وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ عالم عرف شہباز شریف کے کوتوالِ اعلیٰ رانا ثنا اللہ اپنے آبائی شہر فیصل آباد جانا تو کجا دارالحکومت کی حدود سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے زیرِ انتظام پنجاب کی ایک عدالت نے ان کے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کر رکھے ہیں۔
ہر موڑ پے وا ہیں میری آنکھوں کے دریچے
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ جاتا ہے کہاں سے( جاوید صبا )
پنجاب میں پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بٹھائے تو گئے ہیں مگر ان کی کلائی پر بندھے دھاگے کا دوسرا سرا بنی گالہ کے گیٹ سے بندھا ہوا ہے۔ یعنی شوق دا کوئی مل نئیں۔
رہی خیبر پختونخوا کی حکومت تو وہ اس وقت عملاً عمران خان کے جلسوں کی دریاں بچھانے اور ہیلی کاپٹر کے پروں پر کپڑا مارنے پر مامور ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر عارف علوی کے ایوانِ صدر کا معاملہ ہے تو وہ عسکریہ اور عمران خان کے درمیان پل بلکہ ’پش اینڈ پل‘ کا کام کر رہا ہے۔
اسی دوران پانچ ججوں کی خالی آسامیاں پُر کرنے کے معاملے پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں قائم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے کچھ برادر ججوں کے درمیان کھلے خطوط و بلاواسطہ بیانات کی شکل میں بیچ چوراہے پر الگ پیکار چل رہی ہے۔
اس پیکار کے تھپیڑے ان پچاس ہزار سائلوں کو سہنے پڑ رہے ہیں جن کی مقدمہ جاتی فائلوں نے سپریم کورٹ کی بہت سی جگہ گھیر رکھی ہے۔
جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا بیشتر وقت پی ٹی آئی کے حق میں یا خلاف دائر درخواستیں نمٹانے پر صرف ہو رہا ہے اور معمولی سائل عدالت کے باہر گرین بیلٹ کے سائے میں دھوپ سے نمٹ رہے ہیں۔
اہلِ سوات مسلح طالبان کی علاقے میں بارِ دگر آمد کی بابت سرکاری و عسکری یقین دہانیوں پر لمحے بھر کے لیے یقین کرنے کو تیار نہیں۔ سوات کے مختلف علاقوں میں طالبان کی آمد اور سرکاری آنا کانی کے خلاف روزانہ احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں۔
نوبت یہ آ گئی ہے کہ مظاہرین سرکاری تحفظ کی توقع سے مایوس ہونے کے بعد اپنی مدد آپ کے تحت مسلح شہری حفاظتی دستے تشکیل دینے کا الٹی میٹم دے رہے ہیں۔
جبکہ گلگت بلتستان کے زیریں علاقوں میں طالبان کی دیامیری شاخ اس خطے کو کاغانِ کے راستے پاکستان سے ملانے والی سڑک پر ناکہ لگا کے گلگت بلتستان کے ایک وزیر عبید اللہ بیگ کو اغوا کرنے کے چند گھنٹوں بعد رہا کر کے اپنی قوتِ نافذہ کا با آوازِ بلند اعلان کر رہی ہے۔
اس شاخ کا لیڈر حبیب الرحمان ماضی قریب میں شیعہ مسافروں اور دس غیر ملکی سیاحوں کے قتل کے الزام میں 2013 میں گرفتاری کے دو برس بعد گلگت جیل سے فرار ہو کر پچھلے سات برس سے اپنے علاقے میں نہ صرف موجود ہے بلکہ مقامیوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے عدالت بھی کر رہا ہے۔
دو روز قبل حبیب اللہ نے اچانک نمودار ہو کر میڈیا سے بھی بات کی۔ مگر پولیس کی فائلوں میں حبیب الرحمان روپوش ہی بتایا جاتا ہے۔
رہے پاکستان کے بدترین سیلاب کے ساڑھے تین کروڑ متاثرین، تو ان کے نام پر امداد بیرونِ ملک سے آ رہی ہے۔ امداد بانٹنے کے کام میں نجی فلاحی تنظیمیں آگے آگے ہیں اور صوبائی و وفاقی عمل دار جگہ جگہ دورے کر کے فوٹو سیشن کروانے کی آئینی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں۔
اسلام آباد کی حدود میں نظربند حکومت کوئی بھی ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی جس کے لیے دو تہائی پارلیمانی اکثریت درکار ہو۔ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے 123 ارکان کی غیر حاضری کے سبب پارلیمنٹ بھی ایک پھیپھڑے پر زندہ ہے۔
پی ٹی آئی کیا واپس قومی اسمبلی میں قدم رکھے گی؟ یہ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر ظفر کو بھی نہیں معلوم۔ حالانکہ وہ ان دنوں سپیکر کو پی ٹی آئی کے غیر حاضر ارکان کے استعفی منظور کرنے سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کی مداخلت چاہتے ہیں۔
یہ استعفی جو بقول پی ٹی آئی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے یکلخت منظور کر لیے تھے کب ایک احتجاجی خط میں تبدیل ہو گئے۔ یہ راز یا تو عمران خان جانتے ہیں یا پھر اوپر والا۔
پی ٹی آئی سپیکر کی جانب سے 123 میں سے 11 ارکان کے استعفی منظور کرنے کے عمل کو غیر آئینی بھی سمجھتی ہے لیکن ان استعفوں کی منظوری کے سبب خالی ہونے والی زیادہ تر نشستوں پر خود عمران خان انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
مگر آزادی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد میں فاتحانہ داخل ہونے پر بھی کمر بستہ ہیں۔ جبکہ گیارہویں مستعفی رکنِ اسمبلی (شکور شاد) نے اپنی نشست خود ہی عدالت کو کہہ کے بحال کروا لی ہے۔
دریں اثنا ایوانِ وزیرِ اعظم کی افشا گفتگو ٹیپ وار ریلیز ہونے کے باوجود نہ تو عمران خان کے حامیوں کی تعداد گھٹی ہے اور نہ ہی ان کی آواز کا کرارا پن بدلا ہے۔
الٹا پی ٹی آئی کے میڈیا سیل اور حکومت کے پبلسٹی ونگ کے درمیان یہ دوڑ جاری ہے کہ کون نظریہِ عمرانی کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
اس بیچ یہ بحث بھی درجہ حرارت بڑھا رہی ہے کہ نیا آرمی چیف پرانا ہی ہوگا یا کوئی تازہ ہو گا۔ تقرری ہو گی تو کب تلک۔ یہ وہ گاجر ہے جسے عمران خان موجودہ اسلام آباد سرکار عرف وفاقی حکومت سے 29 نومبر سے پہلے پہلے اچکنے کے لیے بے تاب ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اگر آئین آڑے نہ آئے اور اپنے بس میں ہو تو مسلم لیگ ن اسحاق ڈار کو اور پی ٹی آئی شہباز گل کو آرمی چیف بنا ڈالیں۔
ضیا الحق سے پرویز مشرف تک بلکہ اب تک جس جس نے بھی آرمی چیف کی تقرری میں ’اپنا بندہ‘ تلاش کرنے کی کوشش کی وہی سب سے زیادہ خسارے میں رہا۔ یہ وہ کھلا راز ہے جو اب اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ نہیں جانتا تو اقتدار میں آنے والا یا نکلنے والا نہیں جانتا۔ پھر بھی خود کو سینیئر سیاستداں کہلائے جانے پر بضد رہتا ہے۔
گویا آج کا پاکستان سیاسی و انتظامی اعتبار سے اٹھارویں صدی کے کھکھل ٹکسال کے مقروض مالک مغل بادشاہ شاہ عالم ساکنِ لال قلعہ کا ہندوستان ہے۔ جہاں پر جہاں پناہ کو مسند آرائی کے عوض تلوار کے قبضے پر ہاتھ دھرے مراٹھوں، خود سر صوبیداروں، بادشاہ گر سید برادران اور بیگماتِ قلعہِ معلی کو ریشہ دوانیوں اور دست درازیوں سے باز رکھ کے تختِ طاؤس کے پایوں کو ٹکائے رکھنے کے لیے ہر ابن الوقت لالچی کو ہر ایک بوٹی کے نذرانے کے عوض پورا پورا اختیاراتی بکرا بخشنا پڑ رہا تھا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر