ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم روحانی پیشوا حضرت پیر سید مہر علی شاہ کا گولڑہ شریف میں عرس اختتام پذیر ہوا۔ پوری دنیا سے زائرین نے شرکت کی۔ آپ پوٹھوہاڑی زبان کے بہترین شاعر تھے۔ آپ کی نعتیہ کافی ’’اج سک متراں دی ودھیری اے‘ کیوں دلڑی اداس گھنیری اے‘‘ ہر جگہ مشہور ہے۔ عرس مبارک کی تقریبات میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ عرس مبارک کی تقریبات تین دن جاری رہتی ہیں۔ تقریبات کے دوران علماء و مشائخ کا خطاب اور محفل سماع سے پہلے تلاوت کلام پاک اور ختم خواجگان ہوتا ہے۔ نعت خوانی کی خصوصی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ کو تاجدار گولڑہ شریف کا لقب حاصل ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ترویج کیلئے آپ کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ انسان دوستی اور تصوف کے احیاء کیلئے آپ پوری زندگی کام کرتے رہے۔ حضرت مہر علی شاہ نے اسلام کی تبلیغ کیلئے بہت سفر کئے۔ وسیب کے علاقوں میں آپ کی تشریف آوری کے بہت شواہد ملتے ہیں۔ آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کا رنگ گندمی، بلند پیشانی، آنکھیں چمکدار، گھنے آبرو، خوبصورت ریش مبارک اور گھنگریالے بال کانوں تک دراز تھے۔ آپ کا قد درمیانہ تھا۔ آپ کو ابن العربی کے نظریہ وحدت الوجود پر عبور حاصل تھا اور حضرت ابن العربی کی کتاب فصوص کا درس دیا کرتے تھے۔ حق گوئی آپ کی صفت میں شامل تھی۔ پوٹھوہاری کے علاوہ فارسی میں بھی شاعری کی۔ پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف میں 14 اپریل 1859ء بمطابق 1 رمضان 1275ھ کو پیدا ہوئے۔آپ کا سلسلہ نسب 25وا سطو ں سے سید نا شیخ عبدا لقا در جیلا نی المعر و ف غو ث الاعظم سے اور 36 وا سطو ں سے سیدنا اما م حسن سے جا ملتا ہے۔ آپ کے ایک ہی صاحبزادے تھے جن کا نام پیر سید غلام محی الدین گیلانی تھا اور انکو آپ پیار سے ’’بابو‘‘ بلایا کرتے تھے۔ بابو جی کے دو صاحبزادے ہیں،ایک پیر سیدغلام معین الدین شاہ اور دوسرے پیر سید عبدالحق شاہ۔ پیر سید غلام معین الدین شاہ کے صاحبزادگان پیر نصیر الدین نصیر،پیر غلام جلال الدین شاہ اور پیر غلام حسام الدین شاہ ہیں،جبکہ پیر عبدالحق شاہ کے دو صاحبزادے ہیں،ایک پیر غلام معین الحق شاہ اور دوسرے پیر غلام قطب الحق شاہ۔پیر مہر علی شا ہ نے صرف چار سال کی عمر میں پڑھنا شروع کر دیا اور نا ظر ہ قر آن مجید پڑھنے کے لیے آپ کو خا نقا ہ کی در سگاہ میں اردو، فا رسی کی تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل کر دیا گیا، قو ت حا فظہ کا یہ عالم تھا کہ قرآن مجید کا سبق روزانہ آپ حفظ کر کے سُنا دیا کر تے تھے۔ جب قرآن حکیم ناظرہ ختم کیا،تو اس وقت آپ کو پورا قرآ ن کر یم حفظ بھی ہوچکا تھا۔عر بی، فا رسی اور صر ف ونحو کی تعلیم مو لا نا محی الدین سے حاصل کی، آپ نے ’’کافیہ‘‘ تک اپنے اُستا د سے تعلیم حا صل کی اور اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے حسن ابدا ل کے نو اح میں مو ضع ’’بھوئی‘‘ کے مو لا نا محمد شفیع قریشی کی درسگاہ میں داخل ہوئے اور دو، اڑھائی سال میں رسائل ِمنطق میں سے قطبی تک اور نحو اور اصول کے در میا نی اسبا ق تک تعلیم حا صل کی۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے مو ضع ’انگہ‘ (علا قہ سو ن ضلع شا ہ پو ر) کا سفر اختیا ر کیا اور وہا ں پر مولانا حافظ سلطان محمود سے تکمیل کی۔ بزرگوں کا سب سے بڑا وسعت یہ ہے کہ وہ مزارات سے محبت کرتے ہیں اور اولیاء اللہ سے محبت و نسبت رکھتے ہیں۔ راوی بتاتے ہیں کہ ’’انگہ‘‘ میں قیا م کے دو را ن مولا نا حا فظ سلطا ن محمو دکے ساتھ ’’سیا ل شریف‘ ضلع سرگو دھا، خو اجہ شمس الدین سیا لو ی چشتی کی زیا ر ت کے لیے جا یا کرتے اور خو ا جہ سیا لو ی آپ پر خصو صی شفقت و محبت فر ما تے تھے۔ چنا نچہ اسی شفقت و محبت کی وجہ سے پیر سید مہر علی شاہ سلسلہ چشتیہ نظا میہ سلیما نیہ میں شمس الدین سیا لو ی سلیما نی کے دست پر بیعت ہو ئے اور خلافت سے نوازا۔ حضرت مہر علی شاہ خود بھی سخی تھے اور انکی سخاوت کا فیض آج بھی جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو تین ہزار افراد آج بھی گولڑہ شریف کے دسترخوان سے کھانا کھاتے ہیں۔ رمضان شریف میں انتظامات وسیع ہو جاتے ہیں اور افطاری و سحری کا خصوصی انتظام ہوتا ہے۔ زائرین کیلئے طعام کے ساتھ قیام کا بھی انتظام موجود ہے۔ گولڑہ شریف میں زائرین کیلئے رہائشی کمرے بنائے گئے ہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار زائرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ گولڑہ شریف جا کر وسیع انتظامات دیکھنے کا موقع ملا۔ بلا شبہ ہزاروں مہمانوں کے کھانے کے انتظام کیلئے آٹا بنانے کی آٹومیٹک مشین موجود ہے۔ لنگر خانے میں دیگیں اور روٹیاں پکانے کے وسیع پیمانے پر انتظامات دیکھنے کو ملے۔ وہاں مہر علی شاہ ٹرسٹ بھی موجود ہے۔ پوری دنیا سے زائرین اور عقیدت مند اپنا حصہ شامل کرتے ہیں۔ دربار گولڑہ شریف 48کنال رقبے پر محیط ہے۔ دربار کے اندر ایک بہت بڑی لائبریری موجود ہے۔ جس میں عربی، انگریزی، اردو اور دیگر زبانوں کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ آپ کی بہت تصانیف ہیں جن میں تحقیق الحق فی کلمۃ الحق، شمس الہدایہ، سیف چشتیائی، اعلا کلمۃ اللہ وما اہل بہ لغیر اللہ، الفتوحات الصمدیہ، تصفیۃ ما بین سنی والشیعہ، فتاوی مہریہ، مراۃ العرفان، مکتوبات طیبات، ملفوظات مہر علی شاہ شامل ہیں۔ آپ کے علمی فیوض و برکات سے پوری دنیا استفادہ کرتی ہے۔ آپ کے عقیدت مندوں کی تعداد پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ وسیب کے علاوہ خطہ پوٹھوہار، گلگت اور بلتستان میں آپ کے لاکھوں عقیدت مند ہیں۔ منگل کے دن 29 صفرالمظفر1356ھ بمطابق 11 مئی1937ئکو آپ کاوصال ہوا۔ آپ کا مزار شریف گولڑہ شریف،اسلام آباد میں مرکزِ انوار وتجلیات ہے۔آپ کے نام سے راولپنڈی میں ایک یونیورسٹی موجود ہے اور ملتان سے مہر ایکسپریس کے نام سے ٹرین بھی چلتی ہے۔ جو لوگ انسان دوست ہوتے ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ بابا بلھے شاہ نے سچ فرمایا ’’بلھے شاہ اساں مرنا نہ ہئی، گور پیا کوئی ہوور‘‘۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر