ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے آج تو آپ نے چنی اوڑھ لی، دہلی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر مردھلا نے مسکرا کر کہا۔
ہائیں، کیا تمہارے ہاں بھی دوپٹہ، چنی کہلاتا ہے؟ ہم چونکے۔
جی ہاں، چنی! ہمارے یہاں تو یہ چنی منی نچا مارتی ہے لڑکیوں کو۔ وہ ہنس کر بولی
کیسے؟
بچی زمین سے اگی نہیں کہ ڈانٹ پڑنے لگتی ہے، چنی ڈالو چھاتی پہ، چنی ٹھیک کرو، چنی کہاں ہے تمہاری، چنی پھیلا کر لو۔
توبہ، مطلب وہی سب کچھ جو اس طرف بھی ہے۔ لکیر کھنچ گئی مگر عورت کا نصیب ایک سا دونوں طرف۔
کون ہے جس کے بچپن میں چنی نامی لفظ کی یاد نہ ہو۔ لڑکی ہو، بچپن اور بلوغت کے بیچ سرحد پار کر رہی ہو اور چنی چنی کی گردان نہ سنے۔ ناممکن۔
گھر کی ہر بڑی بوڑھی دن رات چھوٹی بچیوں کی تاک میں۔ یہ لڑکی چنی کیوں نہیں اوڑھ رہی؟ چنی اپنی جگہ سے کھسک کیوں رہی ہے؟ چنی کے عقب سے کچھ نظر تو نہیں آ رہا؟ چنی لینے والی محتاط کیوں نہیں؟ کھیلتے ہوئے چنی کیوں اتار کر رکھ دی؟ ضرورت ہی کیا ہے یوں کدکڑے لگانے کی؟
ہمارے بچپن کی بے شمار شیریں کے ساتھ اگر کچھ تلخ یادیں ہیں تو وہ اسی چنی کے حوالے سے۔ اماں ہماری وہ جن کا خمیر محبت سے گوندھا گیا تھا۔ شیرے میں لت پت مگر تھیں تو اسی پدرسری معاشرے کا ایک حصہ، سو چنی کے بھوت کا وہ بھی شکار۔
نانی جب بھی گاؤں سے ہمارے گھر رہنے آتیں، ہماری کم بختی آ جاتی۔ برامدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھے بیٹھے ان کی آنکھیں ہر وقت ہمارا تعاقب کرتیں۔ اٹھتے، بیٹھتے، سکول جاتے، صحن میں گھومتے۔ پھر وہ اماں کو آواز لگاتیں، نی عظمت ایس کڑی نوں چنی دے ( عظمت اس لڑکی کو دوپٹہ اڑھاؤ) ۔
چنی۔ کس لیے؟
اماں خود بھی چنی گروپ میں شامل تھیں سو ایک دن حکم صادر کر ہی دیا کہ اب دوپٹہ اوڑھا کرو۔ چھٹی یا ساتویں جماعت میں ہوں گے ہم۔ سن کر کچھ حیران ہوئے کہ کیوں کیا ہوا؟ دوپٹے کی کیا ضرورت آن پڑی یک لخت۔
کیوں؟ بس کہہ دیا نا دوپٹہ اوڑھا کرو۔
آپا دس برس ہم سے بڑی، دوپٹے یا چادر میں لپٹی لپٹائی، کسی بھی حکم سے انحراف نہ کرنے والی۔ دوسری طرف ہم، ہر بات کی مین میخ نکالنے میں ماہر۔ کیوں؟ کیسے؟ کب؟ کہاں؟ کی گردان زوروں پہ۔ تب ہماری سمجھ سے باہر تھا کہ چھوٹی سی لڑکی کے جسم میں ایسا کیا اگ آتا ہے کہ بڑی بوڑھیاں ناک پہ چشمہ جماتے ہوئے بچی کے جسم کا گھور گھور کر آپریشن کرتی ہیں اور پھر انہیں چنی یاد آ جاتی ہے۔
آپا، سمجھ نہیں آتا، نانی اور اماں ہر وقت چنی دوپٹہ کا ہنٹر کیوں برساتی رہتی ہیں؟
بھئی، اب تم بڑی ہو رہی ہو نا۔
ہاں نا، میں بڑی ہوں گی، بڑے بڑے کام کروں گی۔ ہم نے اٹھلا کر کہا۔
نہیں نا، بڑی۔ مطلب بڑی لڑکی بن رہی ہو۔ آپا اٹک اٹک کر بولیں۔
وہ تو سب بن جاتے ہیں ایک دن بڑے۔
ہاں تو پھر بڑے ہو کر دوپٹہ لینا پڑتا ہے۔ پھیلا کر سامنے۔
کیوں سامنے کیوں؟
بھئی لڑکی بڑی ہو رہی ہوتی ہے نا۔
لڑکا بھی تو بڑا ہو رہا ہوتا ہے، اسے تو کوئی نہیں کہتا کہ چنی اوڑھو؟
لڑکوں کو ضرورت نہیں ہوتی۔
تو لڑکیوں کو کیا ضرورت ہوتی ہے؟ بھئی لڑکوں میں وہ نہیں ہوتی۔
کیا نہیں ہوتی؟
یہاں آ کر آپا کے پر جل جاتے۔ انہیں سمجھ نہ آتی کہ وہ کن الفاظ میں چھوٹی بہن کو بتائیں؟
بھئی وہ۔
کیا وہ؟
وہ۔ وہ چھاتی۔
تو؟
شرم کی بات ہے نا۔
کیا؟
چھاتی بھئی۔
کس بات کی شرم؟
آتی ہے نا۔
کیوں؟
برا سمجھا جاتا ہے اگر چھاتی کی ذرا سی بھی جھلک نظر آئے۔
جھلک کیسے نظر آئے گی؟ قمیض تو پہنی ہوتی ہے۔
ابھار سے پتہ چلتا ہے نا بے وقوف۔
تو ابھار اللہ بناتا ہے یا لڑکیاں خود؟
یا اللہ۔
اور اگر اس قدر بری بات ہے تو لوگ چھاتی کی طرف دیکھتے ہی کیوں ہیں؟
نظر پڑ جاتی ہو گی۔
نظر قابو میں کیوں نہیں کرتے؟
کیا کہوں اس لڑکی کو۔
ماں کے دودھ کو اس قدر افضل مقام کیوں دیا جاتا ہے اگر وہ شرمناک جگہ سے آتا ہے؟
توبہ۔
ہماری چھوٹی سی عقل میں یہ نہیں سما سکتا تھا کہ جب جسم قمیض سے ڈھکا ہوا ہے تو چنی کیا کرے گی؟ عورت کی چھاتی بنانے والے کی مرضی سے بنی ہے تو اسے جسم کے اس حصے سے شرم کیوں دلائی جائے جو ساری عمر کے لیے لڑکیوں کو کبڑا بنا دے۔ لڑکیوں کی جھکی ہوئی کمر اور پیچھے کو نکلے ہوئے کندھے گواہی دیتے ہیں کہ پدرسری معاشرے نے کوئی کمی نہیں چھوڑی، تنبیہ، ڈانٹ، استہزائیہ جملے اور لطیفے۔
انسانی تخلیق، مرد ہو یا عورت، یکساں اصول پر ہوئی ہے۔ جیسے بچے کے قد میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی ہے اسی طرح جسم کے دوسرے عضو بھی بدلتے ہیں۔ نپل اور چھاتی ہر انسان کو عطا کیے گئے ہیں صنفی فرق کے باوجود۔ مرد کے جسم میں نپل تو نظر آتا ہی ہے لیکن جلد کے نیچے کچھ نہ کچھ پستان کا حصہ بھی موجود ہوتا ہے۔
مرد اور عورت کے نپل اور چھاتی کے سائز اور شکل میں تبدیلی جسم کی ضرورت ہے۔ عورت کے پستان یا چھاتی پہ بچے کی غذا کا دار و مدار ہے سو ہارمونز کے زیر اثر اس کا سائز اور شکل مرد کے نپل اور چھاتی سے بدل جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مردانہ جسم میں بیرونی جنسی اعضا اپنا حجم تبدیل کرتے ہیں۔
میڈیکل سائنس میں چھاتی کو میمری گلینڈ کا نام دیا گیا ہے اور میمری گلینڈ کا کینسر یہ لحاظ نہیں کرتا کہ میمری گلینڈ مرد کا ہے یا عورت کا۔ مرد کے میمری گلینڈ میں دودھ پلانے اور حمل کے دوران ہونے والی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوتی سو کینسر کی شرح بھی عورت کی نسبت بہت کم رہتی ہے۔
چھاتی کے کینسر کی سب سے بڑی بدصورتی یہ ہے کہ چھاتی کے نام سے منسلک کی گئی شرم عورت کے ذہن میں اس طرح کا جال بن دیتی ہے کہ وہ چھاتی کے نام سے جڑی کسی بھی تکلیف کے لیے ڈاکٹر کا علاج درکنار، نام بھی نہیں لینا چاہتی۔
نتیجہ موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
ایک ایسا کینسر جس سے بچا جا سکتا ہے اگر عورت کی چھاتی کو ہیجان، شہوت اور جنسی لذت کا سامان نہ سمجھا جائے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر