گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے عجیب قصے ۔۔ وڈھ چننا
ڈیرہ کے تاریخی شھر بے مثال کے عجیب قصے ہیں ۔ڈیرہ میں آجکل کے موسم میں جب گندم کی فصل
کی کٹائ ہو جاتی تو ہم بچہ لوگ گندم کے گرے پڑے تیلے ایک ایک کر کے اٹھا کے ایک ہاتھ میں اس طرح جمع کرتے جیسے مالی پھولوں کا گلدستہ بناتا ہے ۔پھر ایک تھیلے میں جمع کر کے گھر لے جاتے اور کوٹ پیٹ کر صاف کرتے اور گندم نکال کر گاوں کی دکان پر لے جاتے۔ یہ ایک دو سیر گندم کے ہمیں نقد رقم ملتی جس سے اپنی پسندیدہ شئے خرید کر مزے اڑاتے ۔اس کام کو سرائیکی زبان میں۔۔ وڈھ ۔۔ چننا کہتے ہیں۔
ا ب مشینی دور میں یہ قصے ختم ہو گئے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا ۔۔پاک ٹی ہاٶس
ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ادبی و علمی ادارہ ۔دامان آرٹس کونسل ۔۔ کے نام سےہوا کرتا تھا جو کئ سالوں سے معطل پڑا ہے ۔ اس کا دفتربھی تھا جہاں ادیب شاعر بیٹھتے اور علمی کام کرتے ۔اس ادارے نے کئ بہترین کتابیں بھی شائع کیں مگر اس کو کسی کی نظر کھا گئ اور بند پڑا ہے۔
اس سلسلے میں سردار علی امین خان گنڈہ پور کو ادیبوں نے درخواست کی تو انہوں نے حقنواز شھید پارک میں ایک خوبصورت کیمونٹی ہال تعمیر کرنے کا وعدہ کیا اور اس عمارت کا ڈھانچہ تیار ہے مگر کافی عرصے سے کام رکا ہوا ہے۔ کیمونٹی سنٹر کا قیام علی آمین خان گنڈہ پور کا ڈیرہ کے لوگوں کے لیے ایک شاندار تحفہ ہے ۔ارباب اختیار سے گزارش ہے اس پراجیکٹ کو جلد مکمل کریں تاکہ ڈیرہ کے علمی ادبی سیاسی شخصیات کو مل بیٹھنے کی کوئ ڈھنگ کی جگہ میسر آ سکے ۔
عید کی تیاریاں ۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں گاٶں کی عید بڑی سادہ تھی مگر خوشیوں سے بھرپور تھی۔ پہاڑپور کے علاقہ کیچ سے ہم لوگ کھیڑی جوتی بنواتے جس پر خوبصورت تلہ لگا ہوتا۔یہ کھیڑی گرمیوں کے موسم کا بہترین جوتا تھا۔ہر طرف سے کھلی ہوادار۔ پھر گاٶں کی لڑکیاں ہماری قمیص پر پھول کاڑھ دیتیں۔یہ صرف گلے کے ارد گرد ہار کی شکل میں ہوتے۔ ان دنوں گھر سویاں بنائ جا رہی ہوتیں اور اس میں رنگ برنگی سویاں تھیں۔لڑکیوں کے لیے سب سے اہم ونگاں اور مہندی تھی۔ بس ٹوٹل یہ سامان اور عید کی خوشیاں مکمل۔
ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان کی عید شاپنگ ۔۔۔
ہمارے بچپن کے زمانے جو ہمیں سب سے بڑی اللہ کی طرف سے دولت میسر تھی وہ امن تھا۔ ہمارے گھروں کے دروازے دن رات کھلے رہتے تھے جو اب 24 گھنٹے لاک میں رہتے ہیں۔اس وقت بازار تو تھے مگر مارکیٹیں اور شاپنگ پلازہ نہیں تھے۔ ماہ رمضان کے دنوں اکثر عید کے کپڑے کچھ کنگرانیاں گٹھڑیوں کے شکل میں سر پر اٹھا کے گھر گھر جاتیں اور عورتیں خرید لیتیں۔ کنگرانیاں دراصل گھر گھر کپڑے۔چوڑیاں ۔برتن ۔کھیس ۔چادریں۔بیچنے کا کاروبار کرتی تھیں اور ان کے مرد جنہیں کُنگر بولتے وہ ریچھ یا بندر کا تماشا کر کے روزی کماتے۔بازار کی اشیاء مرد خود خرید لاتے۔
اب مارکیٹوں کی وجہ سے ورائٹی تو بہت آ گئی مگر مہنگائ کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔پھر بازاروں میں رش۔دُھواں ۔پولوشن ۔ٹریفک کے مسائل بڑھ گیے۔
گندم کی فصل پر خیرات ۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جب گندم کی فصل اٹھائ جاتی ہے تو زمیندار /کسان خیرات ضرور کرتا ہے۔ بہت سے واجبات ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بچہ لوگوں کو حصہ ملتا ہے جو وہ بیچ کر دکان سے کوئ چیز لیتے ہیں۔یہ بڑا خوشی کا دن ہوتا ہے ۔اللہ پاک تمام کسانوں اور زمینداروں کی فصل خیر خیریت کے ساتھ گھر لانے میں مدد کرے آمین۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر