نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وساکھی میلہ اور بیساکھی گراٶنڈ ڈیرہ کی کہانی ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر ۔وجاہت علی عمرانی ۔۔گلزار احمد
ہر سال 13 ۔اپریل کو برصغیر کے پنجابی سکھ و ہندو بیساکھی میلہ مناتے ہیں ایک روایت کے مطابق یہ تین سو سال پرانا میلہ ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان شھر میں دلدار آلا کھوہ ہمارے محلہ گاڑیبان کے مغرب متصل تھا۔اس کھوہ کا ایک بڑا کھاڈہ ڈاکٹر فضل الرحمان مرحوم کی بگائی ہاوس میں قائم ہسپتال کی پچھلی جنوبی سائڈ پر تھا۔ ہمارے بچپن کے زمانے اس کھوہ کی زرعی زمین میں فصلیں کاشت ہوتی تھی اور بیساکھی گراونڈ ہم ان زمینوں سے گزر کر جاتے تھے ۔ اصل میں بیساکھی گراونڈ کی زمین بھی دلدار صاحب کی تھی۔ یہ زمین کوئی 1920ء کے لگ بھگ میونسپل کمیٹی ڈیرہ اور ہندٶں نے ملکر آٹھ سو روپے میں دلدار خان سے خریدی تاکہ بیساکھی کا میلہ اور تہوار منعقد ہو سکے۔ حکومت نے ہندو چودھریوں سے یہ لکھوا لیا تھا کہ بوقت ضرورت حکومت اس گراونڈ کو اپنے کسی استعمال میں لا سکتی ہے۔ ہندو اور سکھ اس میں اپنے تہوار منانے لگے ۔پاکستان بننے کے بعدہندو اور سکھ تو چلے گیے مگر اس گراوںڈ میں ملکی سطح کے فٹبال میچ اور کئ فنکشن ہوتے رہے ہیں۔بہر حال سو سال پرانے اس گراونڈ کا نام اب بھی بیساکھی گراونڈ ہے ۔
اتنے تک میں نے لکھا تو اتفاق سے میرے دوست وجاہت علی عمرانی نے یہ پوسٹ دوران سفر پڑھ لی ۔ انہوں نے مذید معلومات لکھ دیں۔ان کے شکریے کے ساتھ اضافہ کر رہا ہوں۔وجاہت علی عمرانی لکھتے ہیں ۔۔
بہت زبردست اور آپ نادر تاریخ ڈھونڈ کے لائے، واقعی میلے ٹھیلے کسی بھی سماج کے کلچر اور اس کی ثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ بہرحال تقسیم سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان کی ہندو کمیونٹی بھی بڑے اہتمام سے اپنے مذہبی اور ثقافتی میلے منایا کرتی تھی۔جس میں ہولی،دِیوالی، دوسہرا، بسنت،راکھی،بیساکھی، ٹیکہ،جنم اشٹمی،گوپ اشٹمی، رام نومی، گھنیش جی کی پوجا، پُونی،لوری،میلہ چہتر بہار، اورسکھوں کے گرو گرونانک دیو جی کی برسی نمایاں تھی۔
بیساکھی گراؤنڈ سے پہلے ڈیرہ کے ہندو بیساکھی کاتہوار ملک جِندا رام زمیندار کے باغ میں جبکہ ہندو عورتیں گھنیش پوری کے باغ میں اسے منایاکرتی تھیں۔ ہندو تہواروں کو ایک جگہ مل کر منانے کی غرض سےچ اُس وقت کی ہندو کمیونٹی نے ڈیرہ میونسپل کمیٹی کے ساتھ ملکر یہ زمین خریدنے کامنصوبہ بنایا،جسکی مالیت ایک ہزار روپے تھی۔دلدار خان کو آٹھ سو پر راضی کرنے کے بعد ہندو کمیونٹی کیلئے بنائی گئی سیوا سمتھی نے سارے ہندوؤں سے ٹیڈی،کسیری چندہ اکھٹا کیا اور تھوڑی سی رقم میونسپل کمیٹی نے اپنے سالانہ فنڈ سے ڈالی، اس طرح 800 (آٹھ سو روپوں) کے عوض دلدار خان سے زمین خریدی گئی اور اِسے بیساکھی گراؤنڈ کا نام دیا گیا۔ بیساکھی گراؤنڈ کی خریداری کے وقت ہندوؤں نے اشٹامپ پیپرپر لکھ کردیا کہ اگرچہ یہ زمین ہندوؤں کے قبضے میں رہے گی اور وہ اس پر اپنے تہوار منانے کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کے موقعوں پر بھی استعمال میں لایا کریں گے جبکہ ڈیرہ کی میونسپل کمیٹی بھی اسے اپنے سرکاری کاموں کیلئے استعمال کرسکتی ہے کیونکہ کمیٹی کے شئیر بھی اس زمین کی خریداری میں شامل ہیں،مگر زمین کا قبضہ ہندوؤں کے پاس رہے گا۔ اس طرح بیساکھی گراؤنڈ کی بنیاد پڑی اور ہندوؤں کے تہوار یہاں پر منائے جانے لگے۔
بیساکھی گراؤنڈ میں منایا جانے والا چار روزہ بیساکھی میلہ اپریل کی 13 تاریخ کو شروع ہوتا اور16تاریخ کو بیساکھی گراؤنڈ میں ہی اختتام پزیر ہوتا تھا۔ تیرہ اپریل کے دن سارے ہندو مرد دریا کا رخ کرتے،خوب نہاتے دھوتے اور شام کومیلے کا افتتاح کیا جاتا جس میں کھانے پینے اور دیگر لوازمات کے اسٹالز لگتے اور ہندو مرد وخواتین خریداری کیا کرتی تھیں۔

About The Author