مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جمہوریت ریڈ لائن نہیں، صف بندی ہے….….|| وجاہت مسعود

بٹ صاحب گرفتار ہوئے تو ان کے اہل خانہ نے ہاسٹل کی انچارج صاحبہ سے رابطہ کیا جنہوں نے فائزہ کو ڈرانے دھمکانے کی پوری کوشش کی۔ رات بھر اسے دھمکی آمیز فون آتے رہے۔ عدم تحفظ کے باعث فائزہ ہاسٹل واپس نہیں جا سکتی تھی۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5 اکتوبر بروز بدھ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی آبادی 23 کروڑ 5 لاکھ 57 ہزار قرار پائی۔ اس آبادی میں 60 سے 64 برس کی عمر کے شہریوں کی تعداد صرف 2.4 فیصد ہے۔ آج 7 اکتوبر ہے گویا ٹھیک 64 برس قبل آج ہی کے دن ایوب خان اور سکندر مرزا نے آئین منسوخ کر کے شخصی حکمرانی کی بیاد رکھی تھی جس کے بعد جمہوریہ باقی رہی اور نہ یوم جمہوریہ۔ پاکستان کو 75 برس کی تاریخ میں صرف دو برس 23 مارچ کو یوم جمہوریہ (Republic Day) منانا نصیب ہو سکا۔ موجودہ پاکستان میں معدودے چند ایسے خوش نصیب ہوں گے جنہوں نے شیرخوارگی اور بچپن کی سرحد پر شاید یہ لفظ سنا ہو۔ 1959 میں 23 مارچ آیا تو آمریت کے کسی ایسے نورتن نے یوم جمہوریہ کو یوم پاکستان کا نام دے دیا جو جانتا تھا کہ اب پاکستان کے سرکاری نام میں ریپبلک کا لفظ بے معنی ٹھہرے گا۔

18 جولائی 1947 کو جارج ششم نے قانون آزادی ہند کی منظوری دی تو اس میں ڈومینین سٹیٹس رکھنے والی دو آزاد اور خودمختار مملکتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا جو اپنا دستور مرتب کر کے ری پبلک قرار پانے کا اختیار رکھتی تھیں۔ بھارت نے 26 جنوری 1950 کو جمہوریہ کا درجہ حاصل کر لیا۔ پاکستان کو 23 مارچ 1956 تک اس منزل کا انتظار کرنا پڑا۔ 17ویں اور 18ویں صدی میں متعارف ہونے والی ری پبلک (جمہوریہ) کی اصطلاح کاسادہ مفہوم یہ تھا کہ حاکمیت اعلیٰ عوام کی ملکیت ہے۔ جیسے جمہوریت بنیادی، کنٹرولڈ، روشن خیال یا مذہبی نہیں ہوتی، اسی طرح عوام کا حق حکمرانی مشروط نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے بطور جمہوریہ تشخص کی بنیادی دستاویز قرارداد پاکستان ہے۔ اس قرارداد میں کسی مفروضہ مذہبی نظام حکومت کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ اس دعوے کا ثبوت قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر ہے جس کا بنیادی نکتہ جمہور کی حکمرانی اور شہریوں کی مساوات تھا۔ تاریخی جملہ تھا کہ ’شہریوں کی مذہبی شناخت کا کاروبار مملکت سے کوئی تعلق نہیں‘۔ قائد محترم کے اس اعلان کی بازگشت دستور پاکستان کی شق 20 (الف) میں ملتی ہے جس میں پاکستان کے ہر شہری کو انفرادی حیثیت میں کوئی بھی عقیدہ اختیار کرنے کی آزادی عطا کی گئی ہے۔ اس کی تفصیلی تشریح سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے 19 جون 2014 کے تاریخی فیصلے میں ملتی ہے۔ یہ طالب علم اس فیصلے سے ذیل کے اصول اخذ کر سکا ہے۔ (1) مذہبی آزادی ایک انفرادی حق ہے۔ (2) کسی عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد رضاکارانہ طور پر اجتماعی سرگرمیوں میں شریک ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ (3) ریاست کسی عقیدے کے اوامر و نواہی نافذ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی (4) عقیدہ انفرادی ضمیر سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ عدالتی دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ (5) بلا امتیاز عقیدہ ہر شہری کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان کا مطالبہ ایک جدید قومی ریاست کے سیاسی خدوخال سے مملو تھا تاکہ متحدہ ہندوستان میں موجود مسلم آبادی کے معاشی، سیاسی اور تمدنی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس مطالبے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نہرو رپورٹ، کانگرسی وزارتوں کی کارکردگی اور کیبنٹ مشن پلان سے انحراف کے عندیے سے ہندوستان کی سیاسی قیادت میں دستوری سمجھوتے کا امکان ختم ہو گیا تھا۔ مسلم لیگ نے پنجاب یا بنگال کی تقسیم کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ تقسیم کے فسادات اور وسیع پیمانے پر تبادلہ آبادی کسی منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ان مذہبی رہنماو ¿ں نے پاکستان میں مذہبی نظام حکومت کا مطالبہ شروع کر دیا جو برسوں مسلم لیگ کی مخالفت کرتے رہے تھے۔ 12 مارچ 1949 کو منظور ہونے والی قرارداد مقاصد بابائے قوم کے اس تصور پاکستان کی نفی تھی جو انہوں نے فروری 1948 میں امریکی عوام کے نام اپنے پیغام میں بیان کیا تھا ، ’In any case Pakistan is not going to be a theocratic State — to be ruled by priests with a divine mission.” ۔ قبل ازیں 21 مئی 1947 کو رائٹرز کے نمائندے ڈون کیمبل کو انٹرویو میں انہوں نے پان اسلام ازم کو مسترد کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ پاکستان کسی مذہبی تعصب کے بغیر ایک نمائندہ جمہوری حکومت ہو گی۔ قائداعظم کی وفات کے بعد یہ خواب پریشان ہو گیا کیونکہ عوام کی زندگیوں پر تسلط کے طالب مذہبی پیشواﺅں اور ملکی وسائل پر اجارے کے خواہش مند ریاستی طبقات میں گٹھ جوڑ ہو گیا۔ اس گٹھ جوڑ سے ’نظریہ پاکستان‘ کی اصطلاح نے جنم لیا جس کی کوئی متعین تعریف موجود نہیں۔ دستور اور قانون میں کوئی ایسا لفظ شامل نہیں کیا جا سکتا جس کی غیرمبہم تعریف موجود نہ ہو۔ دستور کی شق 62 اور 63 کی ذیلی دفعات ملاحظہ کیجئے جن میں درجن بھر ایسی اصطلاحات درج ہیں جن کی من مانی تشریح ممکن ہے۔ ہمارے مہربان ایک طرف دستور پاکستان کو اسلامی قرار دیتے ہیں اور پھر اسی ’اسلامی دستور‘ سے ’اسلامی شقوں کا ایک سربستہ راز‘ بھی برآمد کرتے ہیں۔ عدلیہ کو ان اصطلاحات کی مبینہ غلط تشریح پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر ’اسلامی دستور‘ کی مبینہ ’اسلامی شقوں‘ کو عوام کی ریڈ لائنز قرار دیتے ہیں۔ عوام کے حق حکمرانی سے انکار کرنے والے عوام کی ریڈ لائنز جاننے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ پاکستان ایک جمہوریہ ہے جس میں 90 لاکھ غیر مسلم شہری آباد ہیں نیز فرقہ پرستی اور مذہبی شدت پسندی نے قوم کو مفلوج کر رکھا ہے۔ تاریخ کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں۔ عوام کے حق حکمرانی سے انکار کرنے والوں کو خبر ہو کہ جمہور کی حکمرانی مفروضہ ریڈ لائن نہیں، پاکستان کے تحفظ، سلامتی اور ترقی کی وہ صف بندی ہے جس پر مساوات اور انصاف کے لئے سینہ سپر سپاہی ہتھیار ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: