گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانا شعر ہے ؎
فسانہ دل ہے مختصر سا کہ آگ دل میں بھڑک اٹھی ہے ۔
عیدالفطر جسے ہمارے ہاں چھوٹی عید کہتے ہیں گاٶں کے لوگوں کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر آتی۔ اکثر نئے کپڑوں اور جوتوں کے جوڑے ہمیں عید پر یا کسی عزیز کی شادی پر ملتے۔ آجکل کے دنوں میں گھر گھر سویاں بنانے والی گھوڑی چارپائ کے ساتھ کس دی جاتی اور اڑوس پڑوس کے عورتیں سب جمع ہو کر سویاں بناتیں۔ گھوڑی چلانے پر زور خوب لگتا مگر ہم بچہ لوگ بھی شوق سے چلاتے۔ پھرسویوں کے لچھے بنا کے بانس کی لکڑی کی ڈانگ پر سکھانے کے لیے رکھ دیتے۔ کُنگرانڑیاں بڑے چھبے سر پر اٹھا کے آ جاتیں اور رنگ برنگی چوڑیاں یا ونگاں فروخت کرتیں۔ کُنگر لوگ ریچھ اور بندر کا تماشہ دکھانے گلیوں گلیوں گھومتے پھرتے۔بعض عورتیں گھر گھر کپڑے۔مُساگ یعنی دنداسہ۔سرمہ۔ چھلے ۔مندریاں۔سرخی پاوڈر ۔ سگیاں۔مہندی فروخت کرتیں۔ ہمارے گھروں میں بڑے درخت تھے تو پینگ عید پر ضرور لگائ جاتی۔جب پینگ لٹکا دی جاتی تو دو دو لڑکیاں مل کر زور کے الارے کے ساتھ بہت اونچا جھولتیں۔جب ایک لڑکی زور لگا کے پینگ کو مخالف سمت اوپر لے جاتی تو کہتی۔۔سوہرے ۔۔یعنی سسرال کے گھر جا رہی ہوں۔ جب دوسری لڑکی واپس دوسری سمت زور لگاتی تو کہتی۔۔ پیکے ۔۔یعنی ماں باپ کے گھر جا رہی ہوں۔ اس طرح بچیوں کے ذھن میں بچپن سے شادی اور رخصتی کا تصور ذھن میں جم جاتا تاکہ شادی کے وقت ذھنی طور پر ماں باپ سے جدائی قابل برداشت ہو۔
اے وی پڑھو
اُچ ڈھاندی ڈیکھ تے چھوراں وی وٹے مارے ہن۔۔۔|شہزاد عرفان
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو