نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ کی حَسین راتیں۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ کی حَسین راتیں۔۔
کل میں ایک میسیج پڑھ رہا تھا جس میں ڈیرہ کے شھریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ عید کے دنوں دریا کے کنارے نہ آئیں کیونکہ باہر سے آے لوگوں نے یلغار کی ہوئ ہے اور بے انتہا رش ہے ۔پھر دریا کا کنارہ اور سڑکیں بھی سکڑ کر آدھی رہ گئ ہیں۔چنگچی۔موٹر سائیکل اور تیز رفتاری نے برا حال کیا ہوا ہے کئ حادثات بھی پیش آے ۔پھر میں آنکھیں بند کر کے گاوں کو دیکھنے لگا اور ایک فلم چلنے لگی ۔
گاوں کی کالی راتوں میں جب چودھویں رات کا چاند نکلتا تو پورا ماحول جگمگانے لگتا۔ چودھویں رات کے چاند کی لہریں عجیب اثر پیدا کرتی ہیں۔سمندر میں مدو جزر آ جاتا ھے ۔چکور ساری رات چاند کو تکتا رہتا ھے۔ ہماری جوان امنگیں چودھویں رات کو عجیب انگڑائی لیتیں جس طرح۔۔ ؎جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا۔ صحن گل چھوڑ گیا دل میرا پاگل نکلا۔ والی کیفیت پیدا ہو جاتی۔ چودھویں رات کا چاند مٹی سے تعمیر کی گئی ہماری بستیوں اور کچے راستوں کو دودھیا رنگ کی چاندنی میں نہلا دیتا۔کھیت پر فصلیں چمکنے لگتیں۔پھل اور سبزیاں اس چاندنی میں پکنے اور بڑھنے لگتے۔شاعروں کے اندر نغمے جنم لینے لگتے ؎اے چاند ان سے جا کر میرا سلام کہنا۔۔۔یا نورجہان کا گیت چاندنی راتیں خوشبو بکھیرنے لگتا۔یا سات لاکھ فلم میںنیلو پر فلمایا گیت یاد آنے لگتا ۔۔۔ جب جب ندیا شور کرے میرا دل ملنے کو زور کرے ۔ ہم گاوں کے جوان لڑکے چودھویں رات کا نظارا کرنے دریاے سندھ کے کنارے جا بیٹھتے جو ہمارے گھروں سے پانچ منٹ پیدل فاصلے پر تھا۔ دریا اتنا قریب تھا کہ رات کو دریا کی لہروں کا شور ہمارے گھروں میں سنائی دیتا۔ کونجوں کی خوبصورت آوازیں دل لبھاتیں۔ مرغابیاں۔ککوے۔رشین کاک۔جل ککڑ اور ہنس خوراک چرتے تیرتے اور اڑتے پھرتے بگلوں کی جھاریں رات کو ٹھکانے بدلتیں۔ بٹیروں کے لاوے کی آوازیں ساری رات جاری رہتیں۔سب سے حسین اور خوبصورت منظر دریا کا کنارہ تھا۔ جب چودھویں کا چاند ابھرنا شروع ہوتا تو اس کا عکس دریا کی لہروں پر پڑتا اور تھر تھراتی لہریں اس عکس کو آتش بازی کی پھلجھڑی کی طرح دریا کے سینے پر دودھ کی مانند پھیلا دیتیں اور ہم اس
SHIMMERING LIGHT
سے ایسے محظوظ ہوتے جیسے میٹھا تازہ دودھ ٹھنڈی لہروں کی شکل میں ہماری آنکھوں سے گزر کر دل کی پیاس بجھا رہا ہو۔ یہ ڈیرہ کی وہ حسین اور گلاب بھری یادگار راتیں تھیں جب ساری رات گھر آنے کو دل نہیں کرتا تھا اور ہم چاندنی کی لہروں کے ساتھ خنک ہوا میں ساری ساری رات دریا کنارے گزار دیتے۔ یہ وہ وقت تھا جب دریا کے کنارے کنول کے بڑے بڑے سفید۔پیلے۔ہلکے گلابی پھول چاندنی کی موجوں میں ہمارے سامنے رقص کرتے۔ یاد رھے اس کنول کے پودے کو مقامی زبان میں۔۔ پبن ۔۔کہتے ہیں اور اس کے تازہ موتیوں جیسے بیج کچے کھائے جاتے ہیں جو بڑے لذیذ ہوتے ہیں۔ میں اب بھی یہ بیج بازار سے منگوا کے کھاتا ہوں۔ کنول کی موٹی جڑ والی شاخ دو تین میٹر ہوتی ھے جس کو ۔۔بھے ۔۔ کی سبزی پکا کر کھایا جاتا ھے ۔لیکن کنول کے پھول کی کیا بات ھے 20سینٹی میٹر کا پھول بہت ہی خوبصورت ہوتا ھے۔اس کے پتوں سے اس زمانے میں قصائی گوشت اور قیمہ لپیٹ کے دیتے تھے۔ مجھے کنول کے پھول دیکھنے کا شوق لال سوہارہ جھیل بہالپور اور 2300 سال پرانے کھنڈر شھر پشکلاوتی دیکھنے چارسدہ کے گاوں مرچاکی ڈھیری لے گیا۔پشکلاوتی پشاور کا قدیم نام ھے جس کا مطلب بھی ۔۔کنول کے پھولوں کا شھر ھے۔۔دریا کی چاندنی میں ہماری راتیں بانسری پر نغمے گاتے۔گھڑے پر چھلے سے تال بجاتے اور دریس مارتے گزرتی۔میں خود بانسری بجانا جانتا تھا اور جب۔۔چن کتھاں گزاری وی رات وے۔۔۔۔یا ۔۔آے موسم رنگیلے سہانے۔جیا نہیں مانے ۔تو چھٹی لے کے آ جا بالما ۔۔ کا نغمہ بانسری کی لے سے نکلتا تو گھڑے کی تھاپ تیز ہو جاتی اور ڈانس کی لڑکوں کی ٹکٖڑی وجد میں آ کر جھومر شروع کر دیتی۔دلچسپ بات یہ ھے کہ گہرے دریا میں ڈالفن کنارے پر جمع ہو جاتیں اور اونچے اونچے جمپ لگا کر ہمارے سامنے ڈانس کرتی تھیں۔ مجھے یاد ھے جب میں دریا میں تیرتا تو ساتھ ساتھ ڈالفن بھی تیرتی کیونکہ وہ انسان سے محبت کرتی تھیں۔مقامی لوگ اسے بُلھنڑ کہتے تھے۔افسوس تو یہ ھے کہ ہم نے دریا کو آلودہ اور بے رحم شکار کر کے ڈالفن کو ختم کر دیا۔اب سنا ھے سکھر بیراج پر کوئی Pair نظر آتا ھے اور ہم نے ظلم کر کے ڈالفن کو Extnction یعنی ناپید کی حد تک پہنچا دیا۔
S.S JHELUM SHIP
اکثر سفید رنگ میں پینٹ کیا جاتا اور چاندنی راتوں میں کھڑا ۔تاج محل۔ کا منظر پیش کرتا۔ ہماری پارٹی میں ایک لڑکا اچھا سنگر تھا رات کے پچھلے پہر تک گیت سناتا۔ٹھنڈے ٹھار گھڑے میں گڑ کی شکر اور بادام کوٹ کر ملائے ہوتے جو ہماری سافٹ ڈرنک تھی۔کچھ منچلے چاے پکا کر مِٹھڑیاں کے ساتھ کھاتے۔مٹھڑیاں در اصل آٹے۔گھی۔گڑ۔جیرا ملا کر بسکٹ کی شکل میں گھی میں تلی ہوتی ہیں۔۔اور پھر صبح کاذب چاچا یارو کی بانگ سنائی دیتی اس وقت لاوڈسپیکر نہیں تھے۔ چاچا یارو بستی دھپانوالی کی مسجد کا موذن تھا جس کی اذان کی آواز دور دور تک سنائی دیتی اس وقت مِلکی وے گیلیکسی ستارے جسے کسان ۔۔ترنگڑ۔۔کہتے ایک خاص مقام پر آسمان پر پہنچ جاتے اس کے ساتھ مرغوں کی بانگوں کا شور مچ جاتا اور ہم واپس گھر لوٹ آتے۔۔۔ہمارے گاوں میں غربت تھی مگر خوشی تھی۔محبت تھی۔امن تھا۔ اتفاق تھا ۔فرقہ واریت کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہ نفرتیں۔یہ بدامنی۔یہ انتشار۔یہ خوف و ہراس۔یہ قتل و غارت۔یہ آلودگی۔یہ دھواں ۔یہ شور ۔ یہ دھشت گردی۔ یہ سب کہاں سے آیا۔آج ہمارے ہر گھر میں لڑکیاں اور لڑکے اعلی تعلیم یافتہ ہیں ۔آج ہمارے مسجدوں کے امام پہلے سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ آج اتفاق۔محبت۔ہمدردی۔یکجہتی۔ کیوں نہیں ؟ کیا ہمارے شھر میں آسیبوں ۔جنوں اور دیووں کا راج ھے؟

About The Author