گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری تعلیم کو تربیت کی ضرورت ہے
۔
آجکل بچوں کو گھر اور سکول میں رٹو طوطا بنایا جاتا ہے مگر ان کی تربیت پر زور نہیں دیا جاتا۔ تعلیم ایک کاروبار بن گیا ہے جس کا مقصد نفع اندوزی ہے۔۔۔
پہلے یہ ایک مشن تھا ۔
جب میں مسلم لیگ ہائی سکول ایمپرس روڈ لاہور پانچویں کلاس میں داخل ہوا تو وہاں کی یونیفارم گرے پینٹ۔آسمانی نیلی شرٹ ۔ ٹائی اور کالے بوٹ تھے۔ڈیرہ میں ہماری سکول یونیفارم ملیشیا کی شلوار قمیض تھی جو میل خورہ کپڑا تھا اور استری کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ مسلم لیگ ہائی سکول کا ہیڈماسٹر جناب محمد دین صاحب ڈسپلن کے بہت سخت تھے۔صبح سویرے دو فٹ کی فوجی سٹک لے کر گیٹ پر کھڑے ہوتے۔ ہر طالب علم کی صفائی۔پینٹ کی کریز۔دانت کی صفائی ۔ناخن اور چمکتےبوٹ دیکھتے۔ مجھے کپڑے استری کرنے اور پینٹ کی کریز بنانے کے لیے بہت سویرے اٹھنا پڑتا۔کوئلے کی استری آدھے گھنٹے میں گرم ہوتی اور احتیاط سے پریس کرتے ورنہ کپڑے جل جاتے۔ دانت کو برش سے چمکاتے پھر بوٹ کا نمبر آتا سایکل پر بھی کپڑا مارتے۔ ہیڈماسٹر جناب محمد دین صاحب نے جو عادت ڈالی وہ عمر بھر کے لیے لائف سٹائل بن گئی۔
کئی سال گزر گیے صبح بہت سویرے جاگنا ۔دانتوں کی صفائی روزانہ نہانا اور کپڑے استری کرنا معمول بن گیا۔ کیسے اساتذہ تھے جن کی تربیت آج تک یاد ہے۔خدا غریق رحمت کرے آمین۔؎
ﺁﺋﮯ ﻋُﺸﺎﻕ ، ﮔﺌﮯ ﻭﻋﺪﮦﺀ ﻓﺮﺩﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ۔۔
ﺍَﺏ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮈُﮬﻮﻧﮉ ﭼﺮﺍﻍِ ﺭُﺥِ ﺯﯾﺒﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر