نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ضمنی انتخابات کا دوسرا راﺅنڈ: عمران خان کو کیا حاصل ہوا؟…||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سولہ اکتوبر کو ہونے والا ضمنی الیکشن ایک اعتبار سے دوسرا راﺅنڈ تھا۔ پہلا راﺅنڈ پنجاب میں ہوا تھا جب حمزہ شہباز کو ووٹ ڈالنے والے بیس ارکان اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے تھے، وہ الیکشن تحریک انصاف نے جیتا، بیس میں سے پندرہ سیٹیں ان کی رہیں، جبکہ ایک سیٹ پر نتیجہ مشکوک رہا،بمشکل ساٹھ ستر ووٹوں سے ن لیگ جیتی۔

آج ہونے والے الیکشن میں قومی اسمبلی کی آٹھ سیٹوں اور پنجاب اسمبلی کی تین صوبائی نشستوں پر الیکشن تھے۔ قومی اسمبلی کی آٹھ سیٹوں میں سے تین سیٹیں کے پی کے (مردان، چارسدہ، پشاور)جبکہ دو سندھ (ملیر، کورانگی کراچی )اور تین سیٹیں پنجاب (ننکانہ ، فیصل آباد، ملتان)میں تھیں۔

دراصل سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے گیارہ استعفے منظور کئے تھے، دو مخصوص نشستیں تھیں ، اسی لئے نو حلقوں میں الیکشن کا اعلان کرایا گیا تو عمران خان نے نو کی نو سیٹوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے۔ ان نو میں سے سات پر آج الیکشن ہوگئے، کرم ایجنسی سے ایک سیٹ پر الیکشن ملتوی کر دیا گیا جبکہ لیاری کراچی سے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی نے اپنا استعفا واپس لے لیا، اس لئے وہاں الیکشن نہیں ہوا۔

آٹھویں قومی اسمبلی کی سیٹ زین قریشی کے مستعفی ہونے سے خالی ہوئی، پچھلے ضمنی الیکشن میںزین قریشی سلمان نعیم کو ہرا کررکن صوبائی اسمبلی بن گئے ۔

ان کی چھوڑی سیٹ کا معاملہ چونکہ الگ تھا، اس لئے عمران خان نے وہاں کاغذات جمع نہیں کرائے، وہاں شاہ محمود قریشی کی بیٹی اور زین قریشی کی بہن مہر بانو قریشی نے تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن لڑا ۔ پنجاب اسمبلی کی تینوں سیٹیں ن لیگ کے ارکان کے مستعفی یا ڈی سیٹ ہونے سے خالی ہوئی تھیں۔

غیر سرکاری نتائج کے مطابق عمران خان نے سات میں سے چھ سیٹیں جیت لی ہیں، ایک سیٹ وہ ملیر کراچی سے ہارے ہیں، تاہم وہاں لڑائی جھگڑے ہوئے، تحریک انصاف کراچی کے ضلعی صدرزخمی ہوئے، انصافین کارکن دھاندلی کی شکایات کر رہے ہیں۔

تحریک انصاف نے این اے اکتیس پشاور کی سیٹ بڑے مارجن سے جیتی ہے، عمران خان نے غلام احمد بلور سے تقریباًدوگنے ووٹ لئے ہیں۔ مردان میں مقابلہ اچھا ہوا، عمران خان نے جے یوآئی کے مولانا قاسم کو وہاں ہرایا ہے، چارسدہ میں کلوز مقابلے کی توقع تھی، مگر عمران خان نے واضح اکثریت سے وہ سیٹ بھی جیت لی۔یعنی کے پی سے عمران خان نے سو فی صد نشستیں جیت لیں۔

پنجاب میں فیصل آباد کا معرکہ عمران خان نے آرام سے جیت لیا۔ عابد شیرعلی کو دس ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا۔ ننکانہ دیہی حلقہ ہے، وہاں منصب علی خان پرانے سیاستدان اور مضبوط شخصیت تھی، ان کی صاحبزادی لڑ رہی تھی، اچھا مقابلہ ہوا مگر عمران خان نے چھ سات ہزار کی لیڈ سے جیت لیا۔ کراچی کورنگی کی سیٹ بھی عمران خان نے آرام سے جیت لی۔

وہاں ٹرن آﺅٹ بہت کم رہا، ایم کیو ایم کے امیدوار کو بہت ہی کم ووٹ ملے۔ ملیر کراچی سے البتہ عبدالحکیم بلوچ جیت گئے ۔ انصافین کارکن ان پر دھاندلی اور زورزبردستی سے جیتنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ویسے ملیر میں پیپلزپارٹی کا ہمیشہ سے ووٹ بینک رہا ہے۔

ملتان سے البتہ تحریک انصاف کو شکست ہوئی، یوسف رضا گیلانی کا صاحبزادہ موسیٰ گیلانی یہاں سے مہربانو قریشی کو اچھے مارجن سے ہرا کر کامیاب ہوا۔ اس سیٹ پر تحریک انصاف کے اندر سے شاہ محمود قریشی کے خلاف خاصا شدید ردعمل آیا ۔ انصافین کارکنوں نے مہربانو قریشی کو امیدوار بنانا قطعی پسند نہیں کیا ۔ ان کے خیال میں شاہ محمود قریشی کو اقربا پروری کے بجائے پارٹی سے کسی اور کو موقعہ دینا چاہیے تھا۔ یہ بات اس لحاظ سے درست ہے کہ مہربانو قریشی سیاست میں فعال نہیں تھیں ، بہت سوں کو تو امیدوار بننے کے بعد ہی ان کا نام پتہ چلا۔

پنجاب اسمبلی کی تین سیٹوں میں سے ایک چشتیاں ، بہاولنگر سے ن لیگی رکن اسمبلی کے خلاف عدالتی فیصلے کے نتیجے میں خالی تھی، وہاں سے تحریک ا نصاف کا امیدوار اچھی لیڈ سے جیتا۔ ن لیگی امیدوار نے وہاں پر خاصا پیسہ بھی خرچ کیا، مگر بات نہیں بنی۔ دوسری سیٹ خانیوال سے خالی ہوئی تھی، یہاں سے ن لیگی رکن اسمبلی نے تحریک انصاف کی حمایت میں استعفا دیا تھا۔

یہ سیٹ تحریک انصاف نے جیت لی۔ البتہ شرقپور سے ن لیگی رکن اسمبلی جلیل شرقپوری کی چھوڑی سیٹ ن لیگ نے جیت لی۔ جلیل شرقپوری تحریک انصاف کے ساتھ مل گئے تھے۔ یہاں سے ان کے کزن ابوبکر شرقپوری نے الیکشن لڑا تھا، مگر وہ ہار گئے۔
پنجاب اسمبلی کی تین میں سے دو سیٹیں جیتنا تحریک انصاف کے لئے اس لحاظ سے فائدہ مند ہیں کہ ان کی عددی اکثریت بڑھ گئی جبکہ ن لیگ کو نقصان ہوا۔

قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے چھ سیٹیں تحریک انصاف نے جیتی ہیں،دو ہار گئے ، مگر ان کا جیتنا دو تین اعتبار سے بہت اہم ہے۔
یہ وہ قومی اسمبلی کے حلقے ہیں جو پی ڈی ایم کے منصوبہ سازوں نے گہرے غوروخوض کے بعد منتخب کئے۔

ان کے پاس تحریک انصاف کے تمام اراکین اسمبلی کے استعفے موجود تھے، انہوں نے صرف وہ حلقے لئے جہاں سے تحریک انصاف کی جیت کا مارجن کم تھا، ان میں سے بعض حلقوں میں انصافین امیدوار پندرہ سو سے دو ہزار ووٹ لے کر جیتا تھا۔ پی ڈی ایم کا خیال تھا کہ دو ہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں ان کے مختلف امیدوار لڑ رہے تھے، ووٹ تقسیم تھا، اب ووٹ متحد ہوگا ، مارجن چونکہ کم تھا اس لئے اس بار جیت یقینی ہوگی۔

یہ تحریک انصاف کی کمزورترین نشستیں تھیں، اس کے باوجود یہاں پر ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی ۔ یہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان کا بیانیہ بھرپور انداز سے چل رہا ہے۔ کے پی، پنجاب اور کراچی تینوں جگہوں سے تحریک انصاف نے نشستیں جیتی ہیں۔ فیصل آباد اور ننکانہ سنٹرل پنجاب میں شمار ہوتے ہیں، جو عام طور سے ن لیگ کا گڑھ تصور ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے مگر دونوں جگہوں سے سیٹیں جیت لیں۔

بہاولنگر اور خانیوال سے بھی انہیں نشستیں ملی ہیں۔ ملتان سے البتہ شکست تحریک انصاف کے لئے پریشان کن ہوگی۔ عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی پارٹی کا کلچر دوسروں سے مختلف ہے، ان کا کارکن اور ووٹر موروثی سیاست کو زیادہ پسند نہیں کرتا۔ ایک آدھ بار وہ رعایت دے دے گا جیسا کہ زین قریشی کو پچھلی بار رکن صوبائی اسمبلی بنا دیا گیا  لیکن اس بار مہربانو قریشی کو ہرا کر شاہ محمود قریشی اور عمران خان کو واضح سبق اور پیغام دے دیا گیا۔

ہمارے مقتدر حلقوں نے یقیناً ان نتائج پر نظر رکھی ہوگی۔ ان پر واضح ہوگیا ہوگا کہ عمران خان کا بیانیہ پہلے سے زیادہ مقبول ہو چکا ہے۔ انہیں ہر جگہ سے ووٹ پڑ رہے ہیں۔ عمران خان کو نظرانداز کرنا اب کسی کے لئے بھی آسان نہیں۔

عمران خان کو بھی ان نتائج سے یقینی طور پر اعتماد حاصل ہوا ہوگا۔ وہ لانگ مارچ کی باتیں کر رہے ہیں، الیکشن نتائج نے مورال ہائی کر دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ اہم حلقوں سے خان صاحب کی بات چیت کسی نہ کسی سطح پر چل رہی ہے۔ ان مذاکرات پر بھی کچھ نہ کچھ اثرات پڑیں گے۔

پی ڈی ایم خاص کر ن لیگ،جے یوآئی اور اے این پی کو شدید دھچکا پہنچا۔ جے یوآئی نے بلدیاتی انتخابات میں پشاور اور مردان سے اچھے نتائج دکھائے، پشاور کا مئیر بھی ان کا بنا، اے این پی کی جانب سے بھی بلدیاتی انتخابات میں مردان، چارسدہ وغیرہ میں ووٹ بینک بڑھنے کے دعوے کئے گئے۔

الیکشن نے یہ سب اڑا کر رکھ دیا۔ غلام احمد بلور کو پشاور سے بدترین شکست ہوئی جبکہ ایمل ولی خان بھی چارسدہ سے کئی ہزارووٹوں سے ہار گئے ، حالانکہ انہیں ن لیگ اور جے یوآئی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ مردان سے جے یوآئی کا امیدوار اتحادیوں کی تمام ترحمایت کے باوجود نہ جیت پایا۔

ن لیگ کا دعویٰ تھا کہ تحریک انصاف کو فیصل آباد سے غلط سیٹیں دلوائی گئی تھیں۔ عابد شیر علی مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے۔ الیکشن میں انہیں خاصے مارجن سے شکست ہوئی، حالانکہ وہ الیکشن میں مسلسل اپنی ہی حکومت پر تنقید کر کے ووٹروں کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس الیکشن کے لئے عابد شیرعلی اور رانا ثنااللہ گروپوںمیں صلح بھی کرائی گئی، مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ننکانہ کے دیہی حلقے سے ن لیگ کا سیٹ ہارنا ان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

پچھلے ضمنی الیکشن میں بھی بھکر وغیرہ سے الیکٹ ایبلز ہارے تھے، اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

ان الیکشن کا ایک پہلو بہت ہی اہم ہے کہ عمران خان کو ووٹ ڈالنے والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ ان کا ووٹ ضائع ہوگا۔ عمران خان نے ایک بھی سیٹ سے حلف نہیں اٹھانا اور یہ سب کچھ ضائع جائے گا۔ اس کے باوجود ان کا ووٹر ان کے بیانیہ کی کامیابی کےلئے نکلا، کھجل خوار ہو کر ووٹ ڈالا۔

یہ بہت اہم اور غیر معمولی بات ہے۔ ایسا پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ امیدوار نے الیکشن جیت کر اسمبلی میں نہیں جانا ، اس کے باوجود ووٹر اسے ووٹ ڈال رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے امیدوار تھے جو الیکشن جیت کر اسمبلی میں جاتے اور وفاقی حکومت سے ترقیاتی بجٹ وغیرہ بھی لے آتے۔

اس کے باوجود ووٹروں کی اکثریت نے عمران خان کو ترجیح دی۔
یہ بیکار الزام ہے کہ عمران خان حلف نہیں لے گا تو اتنے پیسے ضائع ہوں گے۔ سیدھی سی بات ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے ان استعفوں کو منظور کیا ہی کیوں؟

جہاں باقی سوا سو لوگوں کے استعفے پڑے ہیں، یہ بھی رکھے رہتے۔ پی ڈی ایم نے جدید سوشل میڈیائی محاورے کے مطابق ڈیڈھ شانا(اوور سمارٹ)بننے کی کوشش کی۔ انہوں نے ملک بھر کے مختلف حلقے منتخب کئے، جہاں انصافین امیدوار کا مارجن سب سے کم تھااور ہار کا امکان زیادہ تھا۔

انہوں نے تحریک انصاف کو الجھانے کی کوشش کی، مقصد یہی تھا کہ وہ کنفیوز ہوجائیں کہ الیکشن لڑیں یا بائیکاٹ کریں۔ اگر یہ ضمنی الیکشن نہ کرائے جاتے تو یہ سب خرچہ ویسے ہی بچ جاتا۔
عمران خان نے تو جوابی موو کی، سمارٹ موو کی۔ ایک لحاظ سے رسک بھی لیا۔ اگر وہ سات میں سے چار پانچ سیٹوں پر الیکشن ہار جاتے تو ہوا کار خ بدل جاتا۔کہا جاتا کہ عوام نے عمران خان کا بیانیہ رد کر دیا، وہ اب مقبول نہیں رہے وغیرہ وغیرہ۔ قدرت اور عوام نے عمران خان کا ساتھ دیا اور وہ سرخرو ہوئے۔

ان انتخابات کے کیا نتائج اور مضمرات مرتب ہوں گے ،ان کا اندازہ تو آنے والے چنددنوں میں ہوگا، سردست تو عمران خان دوسرے راﺅنڈ کے بھی فاتح ٹھیرے۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author