نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دو کہانیاں ۔۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو کہانیاں ۔۔۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو خود اپنے بھائیوں نے ایک اندھے کنویں میں ڈالا اور گھر آ کر باپ کے سامنے جھوٹ بولا۔
جس اندھے کنوئیں میں حضرت یوسف علیہ السّلام کوڈالا گیا تھا اس کے قریب سے اِسمعیلی عربوں کا مصر جانے والا قافلہ گزرا۔ قافلے والوں نے پانی کے لئے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السّلام اسے پکڑ کر کنوئیں سے باہر نکل آئے۔ قافلہ والے آپ کو مصر ساتھ لے گئے اور مصر کے بازار میں نیلام کر دیا۔ مصری فوج کے سپہ سالار ’’فوطیفار‘‘ نے آپ کو خریدا۔ فوطیفار فرعون کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور لوگ اسے ’’عزیزِ مصر‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ آپ انکے گھر پلے بڑھے اور پھر ایک دن بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتا کر سب کو حیران کر دیا۔ جس میں قحط کی پیشگوئی بھی تھی۔بادشاہ نے آپؐ کو اپنا نائیب بنا لیا اور سلطنت کے امور حوالے کر دیے۔حضرت یوسف علیہ السّلام نے سلطنتِ مصر کی باگ ڈور سنبھال لی اور چَودہ سال کی غذائی پلاننگ کر دی۔ زرعی زمینوں کے قریب غلہ ذخیرہ کرنے کے لئے گودام تیار کرائے گئے۔ یہ گودام اہرام مصر کے طرز پر بنائے گئے تھے۔ جن کے اندر رکھی ہوئی اشیاء پر موسمی اثرات اثر انداز نہیں ہوتے۔ سات سال بارشیں خوب ہوئیں اور بہترین فصل حاصل ہوئی۔ پھر کھیتیاں سوکھنے لگیں۔ جوہڑوں اور تالابوں میں جمع شدہ پانی ختم ہو گیا۔ لوگوں کے پاس جمع شدہ غذائی اجناس کی قلت ہو گئی۔ مصر کی ساری زمین سوکھ گئی اور قرب و جوار میں شدید قحط پڑا۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السّلام کے حسنِ انتظام کی بدولت غلہ وافر مقدار میں موجود رہا۔ اب خود آپ کے وہ بھائی جنہوں نے کنویں میں ڈالا تھا غلہ کی بھیک مانگنے مصر پہنچے اور آپکی منت سماجت کرنے لگے۔ اللہ کی شان کہ وقت کیسے بدل گیا۔
دوسری کہانی۔۔۔۔
۔برطانیہ کے چند دوست ،شاعر اور ادیب ایک بار ایک جزیرے میں گئے تاکہ سیر و تفریح کر سکیں۔ ان کا ارادہ وہاں رکنے کا نہ تھا۔ مگر جزیرے پر پہنچنے کے بعد وہاں زور دار طوفان ِبادو باراں نے انہیں گھیر لیا۔ طوفان کوئی ہفتے بھر تک رہا۔ دو تین دن گزرنے کے بعد گروپ جب بوریت کا شکار ہو گیا تو یہ طے ہوا کے سب لوگ کچھ نہ کچھ تخلیقی کام شروع کریں۔ اس گروپ میں مشہور شاعر شیلے کی بیوی میری شیلے بھی تھی۔ وہ لکھنے لکھانے والی عورت تو نہ تھی مگر اس جگہ مجبورًا اس نے کاغذ قلم سنبھالا۔ اور آپ یہ پڑھ کر حیران ہو جائیں گے کہ اس نے جو ناول لکھا اسے دنیا کا پہلا سائنس فکشن ناول قرار دیا جاتا ہے جو کہ میری شیلے کو دوام بخش گیا۔ یہ ناول "فرنکنسٹائن’’ تھا۔ جس میں ایک سائنسدان ڈاکٹر ایک انسان تخلیق کرتا ہے۔ جو حقیقتاً ایک عفریت ہوتا ہے۔ میری شیلے کو اس ناول نے بھت شھرت دی اور دولت مند بنا دیا۔۔

About The Author