ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21 ستمبر تحریک آزادی ہندکے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل کا یوم شہادت ہے۔ یہ دن سرکاری طور پر منایا جانا چاہئے اور آزادی کے ہیروز کی قربانیوں کو اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے۔ جھوک سرائیکی کی طرف سے ہر سال یوم شہادت کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ آج کی تقریب میں بھی اہل دانش اظہار خیال کریں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے موقع پر سرائیکی شعراء نے جنگی نغمے لکھے جسے ’’واراں‘‘ کا نام دیا گیا ۔ پروفیسر شوکت مغل کی کتاب ’’ملتان دیاں واراں‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اس وقت گوگیرہ کے شاعروں نے تحریک آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل شہید کو سرائیکی زبان میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انگریزوں کو مزاحمت کا سامنا وسیب یہ پھر سندھ میںکرنا پڑا ۔ وسیب میں مولانا عبیداللہ سندھی اور رائے احمد خان کھرل ہیرو کے طور پر سامنے آتے ہیںجبکہ سندھ میں ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈٖیسوں‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے ہوشو شیدی کا نام سرفہرست ہے ۔ تحریک آزادی ہند کے عظیم ہیرو رائے احمد خان کھرل 1803ء میں گوگیرہ میں پیدا ہوئے ۔ اس قبیلہ کو کھرل شاخ گوگیرہ نے آباد کیا ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے موقع پر انگریزوں نے دہلی اور دیگر علاقوں میں ِحریت پسندوں کو بڑی تعداد میں قتل کر دیا تو اس کا اثر وسیب میں بھی ہوا ۔ رائے احمد خان کھرل کا تعلق قصبہ جھامرہ سے تھا ، انگریز دشمنی ان کے خون میں شامل تھی ۔اسسٹنٹ کمشنر برکلے نے کھرلوں ، فتیانوں اور دیگراقوام کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کرائیں اس پر رائے احمد خان کھرل میں سخت اشتعال پیدا ہوا اس نے تمام برادریوں کے سرداروں کو اکٹھا کیا ۔ ایک سپاہ تیار کی اور گھوڑوں پر سوار ہو کر گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوئے ،اس موقع پر انگریزوں سے شدید جنگ ہوئی اس جنگ میں چار سو کے قریب انگریزی فوجی مارے گئے ۔رائے احمد خان کھرل نے قیدی چھوڑا لیے۔ انگریز گورنمنٹ کی بنیادیں ہل گئیں ۔ ہندوستان کے انگریز ایوانوں میں تھرتھلی مچ گئی اور اس تشویش نے برطانیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ انگریزوں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے سب سے پہلے گوگیرہ کی ضلعی حیثیت ختم کی اور احمد خان کھرل کا مقابلہ کرنے کیلئے انگریزوں نے مخبر ،جاسوس اور غدار تلاش کئے ۔ چونکہ انگریزوں کی ہمت جواب دے گئی تھی وہ ان بہادروں کا دوبدو مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ اسی بنا ء پر انگریز کے جاسوسوں ، مخبروں اورحمایتوں نے اپنا کام دکھایا اور سب سے پہلے احمد خان کھرل کے خاندان کے لوگ گرفتار کرائے گئے اور احمد خان کھرل کو پیغام بھجوایا گیا کہ ہتھیار پھینک دو ورنہ تمہارے تمام خاندان کو گولیوں سے اُڑا دیا جائے گا اور جھامرہ کو آگ لگا دی جائے گی۔احمد خان کھرل نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا ۔ انگریزوں نے مقابلے کے لئے لاہور سے اسلحہ بارود اور کرنل پلٹین کی قیادت میں پوری رجمنٹ کو گوگیرہ منگوا لیا ۔ لاہور سے سپاہ اور اسلحہ بارود کے آتے ہی گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ جھامرہ اور آس پاس کے علاقوں پر آتشیں اسلحے کا استعمال کیا گیا جس سے ہر طرف آگ کے شعلے بڑھک اُٹھے۔ 21ستمبر1857ء کو احمد خان کھرل نے شہادت پائی۔ احمد خان کھرل کی شہادت کے بعد انگریز فوج کو تخت لاہور سے جشن منانے کا حکم جاری ہوا ۔ انگریز افسر برکلے فتح کا جشن منانے کیلئے جنگل عبور کرکے گوگیرہ چھائونی کی طرف جا رہا تھا کہ احمد خان کھرل کے ساتھی مراد فتیانہ نے اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ حملہ کر دیا اور کوڑے شاہ کے قریب راوی کے بیٹ میں برکلے اور ان کے سپاہیوںکو قتل کر دیا ۔ اس سے انگریزوں کی نیندیں حرام ہو گئیں اور انگریزوں نے انتقامی کارروائیوں کیلئے پنجاب سپاہ کے ساتھ ساتھ وسیب کے زمینداروں ، جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی خدمات حاصل کیںاور رائے احمد خان کھرل کے حامی چن چن کر انگریزو ںکے حوالے کئے گئے اور اس کے بدلے میں انعام و اکرام اور جاگیریں حاصل کی جاتی رہیں۔ برکلے کو بھی گوگیرہ میں دفن کیا گیا مگر آج اس کی قبر کا نشان نہیں ہے جبکہ رائے احمد خان کھرل کے مقبرہ پر سینکڑوں لوگ روز حاضری دیتے ہیں ۔رائے احمد خان کھرل اور مراد فتیانہ کا جہاں ذکر ہوتا ہے وہاں احمد خان کھرل سے غداری کرنے والے سرفراز کھرل اور انگریزوں کی مدد کرنے والے جاگیرداروں اور گدی نشینوں کا بھی ذکر ہوتاہے اس بات کا بھی تذکرہ ہوتا ہے کہ آزادی کیلئے جو شہید ہوتے ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کہ قاتل برکلے کی قبر کا نشان تو گوگیرہ میں باقی نہیں رہا مگر گوگیرہ کو آزادی کی جو سزا ملی وہ اب بھی برقرار ہے ۔ انگریزوں نے گوگیرہ کو ضلع سے یونین کونسل تک پہنچایا ۔ آزادی کے بعد بھی گو گیرہ یونین کونسل ہی ہے ۔ یہ صرف گوگیرہ کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ ایک مثال میرے اپنے شہر خان پور کی ہے کہ خان پور ضلع تھا اور خان پور کو ریاست بہاول پور کا برمنگھم کہا جاتا تھا ۔ خان پور میں مولانا عبیداللہ سندھی نے ریشمی رومال تحریک شروع کی تو خان پور کو تحصیل اور رحیم یار خان کو ضلع بنا دیا گیا ۔ انگریز سے مزاحمت کی سزا ملتان کو بھی کہ انگریزوں نے ملتان کی صوبائی حیثیت ختم کی ۔گورے انگریز کا اقتدار ختم ہو گیا مگر ان کے جانشین ’’کالے انگریزوں ‘‘نے حریت پسندوں کی سزا معاف نہیں کی ،کیوں؟یہ ایک سوال ہے۔آزادی کی تاریخ نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت ہے ۔ رائے احمد خان کھرل کی کہانی بھی ایسے ہے ۔ انگریز دور میں اسے غدار کہا گیا ، رائے احمد خان اور اس کی سپاہ کو جانگلی قرار دیا گیا۔ گوگیرہ جہاں آزادی کی جنگ لڑی گئی اس وقت بھی ملتان کے ساتھ تھا اور جب گوگیرہ کو سزا کے طور پر ضلع سے یونین کونسل بنایا گیا اور اسے نئے ضلع منٹگمری (ساہیوال) کا حصہ بنایا گیا تو ساہیوال ملتان ڈویژن کا ہی حصہ رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر