گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غریبوں کا جھولا
پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے اگر ہمیں ایماندار قیادت نصیب ہوتی توآج 75 سال گزرنے کے بعد ہم یورپین ملکوں کی طرح ترقی یافتہ ہوتے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اپنوں نے نہ صرف ہمیں لوٹا بلکہ دشمنوں کے آگے بھی پھینک دیا جو کتوں کی طرح بھبھوڑ بھبھوڑ کر اس ملک کے وسائل لوٹ رہے ہیں۔ خیر بات دور چلی گئ ہماری آدھی آبادی آج بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے اور فاقوں پر مجبور ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کا جہنم سے بڑا پیٹ بھرتا نہیں۔ آپ کسی دفتر چلے جائیں آپ کا کام سفارش یا رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ پورے ملک میں تعمیراتی منصوبے سڑکوں گلیوں پلوں کے بنانے میں 75 فیصد پیسہ خوردبرد ہوتا ہے اور غیر معیاری سڑکیں گلیاں ایک بارش میں گھل کر بہ جاتی ہیں۔ ہمارے غریب لوگ اپنے معصوم بچوں کے لیے جھولا بھی نہیں خرید سکتے اور چارپائ کے ساتھ ایک کپڑا باندھ کے جھولا بناتے ہیں۔ بھٹہ پر اینٹیں بنانے والی یہ مزدور ماں اپنے معصوم بچے کو اس جھولے میں سلا رہی ہے۔ہمارے سرائیکی لوگ تو اس جھولے کو گھنگھوٹی کہتے ہیں آپ اس جھولے کا اصل نام بتا دیں۔

اے وی پڑھو
اُچ ڈھاندی ڈیکھ تے چھوراں وی وٹے مارے ہن۔۔۔|شہزاد عرفان
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو