گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر اعظم ۔ڈیرہ اور آب حیات ۔۔
ہمارے یونیورسٹی پڑھنے کے زمانے دریاۓ سندھ کے کنارے کمشنر آفس ڈیرہ اسماعیل خان کے مشرق میں پانی کا ایک نلکہ hand pump تھا جس کا پانی ہم روزانہ جا کے پیتے اور لوگ کین میں بھر کے گھر لے جاتے تھے۔ کچھ لوگ اس پانی کو ۔۔۔گھیو دے گُھٹ۔ یعنی خالص دیسی گھی کے گھونٹ اور کچھ اسے آب حیات کہتے تھے۔ جب ہمارے محترم دوست جناب عبدلکریم خان قصوریہ پشاور میں
Director General Environmental protection Agency(EPA) KPK
بنے تو انہوں اس پانی کو لیبارٹری میں ٹسٹ کرایا اور پتہ چلا یہ پانی تو آلودہ تھا ۔ خیر گبھرانے کی کوئ بات نہیں ہمارے شیر دریا سندھ میں کہیں نہ کہیں آب حیات کا چشمہ ضرور تھا جس کو تلاش کرنے سکندر اعظم یونان سے یہاں آیا تھا۔ ڈھائی ھزار سال پہلے سکندر اعظم برصغیر کے مختلف علاقے فتح کرتا ہوا پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں نانگا پربت کے نیچے دریائے سندھ کے کنارے ایک گاٶں پہنچا جہاں اسے بتایا گیا تھا کہ یہاں ۔آب حیات ۔کا چشمہ موجود ہے۔ وہاں گاٶں کے ایک بوڑھے شخص نےسکندر اعظم کو آب حیات کے چشمے کی نشاندھی کر دی اور اس نے ایک بوتل ۔۔آب حیات ۔۔ سے بھر لی ۔۔ چشمے کے ساتھ اس نے ایک لومڑی اور کوے کو دیکھا جو ڈھانچہ بنے بیٹھے تھے۔ لومڑی اور کوے نے سکندر اعظم کو بتایا کہ انہوں نے ۔۔آب حیات ۔ کے چشمے کا پانی پیا تھا جس سے ان کو بقاۓ دوام تو حاصل ہو گیا لیکن سدا کی جوانی حاصل نہیں ہو سکی۔ اب وہ دونوں بوڑھے اور بدحال ہیں اور مرنا چاہتے ہیں۔ سکندراعظم نے مایوس ہو کر آب حیات کی بھری بوتل خالی کر دی جس کی تلاش میں وہ اتنی دور سے آیا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر