ضیا بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ضیا بلوچ
گلی میں شور کے باعث کافی لوگ جمع ہو گئے تھے ۔خواتین اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے باہر گلی میں جھانک رہی تھیں ۔ محکمہ صحت کے اہلکاروں کے ساتھ افسر بھی پہنچ گئے تھے ۔مقامی کونسلروں کے ساتھ ساتھ معززین علاقہ بھی جمع تھے ۔پولیس کو بھی بلا لیا گیا تھا ۔وجہ کچھ یوں تھی کہ خالہ صغریٰ اپنی چھوٹی بیٹی کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے سے انکاری تھی اور اب محکمہ صحت کے بڑے افسر علاقے کے سمجھ دار لوگوں کے ساتھ پولیس کو بھی بلا کر کبھی پیار محبت تو کبھی سختی کے ساتھ بچی کو قطرے پلانے کے لئے اس خاتون کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
اصل میں جوانی میں ہی بیوہ ہونے کے صدمے نے خالہ صغریٰ کو چڑچڑا بنا دیا تھا ۔وہ اپنے مسائل کا ذمہ دار معاشرے کو سمجھتی تھی ۔اس کا خیال تھا کہ اس کے خاوند کے ایکسیڈنٹ میں تمام غلطی کار والے کی تھی ۔ اور ایکسیڈنٹ کے بعد اس کے خاوند کو بروقت ہسپتال پہنچایا گیا ہوتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی ۔ ” بی بی پولیو وہ بیماری ہے جو ساری زندگی کے لئے انسان کو معذور بنا دیتی ہے، عالمی برادری ہمارے فائدے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہی ہے ۔حفاظتی قطروں کے پینے سے آپ کے بچوں کا ہی فائدہ ہے ۔ ” بڑے افسر نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا تو خالہ صغریٰ بپھر گئی ۔ "عالمی برادری کو میرے بھلے کا خیال کب سے آیا؟ جب میرے بچے بیمار ہوتے ہیں تو ہسپتالوں میں دوائیں نہیں ہوتیں ۔ میرے بچے رات کو بھوکے سوتے ہیں تو ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ لیکن اس پولیو کے حوالے سے ہی عالمی برادری کو ہم سے ہمدردی کیوں ہے؟” یہ وہ سوال تھا جو خالہ صغریٰ بار بار کر رہی تھی ۔ آخر کار ایک افسر بول ہی پڑا ۔” خالہ… سچ تو یہ ہے کہ عالمی برادری صرف ہماری محبت میں ہم پر کروڑوں ڈالر خرچ نہیں کر رہی بلکہ پولیو وہ بیماری ہے جس سے انہیں خود خطرہ ہے ۔اگر ایک بھی پولیو کا کیس دنیا میں رہ گیا تو ان کے بچے بدستور خطرے میں رہیں گے ۔اس مرض کے دنیا سے خاتمے کے لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے "۔
پولیس کے ڈراوے سے خالہ صغریٰ کی بچی کو تو حفاظتی قطرے پلا دئیے گئے اور گلی کا رش ختم ہو گیا لیکن میں دنیا کی ہمدردی کا جائزہ لیتا رہ گیا کہ دنیا کی ازخود ہمدردیاں صرف اس وقت جاگتی ہیں جب ان کی اپنی گردن پھنسی ہوئی ہو ۔تب عالمی برادری سے اپیل بھی نہیں کرنی پڑتی ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو دورہ بھی نہیں کرنا پڑتا، عالمی برادری کا ضمیر بھی نہیں جھنجھوڑنا پڑتا، خودبخود ویکسین بھی آجاتی ہے جس کی ایک خوراک کی قیمت 650 روپے سے زیادہ ہے ۔ بھاری مشاہرے پر مقامی افراد بھی بھرتی کر لئے جاتے ہیں جو اس کام کو اس کی روح کے مطابق سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن بات ان بیماریوں کی ہو جن سے ترقی یافتہ ممالک کے اپنے شہریوں کو خطرہ نہیں تو اس پر کوئی توجہ دینے والا نہیں ۔ ہزاروں مریض ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں لیکن یہ ان غریب ممالک کا اپنا مسئلہ ہوتا ہے ۔ پاکستان جیسا ملک جہاں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ جہاں 10 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جہاں 4 کروڑ لوگوں کو رات کا پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا، اس سے مہذب دنیا کو کوئی سروکار نہیں ۔ ایسے ممالک کو قرض بھی دیا جاتا ہے تو اس قدر بھاری سود اور سخت شرائط کے ساتھ کہ کروڑوں لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ہوتا ۔ ہمدردی صرف تب جاگتی ہے جب خود کو خطرہ ہوتا ہے ۔
پاکستان سیلاب کی وجہ سے تباہ ہو کر رہ گیا ہے لیکن دنیا کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔ کینیڈا جیسے امیر ملک نے 20 لاکھ ڈالر کا اعلان کیا ہے جس پر اس کے اپنے ملک کی مسلمان خاتون سینیٹر نے سخت تنقید کرتے ہوئے اس امداد کو تضحیک آمیز اور ناکافی قرار دیا ہے ۔ پاکستان اگرچہ دنیا بھر کے سامنے کشکول پھیلائے ہوئے ہے اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک گھنٹے میں ایک کھرب 30 ارب روپے اکٹھے کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے لیکن یہ سب اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ نہیں ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیترس کے مطابق پاکستان کو کم از کم 30 ارب ڈالر کی ضرورت ہے ۔ لیکن آئی ایم ایف ریلیف دینے کے بجائے زبردست دباؤ ڈال کر ایسی شرائط منوا رہا ہے کہ بجلی کے بل دیکھ کر لوگ تڑپ رہے ہیں ۔ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آمدنی صرف قرضوں کے سود پر چلی جاتی ہے اور اکثر ہمیں مزید قرض لے کر سود ادا کرنا پڑتا ہے ۔ایسے میں اس بڑے نقصان کا ازالہ کیسے ہو ۔درحقیقت پاکستان کو دنیا کے سامنے اپنا کیس نئے انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کو بتانے کے ضرورت ہے کہ ہم پر سیلاب اور بارش سے نازل ہونے والی تباہی محض آفت سماوی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا کی فطرت سے چھیڑ چھاڑ کا خمیازہ ہے جسے سب سے پہلے پاکستان کو بھگتنا پڑا ہے ۔ اب یہ محض الزام نہیں رہا بلکہ موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے دنیا بھر کے سائنس دانوں کی گزشتہ 15 سالہ تحقیق اس کا ثبوت ہے ۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ یہ تباہی کی داستان یہیں ختم ہونے والی نہیں بلکہ اس آگ نے وہاں تک بھی زیادہ شدت کے ساتھ جاناہے جو اس موسمیاتی تباہی کے ذمہ دار ہیں
بقول مرتضیٰ برلاس
کتاب سادہ رہے گی کب تک
کبھی تو آغاز باب ہوگا
جنہوں نے بستی اُجاڑ ڈالی
کبھی تو ان کا حساب ہوگا
سحر کی خوشیاں منانے والو
سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی
کہ سانس لینا عذاب ہوگا
سکون صحرا میں بسنے والو
ذرا رتوں کا حساب سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گذرا
تو کل کا موسم خراب ہو گا
دنیا کے گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر جانے کے بعد ممکن ہی نہیں کہ ایک گھر نذر آتش کر دیا جائے یا ہوجائے اور دیگر گھروں کو نقصان یا تپش نہ پہنچے ۔ سائنس دان بتا چکے ہیں کہ موسمیاتی آلودگی پھیلانے میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن نقصان برداشت کرنے میں یہ یہ دنیا کے 10 بدنصیب ممالک میں شامل ہے ۔ دنیا کو یہ کڑوا سچ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ نقصان صرف ہمارا نہیں بلکہ اس "عالمی بستی” کا ہے اور سب کو مل کر بھیک نہیں بلکہ فرض کے انداز میں اس کا ازالہ کرنا ہوگا ۔ ایسے میں صرف سود ہی نہیں پاکستان کے اصل قرضے بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔لیکن اس کے لئے پاکستان کو اپنا مقدمہ زور دار طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر