ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موئی لپ اسٹک لگانے کا شوق ابھی سے نہیں، بہت بچپن سے ہے۔ اور اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ کیا کریں کہ اگر ہماری باتوں میں کہانی در کہانی نکلتی چلی آتی ہے، جیسے ریشم کا لچھا، ایک سرا پکڑو اور کھلتا چلا جائے، بکھرتا جائے۔ تو ایسا ہے بچپن کی دکھ بھری کہانی میں کہ گھر میں لپ اسٹک لگانے کا شوق نہ اماں کو تھا اور نہ ہی آپا، دونوں اس غم سے بے نیاز تھیں اور ہم بے انتہا شوقین۔
اکثر جھنجھلا کر سوچتے یہ دونوں کیسی عورتیں ہیں سپاٹ چہروں والی، نہ لبوں پہ سرخی، نہ گالوں میں غازہ، آنکھوں میں سرمہ اور نہ بالوں میں کوئی کلپ وغیرہ ۔ دونوں اچھے سے کپڑے پہنتیں۔ اماں بالوں کا کس کر جوڑا بناتیں اور آپاپونی۔ اماں تھوڑی سی تبت سنو منہ پر مل لیتیں اور آپا پونڈز کریم۔ چلیے جی تیاری مکمل۔
اب ہم کیا کریں جب گھر میں لپ اسٹک نام کی چیز ہی نہیں۔ کہاں سے لائیں؟ کیسے لگائیں؟ کیسے شوق پورا کریں؟ ترکیبیں سوچنے کے تو ہم ماہر تھے ہی سو اس کا راستہ بھی نکال لیا۔ وہ ایسے کہ جب کسی شادی پہ جانا ہوتا، وہاں پر کسی نہ کسی شوقین خاتون، نو بیاہتا یا الہڑ، کو تاڑ کر اس کے پاس پہنچتے اور چپکے سے فرمائش جڑ دیتے کہ ہمیں لپ اسٹک لگائی جائے۔ بات کرنا مشکل تو کبھی بھی نہیں تھا ہمارے لیے۔ وہ خاتون چھوٹی بچی کی فرمائش پر پہلے حیران ہوتیں، پھر ہنستیں اور پھر فورا لپ اسٹک نکال کر چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پہ ہلکی سی تہہ لگا دیتیں۔ لپ اسٹک لگوا کر آئینے میں ہم اپنے آپ کو دیکھتے، کبھی سامنے سے، کبھی سائیڈ سے، کبھی ہونٹ دبا کر، کبھی مسکرا کر( ان دنوں ہونٹ سکوڑناایجاد نہیں ہوا تھا) پھر سوچتے کہ کتنی پیاری لگ رہی ہوں۔ ادھر ادھر دیکھتے کہ شاید کوئی اور بھی کہہ دے لیکن جناب کہیں سے بھی کوئی آواز نہ آتی سوائے اماں کے جو کہہ رہی ہوتیں، توبہ ایہہ کڑی!
خیر جناب دل ہی دل میں ہم خود ہی اپنی تعریف کر لیتے۔ یہ ہنر ہمیں خوب آتا تھا۔ گھر پہنچنے پر ڈھیٹ بن کر ابا سے پوچھ لیتے، میں پیاری لگ رہی ہوں نا؟ ہاں بہت، وہ آہستہ سے کہتے۔ اماں اپنا ماتھا پیٹ لیتیں، توبہ توبہ ، عمر دیکھو اور اس لڑکی کے شوق۔ مزید ڈھیٹ بن کر ہم کہتے کہ کیوں اچھا لگنا کیا بری بات ہے؟ بلکہ آپ بھی لپ اسٹک لگایا کریں، اچھی لگیں گی۔
اس طرح کی حرکتیں ہم نے دل کھول کر کیں مگر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ کتنی پیاری بچی ہے کیونکہ پیاری بچی کا خطاب ہماری چھوٹی بہن کو مل چکا تھا۔
بڑی بڑی آنکھیں، گھنگھریالے بال، بھولی سی صورت، خاموش طبع۔ سو دوسروں کے نزدیک صورت کچھ یوں بنی کہ دونوں میں سے بڑی، ذہین …زیر لب، چالاکو ماسی اور چھوٹی خوبصورت بہت۔
اتنی سی عمر میں رائے رکھنا اور اپنی مرضی کرنا کسی بھی گھر کی چھوٹی لڑکی پہ کہاں سجتا ہے۔ سو علاج یہ تھا کہ ذرا آئینہ دکھا دیا جائے۔ یہ کام بڑے بھائی صاحب کافی بے رحمی سے سر انجام دیتے۔ماتھا چھوٹا ہونے کا اعلان، ساتھ میں چھوٹی چھوٹی “چنی” آنکھیں، اونچے دانت اور چھوٹی موٹی گردن۔
مگر جناب ان معمولی باتوں کو ہم دل سے کیوں لگاتے کہ تب بھی ہم اپنی دنیا کے قلندر تھے۔ ان دانتوں کی موجودگی میں بھی ہم ہنسنے سے باز نہ رہتے( آج بھی نہیں) کہ ہماری پہچان ذہین ہونا تھا، خوبصورتی کے دائرے سے تو پہلے ہی نکالے جا چکے تھے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ چھوٹی بہن غبی ہو۔ ذہین وہ بھی بہت تھی مگر خاموش طبع ہونے کی وجہ سے عوام الناس میں پہچان صورت بنی اور ہماری شناخت زبان چلانے میں استادی۔
چلیے جی بچپن گزرا خوبصورتی کے ہالے سے دور رہ کر۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی خوبصورتی کے پیمانے ہم سے اونچے ہی رہے۔ خیر قلق کبھی نہیں ہوا کہ محفل میں باتیں بگھار کر ہم جان محفل تو ویسے ہی بن جاتے تھے، چھوٹے ماتھے اور چنی آنکھوں کے ساتھ۔
وہ دور بھی گزرا۔
شادی ہوئی۔ پسند کی شادی ہونے کا موقع ہی نہیں مل سکا کہ اس شوخ کے سامنے کوئی ٹھہرا ہی نہیں۔ چلیے جی کچھ خواتین آئیں، رشتہ طے ہوا۔ پتہ چلا کہ صاحب ہمیں ٹی وی میں دیکھ چکے ہیں۔ ہم ان دنوں ہاؤس جاب کے ساتھ ساتھ لاہور ٹی وی کے ایک پروگرام میں کمپئیرنگ کر رہے تھے۔ سوچا شاید بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی نے کچھ نہ کچھ چھپا ہی لیا تھا۔
شادی سے پہلے ہمیں ان کی تصویر دکھائی گئی۔بڑی بڑی آنکھیں، بھولی سی صورت اور لمبی گردن… ہائے اللہ، یہ تو ہماری چھوٹی بہن کا مردانہ ورژن ہیں، ہم نے ٹھنڈی سانس بھری۔ چلو جی تیار ہو جاؤ خوبصورتی کے مزید قصے سننے کے لیے۔ اپنے آپ کو خود ہی تھپکی دے کر ہم ان کے ساتھ رخصت ہو لیے۔
دلہن اچھی ہے، مگر دولہا بہت اچھا ہے۔
دولہا بہت معصوم دکھتاہے۔
(شاید ہم زیادہ چلتر لگ رہے تھے)۔
دولہا دلہن سے عمر میں چھوٹا لگتا ہے۔
دولہا بہت ہینڈسم ہے۔
پہلے پہل دبی دبی زبان میں تبصرے ہوئے جو کان میں پڑے تو ہم نے سوچا بھئی ہینڈسم ہیں تو تعریف تو ہو گی۔ فورا ٹرک ڈرائیور بھائی جان کا فارمولا یاد آیا، رشک کر، حسد نہ کر۔جلنے والے کا منہ کالا۔
نہ بابا نہ ، ایک ہماری رنگت ہی تو گوری ہے جس کو ہماری شکل میں کچھ نمبر مل جاتے ہیں۔ اب اس کو بھی گنوا دیں کیا جل جل کے۔ اور پھر ذہانت ہے نا ہمارا اثاثہ۔ چلو گولی مارو ان باتوں کو۔ رشک کر حسد نہ کر۔
خیر جناب یہ دنیا کسی کو بے غم کہاں رہنے دیتی ہے۔ ہماری بے فکری نے کچھ لوگوں کو فکر میں مبتلا کر دیا۔چنانچہ ایک وقت وہ آیا جب مسجد سے اعلان کروانے کی کسر رہ گئی کہ کہ افراد خانہ کے دوست ، سہلیاں اور کولیگز تصویریں دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ دلہن عمر میں بڑی ہےاور دولہا چھوٹا۔ دیکھا آپ نے تب بھی ان موئی تصویروں سے ہی گواہی لی گئی تھی۔
سوچا اماں سے پیدائش کا حال احوال دوبارہ پوچھ لیں۔ پھر سوچا شناختی کارڈ نکال کر دیکھ لیتے ہیں بھئی۔ گھور گھور کر دونوں کے شناختی کارڈ دیکھے کہ خلق خدا جو کہہ رہی ہے، حقیقت ہے یا فسانہ؟ شناختی کارڈ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، کس نے کہا تھا کہ کبھی بھی عام لڑکیوں کی طرح نہ شرمانا، نہ گھبرانا، نہ لجانا، نہ خوف کھانا، حمل ہو تو نہ کوئی شکایت کرنا، نہ سنبھل کر قدم رکھنا، نہ کوئی نخرہ اٹھانا، ڈگ ڈگ کر کے چلنا، سیڑھیاں پھلانگنا اور لوگوں کی آنکھ میں دیکھ کر بات کرنا۔ دنیا کی کوئی بات تمہارے لیے نئی بات ہی نہیں تو بی بی چپ کر کے بیٹھو، لچھن جب عمر رسیدہ عورت کے ہوں تو شکایت کیسی؟ کیوں نظر آؤ تم الہڑ حسینہ؟
مرتے کیا نہ کرتے،منہ بسور کے صبر کر لیا۔ ارے ہاں یہ بتانا بھول گئے کہ ہر طرف ہماری کامیابی کا ڈنکا ضرور بجتا۔ ہاں شکل—بس ٹھیک۔
بچے پیدا ہوئے۔ بچے تو خیر سب ہی پیارے ہوتے ہیں لیکن چلیے مان لیجیے کہ ہمارے بچوں کے نین نقش کچھ بہتر تھے۔ آخر ننھیال میں چھوٹی خالہ اور گھر میں باپ، تو جنیاتی اثر کا کمال تو نظر آنا ہی تھا۔
اب ہمارا جی چاہتا کہ چلیں صورت تو دھوکا دے گئی اب حرکتیں کیا ہوں گی۔ دیکھیں بچے کریں گے کیا؟سجدہ ریز ہو گئے جب ان گناہگار کانوں نے ایک دن یہ سن ہی لیا کہ شکر ہے بچے شکل میں باپ پہ گئے ہیں اور ذہانت میں ماں پہ۔
سجدے کے بعد ٹھنڈی سانس بھر کر سوچا، اف یہ ذہانت، موئی دشمن بن گئی ہماری کہ شکل تو کبھی کسی کو نظر آئی ہی نہیں۔
اب پچپن چھپن برس کی عمر میں بنا فلٹر کی تصویروں کے نیچے جب آپ کے کمنٹس پڑھتے ہیں کہ آپ کو ہم خوبصورت دکھتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ مشورہ دیں، حضور والا اگر عینک لگاتے ہیں تو نمبر چیک کروائیں۔ نہیں لگاتے تو آنکھیں چیک کروائیں شاید آنکھ میں جالا اتر رہا ہے۔ اور اگر آنکھیں ٹھیک ہیں تو پلیز فون تبدیل کر لیں، لگتاہے سکرین پرانی ہو کر دھندلا گئی ہے۔
اگر آپ ہماری باتوں کی ناؤ میں بہتے بہتے یہاں تک آ گئے ہیں تو چلیے خوبصورتی کے متعلق آپ کو ایک خاصے کی تحریر سناتے چلیں۔ کتاب ہے ریت سمادھی، مصنفہ ہیں گیتانجلی شری اور انہیں حال ہی میں اس پہ بکر پرائز سے نوازا گیا ہے۔
“تو کیا اصل خوبصورتی ہے اپنے سحر سے ناوقفیت؟ خود کو دیکھنے لگیں تو گھنی بھنووں کی کشش اور ابھری ہڈیوں کی نزاکت بٹ جاتی ہے؟ تبھی شاعر اور فقیر کہہ گئے ہیں کہ حسن اوپر سے نیچے تک کے ظاہر میں نہیں ، نہ ہی احساس کو محسوس کرنے کی خواہش میں اور نہ ہی فن کی تکنیکی مہارت میں ۔ بس چنگاری سی اور بے ترتیبی سی میں مضمر ہے، چاہے بد شکل ہو، ایسی معصوم روح میں ہو جو بے گناہ ہے اور ا چھوتی بھی”۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر