گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکی ایرانی سرکس
اس سرکس کو پاکستان میں متعارف کرانے والے ”آرائیں پکچرز“ کے مالک فرزند صاحب تھے جنہوں نے 35سے زیادہ فلمیں پروڈیوس کی جن میں قیدی‘ داغ‘ سنگم‘ امیرخان‘ حسینہ نمبری‘ عاشق‘ داس اور مجھے جینے دو شامل ہیں۔فرزند صاحب نے 1969ء ایرانی فنکاروں کے ساتھ مل کر تفریح کا ایک نیا ذریعہ متعارف کرنے کے لئے سرکس کا آغاز کیا جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور اس سرکس کو ”لکی ایرانی سرکس“ کا نام دیا گیا۔ پاکستا ن کے ہر شہر میں اس کے چرچے ہوئے۔میاں فرزند کے انتقال کے بعد ”لکی ایرانی سرکس“ کا صرف نام ہی رہ گیا ہے‘ کسی زمانے میں ہر جمعہ اور اتوار کے اخبارات میں ”لکی ایرانی سرکس“ کے اشتہارات ہوتے تھے مگر ایک طویل عرصہ گزرگیا پرنٹ میڈیا پر ”لکی ایرانی سرکس“ کا اشتہار نظر سے نہیں گزرا۔ کچھ عر صہ پہلے ڈیرہ اسماعیل خان کے دانشور ۔سکالر اور مورخ محترم جناب وجاہت علی عمرانی صاحب سے ملکر توپانوالا گیٹ کی سیر کے عنوان کچھ تاریخی گوشے سامنے لائے تھے مگر اچانک وہ اپنے دفتر کی مصروفیات میں ایسے گم ہوئے کہ ملاقات بھی بہت کم ہوتی ہے ۔ورنہ لکی ایرانی سرکس ڈیرہ میں بھی لگتی رہی۔ وجاہت علی عمرانی صاحب کی یاداشت اتنی تیز ہے کہ وہ اس سرکس سے متعلق ڈیرہ کا احول بھی بتا دیتے۔
اے وی پڑھو
اُچ ڈھاندی ڈیکھ تے چھوراں وی وٹے مارے ہن۔۔۔|شہزاد عرفان
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو