نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کون، کیوں، کیسے، کہاں؟۔۔۔!||عاصمہ شیرازی

ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں منقسم میڈیا، منقسم عدلیہ، منقسم انتظامیہ، مقننہ اور یہاں تک کے منقسم طاقت ور اشرافیہ اُس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مزید تقسیم کی گنجائش نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ارتقا کا جو عمل تقسیم کے بعد جنم لیتا ہے اُس کے آغاز کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دے رہی۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظر میں کیا ہے اور منظر میں کیا، عکس میں کیا ہے اور تصویر میں کیا، فریب حقیقت میں بدل جاتا ہے اور حقیقت فریب ہو جاتی ہے۔ یا خدا یہ ماجرا کیا ہے؟

ہر روز خبر بدل جاتی ہے ہر روز اخبار بدل جاتا ہے، سُرخی بدل جاتی ہے، تحریر بدل جاتی ہے۔ خبروں کی دُنیا میں رہتے ہوئے دو دہائیاں بیت گئیں کبھی کسی خبر پر دل پریشان ہوا، کبھی دل بے چین ہوا اور کبھی مضطرب مگر اب دل ہے مسلسل مایوسی کا شکار۔

ارشد شریف سے لاکھ اختلاف سہی مگر اُن کے قتل کی خبر نے پہلے سے بندوق کے نشانے پر موجود صحافیوں کو مزید پریشان کیا ہے یا یوں کہیے کہ اس بار صحافی کے قتل نے حیرت کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

ارشد شریف نیروبی کیوں گئے؟ اجل لے گئی مگر اس اجل کو کیا نام دیں؟ موت ارشد کا تعاقب کرتے دبئی، برطانیہ اور پھر کینیا پہنچ گئی لیکن موت کی آہٹ کیوں سُنائی نہ دی؟ اجل نام بدل کر سرحد بدل رہی تھی مگر زندگی کو معلوم ہی نہ ہو سکا؟ سوال ہی سوال ہیں۔ کون؟ کیوں؟ کیسے اور پھر کہاں؟

نیروبی کا جنرل سروس یونٹ یا پولیس نے غلطی کی اور مان لی۔۔۔ بات ختم؟ پولیس نے فائر کھول دیا، صرف ایک گولی ٹائر پر لگی لیکن ارشد شریف کا سر چھلنی ہو گیا؟ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر کون تحقیق کرے گا اور کس سے پوچھا جائے گا؟ جہاں اتنے صحافیوں کے قاتل پکڑے نہیں جا سکے وہاں کینیا کی پولیس کے اہلکاروں سے کون الجھے گا-

ارشد شریف، احتجاج

،تصویر کا ذریعہRIUJ

ارشد شریف کے قتل کے پیچھے کیا محرکات ہیں، کیا وجوہات ہیں ان سب کی تحقیق ہونا ضروری ہے لیکن ہو گا کیا؟ کمیشن پہ کمیشن اور نتیجہ ندارد! سلیم شہزاد کمیشن، حامد میر کمیشن، ابصار عالم اور اسد طور پر حملے کی تحقیقاتی کمیٹیاں، عدالتی انکوائریاں اور جانے کیا کیا، دل بہلانے کے بہانے تو ہیں مگر انصاف کے تقاضے نبھانے کے طریقے قطعا نہیں۔

ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں منقسم میڈیا، منقسم عدلیہ، منقسم انتظامیہ، مقننہ اور یہاں تک کے منقسم طاقت ور اشرافیہ اُس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مزید تقسیم کی گنجائش نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ارتقا کا جو عمل تقسیم کے بعد جنم لیتا ہے اُس کے آغاز کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دے رہی۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں حالیہ دنوں آرمی چیف کی ایک اہم بیٹھک کا انعقاد ہوا، جہاں بہت سے انکشافات ہوئے وہیں پر ایک اُمید بھی دامن گیر ہوئی کہ تقسیم کے اس عمل کو کہیں تو رُکنا ہے۔ آئین، جمہوریت، روشن خیالی اور معاشی خوشحالی کی خبر تو دی گئی تاہم تین سے زائد مرتبہ حالات کی خرابی اور حکومت اپوزیشن کے ایک ساتھ نہ بیٹھنے کی صورت مارشل لا کی دھمکی بھی بار بار طاقت اور دھونس کا احساس دلاتی رہی۔

ایسے میں گزشتہ چار سال کے واقعات اور غلطیوں کے احساس نے جنرل قمر باجوہ کی رخصتی کے اہم اعلان کو کسی طور کم اہم نہ ہونے دیا۔

اُسی ایک نشست میں با رہا صحافیوں پر تنقید وہاں موجود صحافیوں کو جُز بُز کرتی رہی مگر ساتھ ہی ساتھ فوج کی سیاست میں عدم مداخلت اور آئینی کردار تک محدود رہنے کے ارادے بھی اُمید دیتے رہے۔

اس اہم نشست کا احوال کسی اور وقت رکھیں گے مگر صحافیوں پر بار بار تنقید اور تقریباً ہر مسئلے کا ملبہ صحافت اور صحافیوں پرگرانا خود ایک مسئلہ سا لگنے لگ گیا۔

پیغام کو نہیں پیغام رساں کو نشانہ بنانا طاقتور حلقوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے مگر برداشت اور بس برداشت، جمہوریت اور بس جمہوریت، آزادی رائے اور بس آزادی رائے ہی معاشرے کو مضبوط کر سکتی ہے۔

ہائبرڈ نظام کی تخلیق کی غلطی کو تسلیم کرنا بہادری ہے مگر تسلیم کر کے نہ دہرانا اُس سے بھی بڑی بہادری ہو گا جس کی آزمائش ابھی ہونا باقی ہے۔

ہماری بدلی ہوئی اسٹیبلشمنٹ، نئی نئی نیوٹرل ہوئی مقتدرہ اور ’جمہوریت‘ کے حامی طاقت کے مراکز کو آئین کے صفحے پر آنے کے لیے ابھی امتحان سے گزرنا ہے اور اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔

اس امتحان کی پہلی منزل کا مسافر نیا آرمی چیف ہو گا۔

 

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author