نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خوراک کا عالمی دن!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوراک کے عالمی مسئلے پر آگاہی پیدا کرنے بھوک ، غربت، تنگدستی اور ناقص غذا کے خلاف جدوجہد پیدا کرنے کیلئے 16 اکتوبر کو خوراک کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر خوراک کی پیدا وار میں اضافے کیلئے اقدامات تجویز کرنا اور دنیا کو غربت اور بھوک کے عذاب سے بچانے کیلئے سیمینارز اور کانفرنسوں کے ذریعے آگاہی مہم پیدا کرنا ہے۔ غذا انسان کی بنیادی ضرورت ہے مگر اس طرح کے عالمی دن پاکستان میں خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔ دنیا کو درپیش عالمی مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ غذائی قلت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کے لوگ ناقص غذا کے عذاب بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان میں تھا معروف سرائیکی شاعر مخمور قلندری نے سیلاب کے حوالے سے مختصر تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر میں نے سیلاب متاثرین کیلئے مخمور قلندری کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ سیلاب کے دوران مصیبت زدہ افراد کیلئے قلندری صاحب نے دن رات کام کیا۔ اب وہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے عمل میں شریک ہیں اور ٹانک ڈی آئی خان کے سیلاب سے صفحہ ہستی سے مٹ جانیوالی بستیوں میں گھر بنانے کا عمل شروع کئے ہوئے ہیں۔ امدادی کارروائیوں کے حوالے سے مخمور قلندری نے بہت بڑی بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ عالمی برادری سیلاب متاثرین کو امداد یا خیرات دینے کی بجائے آئندہ سیلاب سے بچائو کیلئے اقدامات کرے۔ صنعتی ممالک نے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ آلودگی سے دریا برباد ہوئے۔ سمندر محفوظ نہ رہا۔ خدا کی سرزمین کو برباد کرنے کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک نے آسمان کو بھی گندلا کر دیا ہے۔ موجودہ عذاب ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ سیلاب سے غریب تباہ ہوئے، گھر اُن کے اجڑ گئے، ان کے گھروں میں اناج نہیں۔ اس بارے میں کوئی نہیں سوچتا کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ موجودہ نقصان کے ازالے کے ساتھ آئندہ کے بچائو کیلئے اقدامات بارے سوچنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان میں دورہ کے دوران واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان میں سیلاب اور بارشوں سے ہونیوالا نقصان کے ذمہ دار ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی تھا کہ ٹی وی سکرین پر خبر آئی کہ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے خصوصی اجلاس کے دوران تونسہ، مری، وزیر آباد، تلہ گنگ اور کوٹ ادو کو ضلع کا درجہ دے دیا ہے۔ اجلاس کے دوران محسن لغاری کے مطالبے پر جام پور کو بھی ضلعی حیثیت دینے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ نئے اضلاع وقت کی ضرورت ہے مگر یہ کام میرٹ پر ہونا چاہئے۔ نئے اضلاع کے وقت سابق ریاست بہاولپور کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا حالانکہ وہاں سو سال سے کوئی ضلع نہیں بنا۔ بہاولپور کی بہت خدمات ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے بہاولپور اور بہاولنگر بہت بڑے ضلع ہیں اور رحیم یار خان کی آبادی اس وقت گوجرانوالہ سے بھی زیادہ ہے۔ خان پور ضلع تحریک گزشتہ نصف صدی سے چل رہی ہے۔ خان پور اس لحاظ پر بھی میرٹ پر ہے کہ وہ پہلے ضلع تھا مزید یہ کہ جن پانچ تحصیلوں کو ضلع بنایا جا رہا ہے ان سب سے آبادی اور آمدنی میں خان پور پہلے نمبر پر ہے۔ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے کمال کیا کہ گجرات کو ڈویژن بھی بنا دیا اس کیلئے 37 ارب روپے کی سپلمنٹری گرانٹ بھی جاری ہو گئی اور ایک ہزار نئی ملازمتوں کیلئے تمام کاغذی کارروائیاں فوری مکمل کی گئیں۔ نئے ڈویژن کے دفاتر کیلئے رقبے کا انتظام بھی فوری کیا گیا۔ پسماندہ اور محروم وسیب کیلئے بھی اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیرا علیٰ پرویز الٰہی کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس میں بتایا گیا کہ نئے اضلاع کی منظوری سابق وزیرا عظم عمران خان کی ہدایت پر دی جا رہی ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ساڑھے تین سال میں ایک بھی نیا ضلع نہ بنا سکے اور کوشش کے باوجود تونسہ کو ضلع بنانے کا پروجیکٹ فائلوں میں دفن رہا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نئے اضلاع بننے سے انتظامی امور میں بہتری آئے گی۔نئے انتظامی ضلع بننے سے تعلیم،صحت اوردیگر سہولتوں میں اضافہ ہوگا۔نئے اضلاع بنانے کا فیصلہ ارکان اسمبلی اور عوام کی سہولت کو مد نظر رکھ کر کیا ہے۔نئے اضلاع بننے سے ترقی کے ثمرات عوام کی دہلیز تک پہنچیں گے۔ نئے اضلاع کو مالی خود مختاری کی راہ پر گامز ن کیا جائے گا۔ مگر یہی دلیل نئے صوبے کیلئے بھی ہے کہ وسیب کے لوگ نصف صدی سے صوبے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں تو اُن کی بات کو سمجھا جائے کہ نئے صوبے کے قیام سے جہاں انتظامی بہتری آئے گی وہاں وفاق بھی متوازن ہو گا اور پاکستان ترقی کرے گا۔ نشتر ہسپتال میں لاوارث لاشوں کی بے حرمتی بہت بڑا ایشو بنا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لاشیں چھت پر پھینک کر غیر انسانی فعل کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ لاشوں کی بے حرمتی کا واقعہ ناقابل برداشت ہے اور کسی بھی معاشرے میں ایسے واقعہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ انکوائری جلد مکمل کرکے ذمہ دارو ںکا تعین کیا جائے اور کڑی سزا دی جائے۔وزیر اعلیٰ کا نوٹس لینا بجا اور درست ہے مگر ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے ہوتا آرہا ہے۔ ان کالموں میں بارہا حکومت کی توجہ دلائی جاتی رہی مگر توجہ نہیں دی گئی۔ ملتان ایدھی سنٹر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم لاوارث لاشوں کو دفنانے کا فریضہ سر انجام دیتے آرہے ہیں مگر چھ ماہ سے نشتر ہسپتال کی طرف سے کوئی لاش موصول نہیں ہوئی۔ لاوارث لاشوں کے مسئلے دیکھنے کے ساتھ ساتھ وسیب کی چلتی پھرتی زندہ لاشوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ آج 16 اکتوبر کو ملتان میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے ہر پل اور ہر دن تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ 16 اکتوبر 1951ء کو سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ہونیوالا بہت بحران ابھی ختم نہیں ہوا حالانکہ اسی بحران نے پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا مگر اصلاح احوال کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ آج 16 اکتوبر کا سوال اتنا ہے کہ پاکستان کو کب ترقی یافتہ فلاحی ریاست بنایا جائے گا؟

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author