ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس شروع ہو چکا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بزرگوں صدقے سیلاب متاثرین کو دوبارہ بحال کرے۔ بحالی کے سلسلے میں قومی اور عالمی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں۔ دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ مدینہ فائونڈیشن نے سیلاب متاثرین کی بہت مدد کی ہے اور 92 نیوز ٹیلی تھون میں مخیر حضرات نے کروڑوں روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔ سیلاب کی صورتحال کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ خوش آئند ہونے کے ساتھ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے عالمی برادری کو ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کی طرف متوجہ کیا اور بجا طور کہا کہ ترقی پذیر ملکوں کی صنعتوں کی طرف سے پھیلائی گئی آلودگی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں ابھی تک ختم نہیں ہوئیں۔ گزشتہ روز سندھ میں شدید بارشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور متاثرین کے خیمے تک اکھڑ گئے اور ملک میں سیلاب سے 16 مزید افراد ہلاک ہو گئے۔ مدد کی بہت ضرورت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مدینہ فائونڈیشن نے عرس حضرت داتا گنج بخشؒ کے زائرین کیلئے بھی خدمات سر انجام دی ہیں۔ بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حیات اور تعلیمات کے بارے میں آگاہی بھی بہت ضروری ہے۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ 400 ھ میں پیدا ہوئے آپؒ کا نام گرامی ’’علی‘‘ کنیت ’’ابوالحسن‘‘ اور لقب ’’داتا گنج بخش‘‘ ہے۔آپ نے لاہور میں سلسلہ درس جاری کیا اور اس کی شاخیں اطراف میں جا بجا قائم ہو گئیں۔ مزار لاہور میں ہے جسے عرف عام میں داتا دربار کہا جاتا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ نے بھی داتا صاحب کے مزار پر چلہ کشی کی۔ سلطان ابراہیم غزنوی اور سلطان التمش نے خود قرآن مجید لکھ کر آپ کے مزار پر رکھوائے۔ آپؒ کا سلسلہ طریقت کچھ اس طرح ہے: علی ہجویری بن عثمان ؒ آ پ کے شیخ ابو الفضل ؒ بن حسن ختلی، ان کے شیخ کا نام ابو بکرشبلی ؒ جو حضرت جنید بغدادی ؒ کے مرید تھے، وہ مرید تھے شیخ سری مقطی کے، ان کی بیعت حضرت معروف کرخی ؒ سے تھی وہ حضرت دائود طائی ؒ کے خلیفہ تھے و ہ حبیب عجمی ؒ کے مرید و خلیفہ تھے وہ خلیفہ تھے حضرت حسن بصری ؒ کے جن کو طریقت کا فیضان حضرت علی ؒ سے حاصل تھا اور حضرت علی ؒ کورسول اللہ ﷺ سے فیض حاصل ہوا تھا۔ اس طرح آپؒ کا سلسلہ نسب اور سلسلہ طریقت دونوں آگے جا کر نبی کریم ﷺ سے مل جاتے ہیں۔ اس سے آپ ؒکے بلند مقام کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے شیخ ابوالفضل ختلیؒ کے علاوہ دو بزرگ ابو سعید ابو الخیر و امام ابو القاسم قشیری ؒ سے بھی آپؒ نے فیضان حاصل کیا آپؒ شب و روز اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں مصروف رہے حتیٰ کہ جب آپؒ کے پیر و مرشد کا وصال ہوا تو ان کا مبارک سر حضرت سیدعلی ہجویری ؒ کی گود میں تھا آپؒ امام اعظم ؒ ابو حنیفہ کے مقلد تھے اور ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ دوسرے علاقوں سے جہاں جہاں ان کا قیام ہوا وہ مقام انہی کے نام سے منسوب ہو گیا جیلان سے پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ بغداد پہنچے تو بغداد کو شہرت دوام حاصل ہوئی اور بغداد،بغداد شریف کے نام سے مشہور ہوا۔ حضرت شاہ سلیمان تونسہ میں آکر تونسوی ہو گئے۔ خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ اجمیر پہنچے تو اجمیر شریف کی پہچان بن گئے۔ حضرت بہائوالدین زکریا ملتان آکر ملتانی ہو گئے۔ اسی طرح خواجہ نور محمد مہاروی نے مہار شریف کو رنگ دیا۔ اجودھن سے حضرت فرید الدین مسعود گنج شکرؒ پاک پتن شریف پہنچے تو اس غیر معروف علاقہ کو شہرت دوام حاصل ہوئی تو یہ علاقہ اجودھن سے پاک پتن شریف کے نام میں تبدیل ہو گیا اور جب ہجویر سے داتا گنج بخش سر کار ؒ لاہور پہنچے تو لاہور کی پہچان بن گئے اور لوگوں کی زبان پر لاہور کا دوسرا نام ’’داتا کی نگری‘‘ہو گیا۔ وطنیت بہت بڑا حوالہ ہے سرکار دو عالمؐ مکہ میں تھے تو مکی کہلائے اور مدینہ میں تشریف لائے تو آپؐ مدنی ہیں۔ یہ تمام باتیں ان حضرات کیلئے تعلیم کا درجہ رکھتی ہیں جن کی چار نسلیں یہاں پیدا ہو گئیں مگر پھر بھی وہ خود کو ہندوستان کے شہروں کی نسبت سے اپنے نام کیساتھ اپنا حوالہ لکھتے ہیں۔ ہم داتا گنج بخشؒ کا ذکر کر رہے تھے ، سوانح نگاروں نے آپؒ کا سلسلہ نصب یوں بیان کیا ہے حضرت علی ہجویری بن عثمان بن علی بن عبد الرحمن بن شجاع بن ابوالحسن علی بن حسن اصغر بن زید بن حضرت امام حسن بن سید نا علی رضی اللہ عنہ۔آپ ؒہاشمی سید اور حسنی ہیں، گو یا حسنی جمال اور حسینی جلال کی رعنائیاں اور دلفریبیاں سمٹ کر آپ کی ذات با برکات میں جمع ہو گئیں۔ آپ کی تعلیم کے بارے میں سوانح نگاروں نے لکھا کہ آپکوبچپن ہی سے حصول علم کا شوق بے چین کئے رکھتا تھا حضرت سید علی ہجویریؒ کی تصانیف بے شمار ہیں چونکہ آپ علم و فضل میں کمال درجہ رکھتے تھے اس لئے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں ان میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں،منہاج العابدین، اسرار الخارق و اللمعات، بحرالقلوب، شرح کلام منصور، ایمان، دیوان، کتاب فنا و بقائ، الرعایۃللحقوق اللہ تعالیٰ،کشف الاسرار اور کشف المحجوب آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیا ء ؒ نے تو ان کی آخری کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ کے بارے میں یہاں تک فر ما دیا تھا کہ ’’جس کا کوئی مرشد نہ ہو اسے اس کتاب کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا‘‘۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے کشف المحجوب میں اپنی جائے سکونت لاہور کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’لاہور یکے از مضافات ملتان است‘‘ تذکرہ نگاروں نے بجا طو رپر لکھا کہ حضرت داتا گنج بخشؒ نے حصول علم کے لئے سفر کی صعوبتیںبڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیں اور شام،عراق، بغداد، مدائن، فارس، کوہستان، آذربائیجان، طبرستان، خوزستان، خراسان وغیرہ کے مشہور علماء وفضلاء سے شرف تلمذ حاصل کیا اور اکتساب فیض کیا علوم و معارف کے سمندر پی جانے کے باوجود شوق علم کی بے تابی کم نہ ہوئی آپؒ خود فرماتے ہیں کہ:’’فقط خراسان میں 300 مشائخ سے اکتساب فیض کیا‘‘۔ آپؒ کے بے شمار استادوں میں سے خاص کر دو استادوں شیخ ابو العباس احمد بن محمد الاشقانی اور شیخ ابو القاسم علی گر گانی کے نام قابل ذکر ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر