا کہ انہوں ںے دھمکایا ہے۔ اور اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی کہ وہ ملک نہ چھوڑیں تو کیا وہ ملک چھوڑ سکتے تھے۔ آپ خود اس سوال کا جواب جانتے ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی وہ ملتے رہتے تھے۔ جیسے میں نے شروع میں کہا کہ ان کی سیاسی آرا ہیں۔ اس سے اختلاف کی گنجائش ہمیشہ رہی ہے۔ لیکن ان کے ہمارے آفیسر کے ساتھ پرانے تعلقات تھے۔ اور وہ رابطے میں تھے۔دوسری چیز جو آپ نے پوچھی کہ باقی صحافی حضرات بھی کہتے ہیں ہمیں فون کالز آتی ہیں۔ دیکھیے میں کہوں گا یہ بھی موسٹلی جھوٹ ہے۔ آج کل کمیونی کیشن ایپس ایسی ہیں کہ آپ کو اس قابل بناتی ہیں۔ کہ آپ اپنا نمبر ظاہر کیے بغیر کال کرلیں۔ اور اگر آپ کو شک ہے کہ یہ گمنام نمبر سے کال آئی ہے تو اس کا آئینی قانونی طریقہ پاکستان کے قانون میں موجود ہے۔ آپ پولیس میں ایف آئی اے میں شکایت کریں۔ وہ فرانزک کرکے بتا دیں گے جو نمبر نہیں آیا اصل میں نمبر کس کا ہے؟؟

اور کچھ ہفتے پہلے آپ نے میڈیا پر دیکھا۔ کہ شرارتی لوگ خود ہی ایجنسی کا بندہ بن کے ایک دوسرے کو کال کرے وہ میڈیا پر گیا تو ہمارے لوگ تھوڑے فنکار بھی ہیں۔

 

سوال: تھوڑی دیر کے لیے میں آ پ کو کاکول اکیڈیمی لے کر جانا چاہوں گا۔ کہ جہاں جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ قومی ترقی عوامی خوشحالی، اور جمہوری عمل کو عدم استحکام کا شکار ہونے کے لیے کسی جتھے کو ہم اسلام آباد میں داخل ہونے نہیں دے رہے۔اور قانون نہیں توڑنے دیں گے۔ آرمی چیف کا بیان کس حد تک موجود ہے اور لانگ مارچ بھی آرہا ہے کیا وفاقی حکومت سے رجوع کیا جارہا ہے۔ دوسرا میرا ڈی جی آئی ایس آئی سے سوال ہے کہ میرا ان کا دفتر قریب قریب ہی ہے آبپارہ میں ہی۔ کہ سر میں جاننا چاہوں گا کہ ابھی ہم نے جتنی بات کی ہے۔ عمران خان کے حوالے سے تو عمران خان کو لانے میں بھی تو آپ کے ادارے کا کردار تھا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی تھی۔ اس حوالے سے ایم آئی کی یا آئی ایس آئی کی جو خان صاحب کے حوالے سےکیا رپورٹس تھیں۔ اس پر بات کیجیے گا۔

 

بابر افتخار کا جواب ، اچھا آپ کے پہلے سوال کا جواب میں دے دوں چیف آف آرمی سٹا ف نے اپنی تقریر میں یہ نہیں کہا تھا کسی جتھے کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیں گے،انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہ جو کوئی جتھہ یا گروہ ان کو پاکستان کو DESTABILISE نہیں کرنے دیں گے،اسلام آباد آنا لانگ مارچ کرنا یا اس میں لوگوں کا شامل ہونا یہ سب کا جمہوری حق ہے، میرا نہیں اس نے کسی قسم کا پاکستان کو کوئی خطرہ ہے،جہاں تک اس کے اندر جیسے کہ ائنی طور پر قانون کے مطابق لوگ اکھٹے ہو جاتے ہیں کہیں بیٹھ جاتے ہیں THAT SHOULD NOT WORRY ABOUT ANY ONE، فوج اپنی ائین کی حدود میں رہتے ہوئے میں نے پہلے بھی کہا اگر حکومت کو کسی وقت ضرورت پڑی کو اپنی ائنی حدود میں رہتے ہوئے جو کام ہو سکتا ہے وہ کریں گے تقریر کا مطلب یہ نہیں تھا تقریر کا مطلب اصل میں متن یہ تھا پاکستان کو DESTABILISE انشااللد نہیں ہونے دیں گے،عدم استحکام نہیں انے دیں گے پاکستان میں،

 

 

سوال

آپ کی انفارمیشن کیا کہتی ہے لاشیں گرنے کی کوئی پلانگ ہے، یا ویسے لگ رہا ہے لاشیں گریں گئی؟

 

بابر افتخار کا جواب، میں آپ کو صرف اتنا بتا دوں کہ انشا اللد پاکستان کو DESTABILISE کسی کو نہیں کرنے دیں گے، یہ سب کے کلیر بات ہے،

 

 

ڈی جی آئی ایس آئی کا جواب، آپ کو معلوم ہے پاکستان کا ائین اپنے شہریوں کو بیادی حقوق کی گرنتی دیتا ہے،ان حقوق میں ایک حق احتجاج کا بھی ہے، ہمیں کسی سے لانگ مارچ سے دھرنے سے احتجاج سے کوئی اختلاف نہیں کرنا چاہیئے، آپ کو معلوم ہے گورمنٹ کے سپریم کورٹ نے اختیار دیا ہے کہ وہ سلامتی کی صورتحال لا اینڈ آڈر کی صورتحال کو قابو کرنے کے لئے جو بھی ان کے پاس وسائل ہیں بروئےکار لے کر ائیں، جو ارمی چیف صاحب نے کہا وہ بات بلکل ٹھیک ہے کہ وہ کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ پاکستان میں سیاسی اقتصادی عدم استحکام لائیں، جو آئین آپ کو احتجاج کا حق دیتا ہے وہ اس حق کے ساتھ فرائض بھی رکھتا ہے،ذمہ داریاں بھی رکھتا ہے کہ آپ وہ کہاں پر حق استمال کر سکتے ہیں کن جگہوں پر جا سکتے ہیں کن جگہوں پر نہیں جا سکتے ہیں کیا آپ تبصرہ کر سکتے ہیں کن اداروں پر بات چیت کرنے کی منفی ارٹیکل 19 میں لکھا ہوا ہے  اجازت نہیں ہے، اس کی سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے، مجھے پورا یقین ہے سپریم کورٹ اور پاکستان اس پر واضع ہدایات بھی جاری کریں گئی، لیکن اس کے باواجود یہ خدشہ رہتا ہے اتنے لوگ اکھٹے ہوں دہشت گرد تنظمیں ہیں جو پاکستان کے دشمن اناصر ہیں وہ اس کا فائدہ اٹھانہ چاہیں گے، اس کے لئے یہ ہمارا فرض ہے ان کو سیکیورٹی فراہم کرنا،اگر اللد نہ کرے  ضرورت پڑی پاکستان آرمی کو ارٹیکل 245 کے تحت حکومت بلاتی ہے حکومت کا حق ہے فوج کو ضرورت پڑی حلات کو قابو کرنے کی تو وہ ضرور حکومت کی مدد کرے گئی،

 

 

صحافی کا سوال ،عمران خان کو لانے میں آپ کے ادارے کا کوئی رول تھا اس پر تبصرہ کر دیں

 

ڈی جی آئی ایس آئی کا جواب، اس پر سحر حاصل بحث پھر کبھی ہو سکتی ہے،

 

صحافی کا سوال،میرا آپ دونو سے سوال ہے میں ایک پورانہ صحافی ہوں،بہت کم میرے کلاس میٹ یہاں بیٹھے ہیں میں نے اپنی پروفیشنل زندگئی میں اس طرح بریفنگ ڈی جی آئی ایس آئی کی نہیں سنی، میں ہران نہیں شاک میں تھا جب میں سنا آپ بھی ٹاک میں آرہے ہیں کچھ ایسے حلات میں جن کی وجہ سے آپ یہاں انے پر مجور ہوئے آپ آ کر اپنا پرسنل نظریہ بتائیں، گورمنٹ اف پاکستان کے سارے ادارے ہیں منسٹری آف انفارمیشن ہے آئی ایس پی آر کا ادارہ ہے کیا ع،عمران خان نے ڈریگ تو نہیں کیا آپ کو جب وہ کہتے ہیں ایک شخص جب سے یہاں تینات ہوا ہے اس کی وجہ سے یہ مسائل بنے ہوئے ہیں

 

ڈی جی آئی اسی پی آر صاحب آپ سے میرا سوال ہے یہ ٹھیک ہے پاکستان DESTABILISE نہیں ہوتا اگر لانگ مارچ سیاسی سرگرمی ہو میں سے سنا وزیر اعظم غیر ملکی دوروں پر ہیں جب ملک میں یہ ماحول ہو گا لاکھوں نہیں میں ہزاروں کہ دوں لوگ آجائیں گے کون پاکستانی لیڈر کو سنے گا جب ملک میں یہ ماحول ہوگا؟

 

بابر افتخار کا جواب، بڑا اچھا آپ کا یہ سوال ہے جی ان چیزوں سے EFFECT  ہوتا ہے،ساسی لیڈر شپ کی بات میں جو وذن ہے اس کا دارومدار ملک کی STABILITY  پر ہوتا ہے،اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے دنیا کے تمام ممالک میں اس طرح کے جمہوری اجتماع ہوتے ہیں ان میں مختلف باتیں بھی کی جاتی ہیں ہر حکومت کو کبھی نہ کبھی جمہوریت میں یہ اپ ہیولز اتے رہتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ملک کی لیڈر شپ کا دنیا میں وقار کسی طرح سے کم ہو جائے گا، پاکستان کی 22 کڑوڑ عوام ہے اور ایٹمی ملک ہے دنیا کے بڑے ملکوں میں شامل ہوتا ہے، جمہوریت میں اس طرح کی چیزیں ہوتی رہتی ہیں، میں نہیں سمجھتا اس کے بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے،اپ دیکھ لیں یو کے میں کیا ہو رہا ہے،کتنے وزیر اعظم تبدیل ہو گئے ہیں لیکن ملک نارمل ہے کسی نے آ کر اس پر شور نہیں مچایا ہے، ان کا اپنا کام کرنے کا طریقہ ہے

 

 

1230 END

 

 

12:30 to end

 

 

 

ڈی جی آئی ایس آئی:

دیکھئیے ایجنسی کو بہت خوشی ہے کہ حکومت وقت اور ڈی جی آئی ایس پی آر جب بھی ضرورت پڑتی ہے وہ اس کی ترجمانی کرتے ہیں، اس لیے آپ کو حیران اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں مجھے دیکھ کے ہم ان کی ترجمانی سے مطمئن اور خوش ہیں، لیکن میں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ ایجنسی کے کچھ معاملات کچھ معلومات کچھ پوشیدہ اور پیچیدہ معاملات ہیں جو ہر بندے کو معلوم نہیں ہوتے، وہ اگر میری جگہ کوئی اور کہے گا تو وہ غالبا احسن اقدام نہیں ہے، تو اس کو کہنے کی ذمہ داری میں اٹھانا چاہتا ہوں، میں نہیں چاہتا ہوں کہ جو معلومات ان کے پاس نہیں ہیں وہ میں کسی اور کو بولوں کہ آپ میری طرف سے بول دیں، تو اس لیے میں خود آیا ہوں کہ اگر کہیں ضرورت پڑی تو میں آپ کو جس طرح میں نے شروع میں کہا کہ جھوٹ کے جواب میں کسی نے تو سچ کی جو چپ ہے اس کو ختم کرنا ہے۔

 

سوال: سر یہ سلسلہ آگے چلتا رہے گا؟

 

ڈی جی آئی ایس پی آر

نہیں یہ دیکھیں یہ

Extraordinary Measures

سو ڈی جی آئی کو یہاں پہ آنا اس لیے پڑا کہ ایک بیک گراونڈ ہے جس کو انہیں بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کیا چیز کب کہاں پہ کیا کہا گیا اور کیا ہوا اور ہر چیز کا ایک اسٹوری ہے پیچھے ہے سو جیسے انہوں نے کہا کہ

THERE IS SO MANY THINGS THAT HE CANT SHARE’BUT

آجکل کی جو سیچویشن ہے جس طرح سے ادارے کو فوج کو بھی اور آئی ایس آئی کو علیحدہ سے ایک سمپیر کمپین چلائی جارہی ہے اس لیے یہ بہت ضروری سمجھا گیا کہ ایز این ایکسٹرا آرڈرنیری مئیر ایک مرتبہ ہم دونوں بیٹھ کر اس چیز کے اوپر آپ کے سوالات لیں آپ سے بات کریں اور قوم پر واضح کریں کے سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، فیکٹ، فکشن ان چیز کو علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے اور جس بیک گراونڈ کے ساتھ ڈی جی آئی آیس آئی کچھ چیزوں پر بات کرسکتے ہیں میرا نہیں خیال کہ میرے پاس اتنی انفارمیشن ہوتی ہے اور آج اس وقت ضرورت تھی اس امر کی کہ ان کو یہاں پہ ہونا چاہیے

But this is not going to be a routine this is what I have to share on this

 

ڈی جی آئی ایس آئی:

دیکھئیے جو آپ نے بات کی میں یہاں کیوں آیا اور دوبارہ آوں گا یا نہیں میں نے آپ کو شروع میں کہا کہ میں یہاں ذاتی وجوہات سے نہیں آیا آپ سب کو یاد ہوگا مارچ کے مہینے میں سوشل میڈیا پہ میری ذات کے خلاف جھوٹی اور غلیظ مہم چلائی گئی مجھے ایجنسی سے بھی فون آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ سر آپ کے خلاف یہ ٹوئٹ پر مہم چل رہی ہے ہم کیا کریں؟ تو میں نے ان کو بولا کہ جب کسی ٹوئٹ کے ری ٹوئٹس

Eight thousand million

سے بڑھ جائیں تو پھر مجھے بتائیے گا اس سے پہلے آپ میری ذات کی فکر نہ کریں، جو آپ کو قوم نے ملک نے فرائض دئیے ہیں اس پہ توجہ دیں تو میں نے اپنی زات کے لیے آنا ہوتا تو تب آچکا ہوتا، آج اس لیے آیا ہوں کہ مرے ادارے کہ شہید، میرے ادارے کہ غازی، میرے ادارے کہ آفیسر جوان جو چوبیس گھنٹے اس ملک کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ان پر جھوٹی تہمات لگائی جارہی ہیں، اس پر خاموش رہنا میرے لیے اخلاقی طور پہ ناممکن تھا میں اس لیے آیا ہوں۔

 

سوال:

جنرل صاحب میرا کوسچین ہے آپ سے پروین شوکت میرا نام ہے جنگ اخبار سے تعلق ہے میرا، اس وقت ملک عدم استحکام کا شکار ہے قوم بکھری ہوئی ہے اور معاشی حالات بھی درست نہیں ہیں ایسے حالات سے دشمن ملک فائدہ اٹھاتے ہیں اگر خدانخواستہ خدانخواستہ کسی طرف سے کوئی کظرات ہوئے تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟

 

ڈی جی آئی ایس پی آر

اگر آپ ملٹری خطرات کی بات کررہے ہیں ملٹری تو فوج دن رات اسی کام پر معمور ہے اور انشااللہ پاکستان کو جو بھی خطرات ہیں ان سے نمٹنے کے لیے ہم  ہر وقت تیار ہیں

SO YOY DON’T NEED TO WORRY ABOUT THAT

یہ ہمارا کام ہے اور ہم کررہے ہیں، اور پورا ہمارے تمام انٹرنیشنلز بارڈرز ہمارے تمام پورے پاکستان کا چپہ چپہ الحمداللہ سیکیور ہے اور کسی قسم کا بیرونی خطرہ ہمیں نہیں ہے اس وقت اور جو بھی خطرات جو بھی چینجیز ہیں ہمیں اس کا ادارک ہے اور ہمارے پاس ان کا جواب بھی ہے

so please don’t worry about that we absolutely fine

 

ڈی جی آئی ایس آئی

دیکھیں جو پاکستان کا دفاعی نظام ہے وہ مضبوط ہے کسی بھی بیروی خطرے کے خلاف جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی نے آپ پہ بیرونی طرف سے حملہ کرنے کا سوچا بھی نہیں کوشش کرنا تو دور کی بات ہے، کچھ نادانی ہوئی دو ہزار انیس میں شرارت اس کا آپ نے جواب بھی دیکھ لیا اکثر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج ہے اس کے پاس ایٹمی ہتیھیار ہیں اس کے کا ڈیٹرنٹس کا کیا فائدہ ہے؟ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کا دشمن آپ پر حملہ آور نہیں ہورہا نہ سوچ رہا ہے اس لیے میں نے آپ کو شروع میں بھی کہا کہ

Deterrents of Pakistan is working everyday it is working 24/7 but it is not making noise

Thank you

سوال:

السلام و علیکم

Both of you gentleman it has been quite informative and reveling press briefing

میرے دو تین سوالات ہیں آپ دونوں سے حضرات سے سب سے پہلے تو جنرل صاحب آپ کے آنے سے لے کر اب تک پاکستان تحریک انصاف کچھ ناخوش نظر آئی آپ نے رات کی تاریکیوں کی ملاقاتوں کی بات کی ہے اور رات کی تاریکیوں کی ملاقاتوں کے اندر کچھ معاملات اچھے اور اگلی صبح کے وقت معاملات خراب ہوتے ہوئے دیکھے اس کی کیا وجہ ہے کہ رات کی تاریکی کے اندر ملاقات ہوتی ہے تو بات ٹھیک ہوتی ہے؟ کیا کوئی ہرڈل ہے؟ کیا کوئی ایسی رکاوٹ ہے جو آپ دیکھ رہے ہی تعلقات بہتر نہیں ہوپارہے؟

دوسرا اس کے ساتھ ساتھ یہ جو ملاقاتیں چل رہی ہیں اس کے اندر ہم لوگوں نے ابھی کل ایک این او سی کے لیے ڈی سی اسلام آباد کو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے نیکسٹ فرائیڈے کو جو آئیں گے اس کے لیے ایک این او سی  مانگنے کے لیے لیٹر لکھا ہے اس کے اندر

Specifically

سبجیکٹ میں لکھا گیا ہے کہ

Peaceful public gathering and sitting

کیا آپ کے پاس اطلاعات ہیں کہ واقعی میں اور رات کی تاریکیوں میں بھی کیا اس بارے میں کوئی یقین دہانی کراوئی گئی ہے کہ یہ جو سسٹنگ ہے یہ پیسفل ہی ہوگا یا نہیں ہوگا؟ آپ کی اس پہ کوئی بات چیت ہوئی؟

جنرل صحاب ہم لوگ ارشد شریف۔۔۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ہم ارشد شریف کی وفات پہ بہت سارے سوالات سنے گئے، حکومت کی سمت سے بھی ہمیں بہت سے سوالات سننے کو مل رہے ہیں جوابات بڑے کم ہیں بہت کم تعداد میں ہیں۔ آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں بڑے پرٹینٹ بڑے امپورٹںٹ ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان سوالات کے پیچھے جوابات بھی کچھ حد تک آپ کو معلوم ہیں، آپ نے چار نام لیے ہیں خرم احمد، وقار احمد، سلمان اقبال جو کہ اے آر وائے کے سی او اور عماد یوسف ان کا آپس کا کنکشن اور ساتھ ہی ساتھ آپ نے جو خرم احمد اور وقار احمد کے بالخصوص بات کی ہے اس کے حوالے سے آپ کے پاس جو اطلاعات ہیں

Would you be able to share that with us

تاکہ کچھ کلیریٹی آئے فیملی کو بھی دوست احباب کو بھی اور جرنلسٹ کمیونٹی کو بھی؟؟

 

ڈی جی آئی ایس پی آر:

اس نے کہا کہ

It is to early to say anything on that. Yes we have information

لیکن وہ انفارمیشن ابھی اس فارم میں نہیں ہے کہ اس کو آپ سب کے سامنے رکھا جاسکے،

There are connections

سب کچھ ہے، اس کو تھرو پراپر مینز انکوائر کرکے فیکٹس کو اسٹیبلش کرکے اس کے بعد سامنے لایا جائے گا۔ اس لیے میں کہا کہ اب تک کی جو انفارمیشن ہمارے پاس آئی ہے جن کو ہم بڑے وثوق کے ساتھ جو چیز آپ کے ساتھ شئیر کرسکتے تھے ابھی ہم نے وہ شئیر کی ہے۔

Connecting the dots will take some time. They are been connected and

اسی لیے میں نے یہ سوالات اٹھائے کہ ان سوالات کے جواب کے بغیر ایک لوجیکل

Conclusion

تک ہم نہیں پہنچ سکتے اس انسیڈینٹ کے بارے میں

And that is all I would like to say right now

 

سوال : inaudible

 

ڈی جی آئی ایس پی آر:

Yes will extent you can say that. Now I request to dg to comment on the next question

 

ڈی جی آئی ایس آئی

یہ جو آپ نے سوال پوچھا ہے کسی مخصوص جماعت کے حوالے سے دیکھئے جب میں نے شروع میں کہا کہ یہ ادارے کا متقفہ فیصلہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو اپنے آئینی اور غیرسیاسی کردار پر محدود کرنا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے جو میں دوبارہ کہہ دیتا ہوں کہ پاکستان کے تمام لوگوں کو ہر شہری کا ہر جماعت کا بلا تفریق غیر ہمارے پہ مساوی حق ہے اس لیے یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی جماعت کل آئینی طریقے سے حکومت بناتی ہے تو ادارے کا فرض ہے کہ اس حکومت کی ریاست کی خاطر آئنیی حدود میں رہ کر مدد کرے ہم یہ مدد کرتے رہیں ہیں اور کرتے رہیں گے کسی بھی جماعت کے ساتھ میرے ادارے کا میری ایجنسی کا ذاتی عناد نہیں ہے، یہ دوبارہ دہرا دیتا ہوں جس جماعت کا آپ نے نام لیا اس میں میرے غالبا ذاتی دوست باقی جماعتوں سے زیادہ ہیں جو آپ نے بات کی میٹنگز کی دیکھئے وہ میٹنگ ہوئی اس میٹنگ میں جو ہمارا مشورہ تھا جو ہمارا بیانیہ تھا جو بات ہم نے کہی وہ یہی تھی کہ آپ نے جو کرنا ہے پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت رہ کر کریں ہم کوئی ایسی مدد فراہم نہیں کرسکتے جو پاکستان کے آئین، قانون اور اخلاق کے مطابق نہ ہو تھینک یو۔

 

سوال

غزالہ سنو ٹی وی

سب سے پہلے تو سر آپ نے دو دفعہ ذکر کیا شہدا کہ پاک فوج کے شہدا ہوں آئی ایس آئی کے ہوں یا تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جتنا بھی پراپرگینڈا ہوجائے جتنا بیانیہ بن جائے ہم بحیثیت قوم نہ صرف ان کی قربنیوں کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں

سر کویسچن میرا یہ ہے کہ ارشد شریف مرحوم صاحب کے حوالے سے گفتگو ہورہی ہے جو ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس پر بھی بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں، یہ کہا جارہا ہے کہ اس میں ایسے افراد شامل ہیں جن پر بالخصوص ان کی فیملی کے لوگ بھی مطمئن نہیں ہیں، اور دوسرا سر یہاں پر میرے ایک کولیگ نے سوال کیا تھا کہ اس پر بھی آپ نے کہا تھا کہ وقت سے پہلے کوئی ایسی بات نہیں کرنی چائیے تو جو وزیر داخلہ رانا ثنااللہ صاحب نے جو اس حوالے سے بیان دیا کہ اس میں بھی انہوں نے سونے کی اسمگلنگ کے حوالے سے گفتگو کی، تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اتنے سینسیٹیو ایشو پہ بات کرتے ہوئے ہر ایک کو سوچ سمجھ کر بولنا چائیے اس حوالے سے؟؟ ٹینک یو سو مچ

 

ڈی جی آئی ایس پی ار:

یہ آپ نے بلکل ٹھیک کہا میں رانا ثنا اللہ سے جو آپ نے بات کی اس پر کمینٹ نہیں کرسکتا،

This is…….   Is In interior ministry of Pakistan and im sure he has some info he is talking about. As far as

جو آپ انکوئری کمیٹی کا ذکر کررہی ہیں دیکھیے اس میں جہاں تک مجھے پتہ ہے جو سوال ان فیکٹ تھوڑا بعد میں اٹھا ہم نے اس سے پہلے ہی جیسے ہی ڈی جی آئی نے بتایا کہ اپنے ممبر اس سے نکال لیے تھے اس پر ہی کسی نے شاید سوال اٹھایا تھا کہ جن پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہی اس کے ممبر ہیں،

Even before that comment came I can tell you for sure

کہ شاید کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ہم اس سے پہلے ہی فیصلہ کرچکے تھے اور اناونس کرچکے تھے کہ

There will be nobody from the agencies either in my or from ISI from impart of that committee

اس کی ایگزیٹ وجہ ہی یہی تھی کہ ہم اس کو بلکل شفاف اور غیر جانبدار رکھنا چاہتے تھے، ٹھیک ہے تھینک یو

 

سوال:

سر آپ نے پہلے کویسچن کے آنسر میں کہا کہ آپ کی طرف سے ریکوسٹ کی گئی اور وہ ہم نے دیکھا بھی اس سے پہلے بھی جب نئے آنے والے آرمی چیف کے کردار کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ایک جملہ اچھالا گیا، اس کے بعد بھی ادارے کی طرف سے بڑے غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور حکومت کو ایکشن لینے کا کہا گیا۔ سر کیا وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے پراپوگینڈا مسلسل دوسری سائید سے ہورہا اور حکومت کی سائید سے ایکشن کیوں نہیں لیا جارہا؟ کیا حکومت جو پاپولیریٹی ہے اسکی وجہ سے بیک فٹ پر ہے دوسرا ڈی جی آئی ایس آئی میرا آپ سے سوال ہے سر ارشد شریف مرحوم کی شہادت سے کہاں پر اب پاکستان میں کس کو نقصان ہورہا ہے اور فائدہ سب سے زیادہ کون اٹھا رہا ہے یہ بہت سارے باشعور لوگوں کو سمجھ میں آرہا ہے۔ تو سر جتنا کچھ آپ نے ساری ڈیٹیلز میں بتایا اس کے علاوہ کیا یہ بھی شبہ ہے کہ اس میں کہیں پر بھی بھارت کی طرف سے بھی کردار ادا کیا جاسکتا ہے؟ اس کا کوئی شبہ ہے ابھی تک تھینک یو؟

 

ڈی جی آئی ایس پی آر:

دیکھیے یہ تھرڈ پارٹی انوالمنٹ بلکل ہوسکتی ہے، اور

NOBODY CAN RULE THAT OUT

اور جیسے میں نے کہا کہ تحقیقات ہوں گی تو بہت سے حقائق سامنے ائیں گے اس کے اوپر ابھی ہم کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے

BUT YES THERE IS VERY BIG POSSIBILTY

کہ اس کے اندر اس طرح کی انوالمنٹ دشمن ایجنسی کی طرف سے ہو۔ پہلا سوال آپ نے کیا کیا تھا؟

حکومت جو کچھ کرسکتی ہے کررہی ہے پچھلی حکومت کہ دور میں بھی بہت پراپوگینڈا کیا گیا تھا ادارے کے خلاف اس وقت بھی جو حکومت اپنے طور پر کرسکتی تھی وہ کیا دیکھیے اس کا ۔۔۔۔۔۔ بہت زیادہ ہے آجکل جو خاص طور پر جو سوشل میڈیا پر ایک دور ہے اور اس میں جس طرح سے بدقسمتی سے چیزوں کے اوپر بات کی جاتی ہے کہتے ہیں ناں کہ

WE ARE LIVING IN POST TRUTH ERA SO HALF TRUHTS

کو فیکٹس کو توڑ مروڑ کے آجکل

OPINOIN

لگتا ہے کسی کا ہے ہی نہیں اینڈ

EVERBODY HAS ASSUME FACTS THAT IS HOW THINGS WORKING TODAY AND UNFORTUNATLEY WE DON’T HAVE ANY REGULATIONS IN OUR COUNTRY AS FAR AS SOCIAL MEDIA  IS CONCERND

اس کے لیے حکومت بہت عرصے سے کام کررہی ہے اور ہمارا معاشرہ

WE ARE VERY POPULOUS COUNTRY

اور ہماری آبادی کا پینسٹھ فیصد سے زیادہ یوتھ پر مشتمل ہے اور یوتھ ہمارا بہت کلیکٹڈ ہے اس چیر کو ریگولیٹ کرنا پڑے گا انٹرنیشنل نامرز کے تحت کرنا پڑے گا لین کرنا پڑے گا ادروائز کوئی بھی حکومت اپنے ریسورسز کے اندر رہ کر اس طرح کے پراپوگینڈا مشین کا مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان چیزوں کے لیے آپ کو بہت سے ریسورسز چائیے ہوتے ہیں، ہمیں ٹیکنولجیکلی اپنے آپ کو

EQUIPPET

کرنا پڑے گا اور ہمیں اپنے ریگولیشن بنانے پڑِیں گے ہمارے جو لاز ہیں ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہمارے ایگزسسٹنگ لازبھی ہیں  ان کو بھی ہم ایمپلیمنٹ نہیں کرپارہے، اس مد میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،

tTHER IS WHAT I FEEL ABOUT IT WOULD YOU LIKE TO SAY SOMETHING ABOUT IT?

 

ڈی جی ائی ایس آئی

شہید ارشد شریف صاحب پر تحقیقات ہورہی ہیں میری یہی درخواست ہے کہ جب تک یہ تحقیقات کسی منطقی نتیجے تک نہیں پہنچتی ہم اپنی رائے محفوظ رکھیں، جو آپ نے بات کی کہ اداروں کےخلاف جب غیر قانونی بات چیت کی جاتی ہے تو حکومت جواب کیوں نہیں دیتی،حکومت جواب دیتی ہے، آپ نے کچھ دن پہلے دیکھا کسی کانفرنس میں اداروں کےخلاف غلط نعرے بازی کی گئی،غلط زبان استعمال کی گئی۔اس کی مذمت وزیراعظم پاکستان نے بھی کی،وزیرقانون نے بھی کی،اس کی مذمت ہمارے خارجہ کے وزیر ہیں انہوں نے بھی کی اور جو پاکستان کے سابق صدر ہیں انہوں نے بھی کی۔تو میں یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ حکومت اس کا جواب نہیں دیتی، وہ جواب آپ کی مرضی اور منشا کے مطابق ہے یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے،لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کہ حکومت دانستہ خاموش ہے۔

 

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جیسے میں نے کہا کہ ڈی جی آئی نے بھی اس سے پہلے یہ بات کی کہ ہمارے پاس ایسی کو انفارمیشن نہیں تھیں کہ ارشد شریف کی جان کو پاکستان میں خطرہ تھا،میرے ساتھ انہوں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔وہ مجھ سے رابطے میں تھے،میرے ساتھ نہ بھی ہو تو میرے ادارے میں موجود لوگوں کے ساتھ ان کا رابطہ رہتا تھا۔انہوں نے کبھی اس بارے میں ڈسکس نہیں کیا، کبھی انہوں نے یہ بات کی ہوتی تو ہم ضرور ان کے ساتھ کھڑے ہوتے،کیونکہ جیسے میں نے کہا کہ ادارے کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا اورجس نوعیت کے پروگرام انہوں نے پاکستان فوج کے بارے میں کیے ہمارے شہدا کے بارے میں کیے ان کا بہت بڑا قرض ہے ہم پر۔اس لئے میں یہ ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے کبھی ایسی بات نہ مجھ سے کی اور نہ میرے ادارے میں کسی اور سے۔بعد میں جب یہ تھریٹ الرٹ جاری ہوا اس پر بھی بعد میں جب آئی ایس آئی نے اس کے اوپر کام کیا۔ہم بہت واضح ہیں کہ ایسی کوئی انفارمیشن نہیں تھی کہ ان کی جان کو پاکستان میں خطرہ تھا۔

 

ڈی جی آئی ایس پی آر نے صحافی سلیم صافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ سلیم صافی صاحب آپ نے جو بات کی بالکل۔آپ نے جس طرح کہا کہ اگر کوئی صحافی اس کمیٹی کا حصہ حکومت بنا سکتی ہے تو ان کو بنانا چاہئے۔میں نے اسی لئے کہا کہ انٹرنیشنل ایکسپریٹ، انٹرنیشنل ادارے۔جو بھی ممکن ہو۔کیونکہ اسی وجہ سے جو آپ نے کہا کہ پہلے ایسی کئی تحقیقات ہوئیں اپنے منطقی انجام پر نہیں پہنچ سکیں۔پہنچنا چاہئے،تمام تحقیقات کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا چاہئے ان کا نتیجہ نکلنا چاہئے،تبھی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور ہماری صحافی برادری اپنی آبجیکٹویٹی کے ساتھ اپنی رپورٹنگ بغیر کسی ڈر کے بغیر کسی خدشے کے کرسکتی ہے (سو اٹس مسٹ ہیپنڈ، اینڈ لیٹس سٹارٹ نائو لیٹس ٹیک اے سٹارٹ نائو) اور اس کے بعد جو بھی ہمارے پینڈنگ کیسز ہیں ان سب کو دیکھنا چاہئے(آئی ایم ایبسلوٹلی دس اٹ)

 

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ سلیم صافی صاحب آپ نے پوچھا میرے سے کہ میرے پاس کیا خفیہ معلومات ہیں کہ کون سے صحافی ہیں جن کو لفافہ کہنا بنتا ہے،میں اس نظریے کے خلاف ہوں، پاکستان کے صحافی بہت مشکل ،دشوار،خدشات اور خطرات کے باوجود اپنا کام بہت اچھا انجام دے رہے ہیں۔میں وزیرستان میں بھی رہا ہوں۔ضرب عضب میں بھی رہا  ہوں۔ ردالفساد میں میں نے بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں پہاڑوں میں دیکھا ہے ہمارے صحافی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے جوانوں اپنے افسروں کے ساتھ آپریشن کی فرنٹ لائن تک گئے ہیں۔ تو میں اس نظریے کی مذمت کرتا ہوں ہمارا کوئی صحافی ایسا نہیں ہے جس کو میں بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔

 

ڈی جی آئی ایس پی آر کا ارشد شریف کیس کی تحقیقاتی کمیٹی سے متعلق سوال پر کاکہنا تھا کہ ہم نے اپنے طورپر اس سے ود ڈرا کیا ہے لیکن اگر کمیشن کو کسی بھی صورت میں ادارے کی ایکسپرٹیز کی ضرورت پڑی تو ہر ممکن تعاون کیا جائے گا ہر ممکن تعاون کیا جائے گا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی،آپ نے جو پہلا سوال کا اس کے بارے میں میں  پہلے ہی جواب دے چکا ہوں کہ انکوائری کمیشن نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس کس نے اس بارے میں کیاکیا بات کی ہے۔اور اگر وہ ان کو شامل تفتیش کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔میں نے سلمان اقبال صاحب کا ذکر خاص طورپراس لئے کیا ہے کہ جتنے سوالات ہم نے اٹھائے ہیں ان میں کہیں نہ کہیں پر ان کا کنکشن ضرور ہے تو یہ بہت ضروری ہے کہ انہیں ملک واپس لایا جائے اور تحقیقات کا حصہ بنایا جائے۔

 

 

سوال:سوشل میڈیا پر پریس کانفرنس سے متعلق باتوں پر اور ایک میڈیا ہائوس جس کے بارے میں بات کی گئی تو وہ ابھی سے کہے گا ہمیں آج سے نشانہ بنایا گیا ہے اس کے حوالے سے آگے کا لائحہ عمل کیا ہےڈی جی آئی ایس پی آر

 

سوال:قابل محترم ڈی جی آئی آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کو نام لے کر گزشتہ سال سے اب تک بہت نشانہ بنایا گیا ہے۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج کی اس پریس کانفرنس سے آپ مطمئن کرسکے ہیں، کیونکہ نوجوان آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں جن کی آپ نے ذہن سازی کی بھی بات کی ہے، ان کے ردعمل پر آپ کیا کہیں گے۔

 

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ میرے لئے میری ذات کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر میری ذات کی اہمیت ہوتی تو میں اس سال کے مارچ میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوتا اور آپ کو معلوم ہے جب سے میں نے یہ منصب سنبھالا ہے میں آپ لوگوں سے بہت کم ملتا ہوں، نہ ہونے کے برابر۔اس لئے کہ مجھے اپنی ذات سے فکرنہیں ہے۔آج جومیں آیا ہوں اس کی جو وجوہات ہیں وہ میں نے آپ کو بتا دی ہیں۔آپ نے سوال کیا کہ یہاں سے آپ اٹھ کر جائیں گے تو سوشل میڈیا پر بہت شور ہوگا۔دیکھیے قوم نے جن فرائض کا بوجھ میرے پر رکھاہے اس میں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں سوشل میڈیا پر جو جھوٹ ،فریب،جھوٹا اور غلیظ پراپیگنڈہ ہو اس  کو دیکھوں، اینڈ آئی ریلی ڈونٹ کیئر،کیونکہ جو قوم نے میرے پر نظر رکھا ہے،میرے فرائض منصبی ہے،میری تمام تر توجہ وہ ہے،میری ذات نہیں ہے۔

 

 

ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یقیناً ہرعمل کا ردعمل ہوتا ہے، ہم  سب یہ سمجھتے ہیں،اور ہم سب اس سے آگاہ ہیں۔جو آج ہم نے بات چیت کی میں نے جیسے کہا کہ ہم نے کسی پر کوئی الزام لگانے کی کوشش نہیں کی ہے ہم نے صرف حقائق سامنے رکھے ہیں اور یہ آپ کے سامنے رکھے ہیں اور یہ آپ پرہے کہ کنیکٹ دا ڈاٹ اور دیکھیں کہ میڈیا کارڈ کون کھیل رہا ہے اور کون اس پر مہم چلا رہا ہے،یہ وہ چیزیں ہیں جن کے اوپر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں آپ کی سپورٹ چاہئے ہوگی۔اب آپ اس کو آگے لے کرچلیں گے۔ہمارے پاس جو ابھی تک تھا وہ ہم نے شیئر کیا ہے اور ہمارا مستقبل  کا جو لائحہ عمل ہے وہ بھی ہم نے آپ کو بتا دیا ہے کہ ہم صرف تحقیقاتی کمیشن کا انتظار کررہے ہیں۔اور ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اسے بہترین ممکن وسائل دیئے جائیں۔بہتر ممکن ماحول دیا جائے تاکہ وہ اس کیس کو پوری طریقے سے تحقیقات کرکے حل کرسکیں۔

 

تھینک یو ویری مچ فار بینگ ہیئر ٹوڈے، وی آر ریلی گریٹ فل تھینک یو

 

About The Author