دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کامیابی کا جشن اور سانحہ کارساز!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتان اور ملیر میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کا جشن جاری ہے۔ گیلانی ہائوس ملتان میں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ پھولوں کے انبار لگ گئے ہیں۔ دوسری طرف گذشتہ روز سانحہ کارساز کا دن بھی گزر گیا۔ جشن سے زیادہ سانحہ کار ساز کے شہداء کی یاد میں سیمینارز ہونے چاہئیں تھے۔ سانحہ کار ساز کے شہداء کے لواحقین اور شہداء کی روح کہہ رہی ہے کہ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سانحہ کارساز کو 15 برس بیت گئے، قاتل کون تھا؟ سازش کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ تفتیش میں آج تک کوئی پیش رفت نہ ہوسکی حالانکہ پیپلز پارٹی خود بھی پانچ سال برسراقتدار رہی۔ ظلم تو یہ ہے کہ آج سانحہ کارساز کو گیارہ برس مکمل ہو گئے ہیں، تاہم تباہ کن دھماکوں کے ذمہ داران کو نہیں پکڑا جا سکا، سانحہ میں ملوث افراد کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ پندرہ سال قبل 18 اکتوبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیربھٹو کی وطن واپسی پر ہونے والے دھماکوں میں 177 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جن میں نجی ٹی وی کے کیمرہ مین عارف خان بھی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے چل بسے۔ سانحے کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ عوام کا ایک جم غفیر محترمہ کے استقبال کے لیے موجود تھا مگر قاتل دوسروں کے علاوہ محترمہ کو بھی مارنا چاہتے تھے۔ بے نظیر بھٹو کو پلان کے تحت کراچی ائیر پورٹ سے بلاول ہائوس جانا تھا لیکن جیالوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود تھا۔ پی پی کے جیالے ملک بھر سے سابق وزیرِ اعظم کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے تھے، دن بھر سفر کے بعد نصف شب کے قریب بے نظیر بھٹو کا قافلہ شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر پہنچا تو ایک زور دار دھماکا ہوا جس کے بعد جشن ماتم میں بدل گیا۔ محترمہ کو اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر بچا لیا مگر دو ماہ بعد 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں دھماکہ کرکے اُن کو شہید کر دیا گیا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ سانحہ کارساز اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قافلوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے جن کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔ بعض دہشت گرد پناہ گزین کے روپ میں آئے۔ ان نام نہاد پناہ گزینوں کا ہر اٹھنے والا قدم پاکستان کے خلاف رہا ہے، انہی کالموں میں بار بار توجہ دلائی جاتی رہی مگر توجہ نہ دی گئی، اب تو ان کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی گونج سنائی دے رہی ہے اور ارکان اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی پرچم کی توہین میں ملوث افغانوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ افغان شہریوں کی جانب سے پاکستانی پاسپورٹ پر دبئی جا کر پاکستانی پرچم کی توہین کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا گیا۔ ارکان کا یہ کہنا درست اور بجا ہے کہ پاکستانی پرچم کی توہین ناقابل برداشت ہے اور ہر صورت ایکشن ہونا چاہئے اور شناختی کارڈ و پاسپورٹ کا بھی خاتمہ ضروری ہے۔ پاکستانی پرچم کی توہین کے بارے میں رکن اسمبلی نور عالم خان نے کہا دبئی میں پاک افغان کرکٹ میچ کے دوران پاکستان کے خلاف نعرہ بازی اور پاکستانی پرچم کی توہین کی گئی۔ پاکستانیوں پر تشدد کرنیوالے 390 افغان مہاجرین پاکستانی پاسپورٹس پر دبئی گئے ہوئے تھے۔ یہ سب افغان شہری دبئی سے ڈیپورٹ ہو کر پاکستان واپس پہنچے۔ بتایا جائے کہ ان افغان باشندوںکے خلاف پاکستان میں وزارت داخلہ نے کیا کارروائی کی؟ وزیر مملکت داخلہ عبدالرحمن خان کانجو نے کہا کہ اس بارے میں فی الحال کوئی علم نہیں لیکن میں اس بات پر مکمل متفق ہوں کہ ان افغان باشندوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ عبدالرحمن کانجو کا یہ بیان بذات خود عجب ہے کہ ان کو علم ہی نہیں کہ وزارت داخلہ نے اس پر کیا ایکشن لیا؟ مزید یہ کہ موصوف خود بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ کارروائی ہونی چاہئے حالانکہ وہ خود وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں۔ البتہ محمود بشیر ورک نے بجا طور پر مطالبہ کیا کہ جنہوں نے پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی، پاکستانیوں پر تشدد کیاان کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہئے۔ لیکن یہ بات صرف دبئی تک محدود نہیں ہے، پاکستانیوں کو شکوہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے کرکٹ میچ کے موقع پر جہاں جہاں بھی افغان باشندے رہتے ہیں انہوں نے پاکستان کی بجائے افغانستان کے حق میں نعرے لگائے مگر ہمارے وہ لوگ جن کے افغان مسئلے پر مالی مفاد جڑا ہوا ہے اُن کو یہ باتیں نظر نہیں آتیں ۔ ایک ستم یہ بھی ہے کہ کچھ پاکستانی سیاستدان برسر عام کہتے ہیں کہ ہم افغانی، ہمارا باپ افغانی، ہمارا دادا افغانی، اُن کا مقصد دراصل اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی نہیں افغانی ہیں۔امیگریشن کا نظام، سفارتی نظم اور حکومت غیر ملکیوں کو پاکستانی پاسپورٹ کے اجرا پر غفلت کی نیند سوئے رہے ۔یہ خرابی کا صرف ایک پہلو ہے جو سامنے آ گیا جانے اداروں کی سستی اور کوتاہی کا نتیجہ اہل پاکستان کو کس کس شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے پاکستان کی سالمیت کا تقاضہ یہ ہے کہ اُن لوگوں کو مضبوط کیا جائے جو پاکستان کا استحکام چاہتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author