دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا طارق جمیل پر تنقید۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا طارق جمیل ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے۔ پچھلے دنوں تقسیم کے وقت ہندوستان چلے جانیو الے ہندوئوں کی ان اولادوں کو ملنے کیلئے کرتار پور راہداری گئے جن کا تعلق ملتان اور خانیوال سے تھا۔ مولانا کرتار پور کے گردوارے بھی گئے اور اپنے مذہب اسلام کی طرف سے رواداری کا پیغام پہنچایا۔ اس موقع پر مولانا طارق جمیل نے ہندوستان سے آنیوالے مہمانوں کو اجرک بھی پہنائی۔ مولانا نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ اپنی مٹی اور ماں بولی سے محبت فطری بات ہے۔ یہی کشش مجھے یہاں کھینچ کر لائی ہے۔ دونوں طرف کے لوگوں کو اپنی اپنی جنم بھومی میں آنے اور ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ اس موقع پر مولانا پر پاکستان کے مذہبی حلقوں کی طرف سے تنقید بھی ہوئی مگر ان کی رواداری اور پیغام امن کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ مولانا طارق جمیل کی بھولی بسری یادیں قارئین کے سامنے پیش کرتاہوں جو کہ انہوں نے ہندوستان کے ایک یوٹیوب چینل کیشو ملتانی فلمز سے گفتگو کے دوران کیں ۔ یہ باتیں امن اور رواداری کے حوالے سے ہیں اوران باتوں سے اس امرکا بھی اظہار ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے وسیب ، اپنی مٹی اور اپنی ماں بولی سے کتنا پیار ہوتا ہے ؟ اس کا اظہار مولانا طارق جمیل کی گفتگو سے ہوتا ہے ۔ کیشو ملتانی :مولانا صاحب، سلام مولانا طارق جمیل : جی سلام جی کیشو ملتانی : میں خوش آمدید کہتا ہوں اس پروگرام میں جس میں سننے والے کب سے راہ دیکھ رہے ہیں ، میںہندوستان کی طرف سے آپ کو ویلکم کرتا ہوں۔ مولانا صاحب : میں بھی شکر گزار ہوں کیشو بھائی کہ آپ نے مجھے موقع دیا ، اپنے ہندوستان کے بھائیوں سے ، خاص طور پر وہ لوگ جو ہمارے علاقے سے ہجرت کر کے گئے یہ باتیں ان سب تک پہنچائیں اور وہ سنیں ، مجھے خوشی ہو گی ۔ کیشو ملتانی : پروگرام شروع کرنے سے پہلے میں پوچھ لوں کہ آپ کی جو زبان ہے سرائیکی اس میں بات کریں ؟کہ اس سے سننے والے بھی بہت خوش ہونگے ۔ مولانا صاحب : میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہم اپنی زبان میںبات کریں ۔ کیشو ملتانی : اپنی بولی سے مجھے ایسا لگے کہ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہوں۔ مولانا : میری اپنی بھی یہی خواہش تھی ۔مجھے وہ رام سروپ یاد آ گیا جو ٹرین میں ملا تھا ، اس نے کہا تھا کہ ہم اپنی بولی بولیں ۔ میرا دل کہتا ہے کہ ہم اپنی زبان میں ہی بات کریں ۔ کیشو ملتانی : یاد کریں جب آپ نے ہوش سنبھالا ، آپ نے کیا محسوس کیا کہ جو آپ کے پڑوسی ہجرت کر کے ہندوستان آ گئے ، کیسے وہ بندے تھے ؟ مولانا صاحب : میری 1953ء کی پیدائش ہے ، ہوش سنبھالا تو اپنے بزرگوں سے دو قوموں کے نام سنتے تھے ، چوغہ اور بھروتی ۔ وہ تلمبے کے بڑے بااثر اور امیر لوگ تھے ۔ علاقے کے اکثر زمیندار ان سے قرضہ لیتے تھے ۔ مجھے رام سروپ اور ان کی بڑی بہن شاید ان کا نام کرشنا تھا، نے اپنی حویلی بتائی تو ان کی حویلی میں آج کل کم و بیش بیس فیملیاں آباد ہیں ، اتنی بڑی حویلی تھی ۔ ہمارے علاقے میں جو بڑے لوگ تھے ان میں ہمارے خاندان کے علاوہ ایک ہراج ، قریشی اور سنپال خاندان ہیں ۔ ہم راجپوت ہیں ، سہو ہماری سب کاسٹ ہے ۔ ہمارے سارے بزرگوں نے ایکا کر کے جو بھی ہجرت کر کے جا رہے تھے ، چاہے وہ ہندو تھے یا سکھ ، ان کو اپنی حفاظت میں ، کسی خون کا قطرہ گرائے بغیر خانیوال کیمپ میں پہنچایا اور وہ اللہ کے کرم سے بحفاظت بارڈر پار کر گئے ۔ کیشو ملتانی : جو حویلیاں دیکھیں ، کبھی ذہن میں آیا کہ وہ بندے ڈھونڈے جائیں ، کون ہیں اور کہاں پر آباد ہیں ؟ مولانا : میں نے آپ کو کیوں ڈھونڈا ہے ؟ صرف اسی مقصد کیلئے تو ڈھونڈا ہے ۔میں نے پتہ نہیں کہاں کہاں سے رابطہ کر کے آپ کا نمبر ڈھونڈا۔الحمدللہ ایک قدرتی تعلق ہوتا ہے اپنے علاقے کے لوگوں سے ۔مذہب سے ہٹ کر ، زبان اپنی ہو ، علاقہ اپنا ہو تو محبت ہو ہی جاتی ہے۔ جو ہماری پرانی بستی تھی ، اس کا نام حسین پور آڑی والا تھا ۔ وہاں بھی ہندووں کے خاندان تھے ۔ ہمارے والد صاحب قصے سناتے تھے۔ ہمارے والد کا ایک دوست اندر جیت تھا ،ایمرسن کالج ملتان میں اکٹھے پڑھتے تھے ، وہ بہت گہرے دوست تھے ، ان سے گھریلو مراسم تھے۔ انہوں نے میرے والد صاحب کو کہا کہ بھائی اللہ بخش گوشت کھلاؤ گھر میں کوئی کھانے نہیں دیتا۔ میں 1982ء میں انڈیا آیا ، ہم ان سے ملنے پہنچے ، ہمارے پاس جو ایڈریس تھا ، ہم وہاں پہنچے تو وہ گھر چھوڑ چکے تھے، ہم بہت اداس ہوئے ۔ وہاں سے ڈاکخانے چلے گئے ۔ ہم نے وہاں سے پوچھا کہ اندر جیت کے نام کا کوئی خط آتا ہے تو وہاں ایک ڈاکئے نے کہا کہ آتا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں وہ گھر دکھاؤ ، تو ڈاکیا لے گیا ، اسی محلے کی دوسری گلی میں تھا ۔ میں گیا تو ان کی بیگم بیٹھی تھیں ۔ میں نے ان کو بتایا کہ میں میاں اللہ بخش کا بیٹا ہوں ، تو وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ تم تو ہمارے بیٹے ہو ۔تھوڑی دیر بعد اندر جیت بھی آفس سے آ گئے تو ان کی بیگم نے کہا کہ پہچانو کون ہے ؟ اندر جیت نے کہا پتہ نہیں کون ہے ؟ تو ان کی بیگم نے بتایا کہ بھائی اللہ بخش کا بیٹا ہے تو وہ خوشی سے اچھل پڑا اور بہت پیار کیا ۔ساری فیملی ملائی ، ان کی والدہ بھی اس وقت زندہ تھیں ، اپنی والدہ سے کہا کہ ماں جی یہ دیکھو کون آیا ہے ؟اس نے کہا کہ بتاؤ ، اندر جیت نے کہا کہ یہ میاں اللہ بخش کا بیٹا ہے ، تو 80 سال کی بوڑھی جمپ مار کر مجھے ملی ، مجھ سے لپٹ گئی اور بہت پیار کیا اور اپنی ٹھیٹھ زبان میں بات کی ۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں تلمبے میں بیٹھا ہوں ، یہ خوشی اور یہ یادیں میں پوری زندگی نہیں بھول سکتا۔ مولانا طارق جمیل کا بڑ اپن ہے کہ انہوں نے انسان دوستی، رواداری اور ہمارے دین اسلام کا عملی پیغام دوسروں تک پہنچایا ہے۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author