ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاتون جج کو دھمکی دینے کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان معافی کیلئے خود چل کر خاتون جج کی عدالت گئے۔ جج صاحبہ کی عدم موجودگی میں معافی نامہ جمع کروا آئے تھے۔ اس کے باوجود گزشتہ روز ورنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو ملک میں سیاسی بھونچال آگیا۔ پولیس کی بھاری نفری بنی گالہ کی طرف روانہ ہوئی تو تحریک انصاف کے حامی بھی کثیر تعداد میں بنی گالہ پہنچنا شروع ہو گئے۔ بعض چینلز نے براہ راست نشریات دکھانا شروع کر دیں۔ عوامی رد عمل کو دیکھ کر پولیس واپس چلی گئی۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ عمران خان کے ورانٹ گرفتاری کمپنی کی مشہوری کیلئے جاری کئے گئے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے وارننگ دی ہے کہ عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو دما دم مست قلندر ہو گا۔ دوسری طرف وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ قانون ہر صورت حرکت میں آئے گا جبکہ ملک کی ابتر سیاسی صورتحال افہام و تفہیم کا تقاضہ کرتی ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مفاہمت کی پیشکش کی۔ یہ پیشکش قبول ہونی چاہئے کہ ملک میں مہنگائی اور غربت نے غریب کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ ملک و قوم کی بہتری کیلئے سوچنا چاہئے۔ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ماڈل ٹائون کیس متاثرین کو ہر صورت انصاف مہیا کیا جائے گا۔ انصاف ضرور ملنا چاہئے چودھری پرویز الٰہی سے پہلے بھی پنجاب میں عمران خان کی حکومت تھی مگر ساڑھے تین سال ماڈل ٹائون کیس کیلئے خاموشی کیوں اختیار کی گئی؟ سانحہ ماڈل ٹائون 17 جون 2014ء کو لاہور میں پیش آیا۔ آٹھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ دو خواتین سمیت 14 افراد پولیس فائرنگ سے شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اُن دنوں میاں نوازشریف وزیر اعظم اور میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش کے سامنے پیش آنے والے اس سانحہ کے خلاف ملک بھر میں احتجاج ہوا مگر مقتولین کی روحیں آج بھی انصاف کیلئے بے قرار ہیں۔ دوسری طرف اسلام آباد میں کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔ ہزاروں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ کسانوں کے جائز مطالبات تسلیم ہونے چاہئیں۔ وزیر داخلہ نے دھمکی دی ہے کہ احتجاج کرنے والے کسانوں نے ریڈ زون کراس کیا تو سختی سے نمٹیں گے۔ وزیر داخلہ کو دھمکیاں دینے کی بجائے افہام وتفہیم سے کام لینا چاہئے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو دو ہفتوں سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کی امداد کے حصول کیلئے ملک سے باہر ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیلاب متاثرین آج بھی کھلے آسمان کی چھت کے نیچے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ بحالی کیلئے حکومتی اقدامات ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ وفاقی حکومت نے ہمدردی کے بیانات کے سوا کچھ نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے مہنگائی کے مارے غریبوں کیلئے دو سو ارب کے احساس راشن رعایتی پروگرام کی منظوری دی ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ یہ رقم کورونا لاک ڈائون کی طرح براہ راست غریبوں کو ان کے اکائونٹ میں بھیجی جائے ورنہ یہ کثیر سرمایہ بھی اسی طرح ضائع ہو جائے گا جس طرح سابق وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے دو سو ارب روپے آٹا سبسڈی کیلئے مختص کئے مگر کسی غریب کو سستے داموں آٹا نہ مل سکا۔ ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح وسیب کا درجہ حرارت بھی گرم ہے اور پی ڈی ایم کی جماعتوں اور تحریک انصاف کے درمیان تنائو جاری ہے۔ ضمنی الیکشن کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ حلقہ این اے 157 ملتان کا ضمنی الیکشن نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی اپنے بیٹے اور مخدوم شاہ محمود قریشی اپنی بیٹی کی کامیابی کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اس الیکشن کو آصف زرداری اور عمران خان کا مقابلہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ مقامی طور پر ایک پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایک سرائیکی جماعت ایس ڈی پی کے دفتر جا کر اپنی بیٹی کی حمایت کا اعلان کرایا جبکہ رد عمل کے طور پر سید یوسف رضا گیلانی نے دوسری سرائیکی جماعت پی ایس پی کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مقامی قیادت کو ملتان کے ضمنی الیکشن کے موقع پر ووٹوں کیلئے سرائیکی جماعتیں یاد آگئی ہیں۔پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ سے اتحاد کرکے سرائیکی صوبے سے انحراف کیا ہے۔ اس وقت تمام اقتدار پرست جماعتیں برسراقتدار ہیں مگر کوئی صوبے کا نام لینے کو تیار نہیں۔ اگر جماعتوں کے درمیان اتحاد ہوتا ہے تو مذاکرات ہوتے ہیں، اصول طے ہوتے ہیں اور مرکزی قیادت شرائط کی ذمہ داری لیتی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی اپنی اپنی جماعتوں کے سربراہ نہیں وہ تو سربراہ کی اجازت کے بغیر سانس نہیں لے سکتے تو کس طرح وسیب کا مقدمہ لڑیں گے؟۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد اقتدار پرست جماعتوں نے صوبے کا مسئلہ پس پشت ڈال دیا ہے۔ الیکشن ہوتے رہتے ہیں۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی کو محض الیکشن کیلئے ہمدردیاں حاصل کرنے کی بجائے وسیب کے حقوق کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان سے جواب طلبی کی بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملانا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ پی ڈی ایم جب بنی تو وسیب کی کسی جماعت کو اس کا حصہ نہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے بھی جتنے سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنے وسیب کی جماعتوں کو نہیں پوچھا گیا۔ اس لیے ان سے اتحاد اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ایک دوسرے کو صوبے میں رکاوٹ کا الزام دیتی رہیں۔ اب تو سب ایک ہیں پھر صوبے کا مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا؟ عمران خان نے وسیب سے تحریری وعدہ کیا ہوا ہے۔ اب وہ اسمبلی میں صوبے کا بل پیش کرنے کیلئے بھی تیار نہیں۔ کیا بل پیش کرنے کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے؟ جب ہم واضح کہہ رہے ہیں کہ بل پیش کرو جو جماعت مخالفت کرے گی وہ سامنے آجائے گی مگر نہیں، نیتوں کا فتور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھایا اور ملکی مسائل کے حل کیلئے شعبدہ بازیوں کی بجائے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر