گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ آپ وسیسی ساڈیاں جھوکاں کوں ۔۔
ایک بہت بڑا بحری جہاز ڈوب جاتا ہے، اس میں سے صرف ایک ہی آدمی بچتا ہے، وہ تہر کرکنارے پر پہنچ جاتا ہے، کافی دن بیچارہ بھوکا پیاسا ساحل پر پڑا رہتا ہے۔ وہ ایک عجیب سے جزیرے پر اکیلا رہ جاتا ہے، آخر کار اپنا ایک ہٹ (جھونپڑی) تیار کرتا ہے، جھاڑیاں اور تنکے اکٹھے کرتا ہے اور اپنے لیے ایک چھت بنا لیتا ہے۔
کافی دن اسی طرح اس جزیرے پر صبر کرتا رہتا ہے اور روز تھوڑے بہت پھل کھا کر گزارہ چلا رہا ہوتا ہے کہ ایک دن جب وہ جنگل سے پھل لا رہا ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے ہٹ (جھونپڑی) کو آگ لگی ہوئی ہوتی ہے، وہ بہت دل برداشتہ ہوتا ہے اور سوچتا ہے کہ اے خدا میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ وہ بہت روتا ہے اور روتے روتے سو جاتا ہے، جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ ساحل پر ایک بڑا بحری جہاز کھڑا ہوا ہوتا ہے، وہ بہت خوش ہوتا ہے اور اس کی طرف بھاگتا ہے۔ بحری جہاز میں سوار ہو کر وہ ان سے پوچھتا ہے کہ انھوں نے ادھر کا رخ کیسے کر لیا، تو وہ اس کو بتاتے ہیں کہ انھوں نے جزیرے سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ سمجھ گئے کہ کسی کو ان کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس آدمی نے دل میں اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس کا گھر جل گیا مگر اس میں اس ہی کی اپنی بھلائی پوشیدہ تھی۔ جو کچھ بھی آپ کے ساتھ ہوتا ہے، اس پر پریشان مت ہوں، جب برا بھی ہو، تو بھی اس میں کچھ بھلائی کا پہلو ضرور پوشیدہ ہوگا۔ بس اپنا یقین پختہ رکھیں، یہ بہت ضروری ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر