ارشادرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاک سر زمین اس وقت اپنی زندگی کے نازک ترین اور سنگین دور سے گذر رہی ہے حادثے ایسے جبڑے کھولے کھڑے ہیں کہ ان کی کچلیاں تک دکھائی دے رہی ہیں سیلاب جیسی آفت کے بعد جو حالات پیش آچُکے ہیں کبھی پیش نہ آۓ تھے ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر آخری سانسیں لے رہی ہے جو آئی ایم ایف کے ملٹی وٹامن انجکشنز کی طاقت سے بھی نزع کی کیفیت سے باہر نہیں نکل پا رہی مہنگائی بےروزگاری نے ہمیں شکست فاش دے رکھی ہے ستر سالوں سے ملک نیم حکیموں کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے ۔ ہوس پیشہ اور فرعون اندیشہ آمروں اور امیروں نے اپنی بد مستی میں ملک کا مستقبل داؤ پر لگا رکھا ہے کچھ عرصہ پہلے ہی ہم نے آدھا ملک گنوا کر شکست کھائی ایسی شکست کھائی کہ جو دشمنوں کو بھی نصیب نہ ہو اس شکست کی وجہ سے ہمارے سر جھگ گئے جھکا دیے گئے جھکوا دیے گئے ہمارے پرچم گر گئے گرا دیے گئے گروا دیے گئے
ہمیں ہمارے ہی رہنماؤں نے گمراہ اور حکمرانوں نے رو سیاہ اور دولت مندوں نے تباہ کیا
ملک کی جمہور کے ساتھ میلاد پاکستان کے وقت سے ٹھٹول کیا جا رہا ہے ٹھٹول ایسا کہ بالآخر یہ قوم ایک ٹھٹول ہی بن کے رہ گئی یہاں جمہور کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عجیب و غریب حیلوں بہانوں سے ملک کو خاص طبقوں اور طائفوں کی جاگیر بنا دیا گیا ہے
ماضی میں کیا ہوا ؟ کیا نہیں ہوا سب جان کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں حالات آج خراب نہیں ہوۓ انہیں کئی دہائیوں سے بڑی دل جمعی اور تندہی سے خراب کیا گیا ہے ان حالات کا سلسلہ عقب میں دور تلک پہنچتا ہے
وطن عزیز کو آزاد ہوۓ ہی کتنے برس بیتے ہیں کہ بد باطنوں کے ہاتھوں اس قوم کے برے دن آگۓ ہیں
غیروں کے وظیفہ خوار لقوں اور خطاب یافتہ لقندروں نے سفلگی ، سفلہ پروری اور سیاست کے چکلے میں اپنا کاروبار شروع کر رکھا ہے ، چوروں سینہ زوروں ، دھاندل بازوں ، کی وہ جھار کی اڈار اپنے اڈوں اور کمین گاہوں سے باہر جھپٹ پڑی جو بیرونی لیٹیروں کا بار دانہ ڈھویا کرتی تھی ان کے ساتھ ساتھ خباثتوں اور خیانتوں کے وہ خنگرے خطیت اور خود کو برہمن اور اعلی وارفع کہلانے والے مجاور اور خانوادے بھی ڈکار تے اور ڈگ بھرتے ہوۓ آن موجود ہوۓ
ان سب نے آپس میں اتفاق کر کے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا اور جسم کو کوڑھ زدہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی جمہور اور جمہوریت گندی اور گھناؤنی بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہے بھوک اور افلاس اس کی پٹی سے لگا بیٹھا اس کا لہو چوس رہا ہے محرومی اور مایوسی اس پر آکاس بیل کی ماند حملہ آور ہے اور اس کے پھوڑوں سے رستی پیپ چوس رہی ہے بااثر اور مقتدر طاقتیں تیماداروں کو قریب بھی نہیں بھٹکنے دے رہی ، مستند حکیموں کو یا تو صولی پر لٹکا دیا جاتا ہے یا وہ اپنی کرب ناکی کیفیت میں سانس روکے ہوۓ دور کھڑے اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہیں ، اطراف وجہات میں سمیت سرائیت کر چکی ہے بیماری کی سڑاند اور بدبو دور دور تک پھیل چکی ہے اب تو احتیاط سے بھی کچھ فائدہ اور آفاقہ نہیں ہونے والا اب تو حالت یہ ہے کہ مزاج پرسی سے بھی اقوام گھبرا رہی ہیں ۔ اب بیماری کی سمیت سڑاند اور بدبو سے فضا کو عارضہ لاحق ہوا چاہتا ہے اور ہوا علیل ہوگئ ہے ایسی صورت میں کیسے خیریت اور مزاج پرسی کی جاۓ
میں ایک بار پھر دہراۓ دیتا ہوں کہ یہ بیماریاں آج سے نہیں ، نسلوں سے پالی جا رہی ہیں یہ پھوڑے زمانوں سے پک رہے ہیں
جس جس نے اس کیفیت کا رونا رویا انہیں ہمیشہ عافیت دشمن کہا گیا اور جمہور کے دل و دماغ میں سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا ، نسابی کتب سے لیکر ممبر و مسجد کے ذریعے یہ باور کرایا گیا کہ یہ تو مقدر و مقسوم کی بات ہے اور بھلا مقدرومقسوم سے کیونکر اور کیسی سرتابی
مزید یہ کہ اس بات پر بھی یقین محکم کرایا جا رہا ہے کہ صیحت کیلۓ ضروری ہے کہ اس کے پہلو میں بیماری بھی پائی جاۓ اور پھر کچھ ایسے جالینوس بھی ملک کی ولادت سے لیکر آج تک جونکوں کی طرح چمٹے ہوۓ ہیں جنھیں اپنے نسخے بہت زیادہ عزیز ہیں وہ صرف اور صرف انہیں کو آزمانا چاہتے ہیں خواہ اب بیماری کی نوعیت ان کے بس سے باہر کیو نہ ہو ! میں سمجھتا ہوں کہ بے لاگ تشخیص بے باک تجویز اور بےلوث علاج کے بغیر اب بیماری سے عافیت کی امید رکھنا ہوس ناکی ہے اور یہ بھی بعید نہیں کہ یہ ہوس ناکی ملک وقوم کو اس حال تک پہنچا دے کہ دنیا عیادت کرنے سے بھی منہ پھیر لے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاۓ کہ عیادت کی بجاۓ تعزیت فرض ہو جاۓ
مگر صاحب اقتدار و بست وکشاد اصل علاج کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال رہے ہیں پس وہ اپنے دہائیوں پرانے ٹوٹکوں نسخوں معجونوں اور مربوں کو بار بار آزمانے اور استعمال کروانے پر بضد ہیں جن سے آفاقے کی بجاۓ مرض اور بڑھ کر جان لیوا موضی مرض میں بدل رہا ہے
کالم کی دم ! ا ب کیفیت حال کچھ یوں ہے کہ اگر صیح اور درست علاج اور معالجوں کا بندوبست نہ کیا گیا اور جالینوسوں کے روائتی ٹوٹکوں اور حربوں کا حربہ جاری رہا تو پھر ایوانوں سے لیکر حکمرانوں تک اور جالینوسوں سے لیکر ان کی چھتر چھایا میں ٹمٹماتے جعلی فانوسوں تک سب ہلاکت میں پڑیں گے اور یہ ستر سالہ دامن دراز بیماری تمام خس و خاشاک اپنے ساتھ سیلاب کی طرح بہا لے جاۓ گی ۔اور پھر ہماری آنے والی نسلیں ہمیں مطعون کیے بغیر نہیں رہیں گی ۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی