ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ستمبر یوم فضائیہ جوش و خروش سے منایا گیا۔ پاکستان کی فضائی افواج نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جو کارنامے سر انجام دیئے ، یہ دن اسی کی یاد مین منایا جاتا ہے ۔ یوم فضائیہ یاد دلاتا ہے کہ جب بزدل بھارتی افواج نے اچانک پاکستان پر حملہ کیا تو کس طرح ہمارے جاں باز دلیر شاہینوں نے دشمن کے حملے کو پسپا کرکے وطن عزیز کی آن بان اور شان کو قائم رکھا۔ 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر جارحیت مسلط کی تو پاکستانی شاہینوں نے دشمن کے غرور کو نیست و نابود کر دیا۔ ایم ایم عالم نے ایک منٹ کے اندر اندر بھارت کے 5 ہنٹر طیاروں کا شکار کرکے عالمی تاریخ میں اپنا نام رقم کرایا۔ ان میں سے 4 طیارے 30 سیکنڈ کے اندر مار گرائے۔ جنگی طیارے ایف 86 سے ناممکن کو ممکن بنانے والے ایم ایم عالم کو وطن عزیز کے تیسرے بڑے فوجی اعزاز ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔ جھپٹ کر پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا اور پھر دشمن کو بھاگنے پر مجبور کر دینا، یہی وہ عزم ہے جسے یوم فضائیہ کے دن ہمارے شاہین دہراتے ہیں۔ 7 ستمبر پاکستان ایئر فورس کے جواں سالہ شہید پائلٹ راشد منہاس کی قبر پر بھی حاضری اور پھول چڑھائے گئے۔ راشد منہاس نے 20 اگست 1971ء کو اپنے انسٹریکٹر کی پاک فوج کا طیارہ دشمن سر زمین پر لے جانے کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے طیارہ پاکستان کی حدود میں گرا کر دشمن کا خواب خاک میں ملا دیا تھا۔ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے کچھ یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں ، مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خانپور سے آپ رحیم یارخان کی طرف جائیں تو8 کلومیٹر کے فاصلے پر دھریجہ نگر کے نام سے ایک قصبہ آتا ہے ، اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، دھریجہ برادری کے لوگ سندھ کے حملہ آور حکمران ارغون سے لڑتے ہوئے یہاں پہنچے۔ پہلے اس بستی کا نام بستی دھریجہ تھا، آبادی بڑھنے پر دھریجہ نگر ہوا۔ یہی میری جنم بھومی اور میرا گھر ہے ۔دھریجہ نگر قدیم دینی مدرسے کے حوالے سے علم کا گہوارا مگر 1980ء کے عشرے تک بستی میں نہ سڑک نہ سولنگ اور نہ ہی کوئی سکول ۔ سیدھا سادہ دیہاتی ماحول ،میرے ابا حضور مسجد میں بچے پڑھاتے اور ساتھ ہی کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان کھول رکھی تھی ، میری عمر پانچ سال کے لگ بھگ ہو گی ۔ اپنے ابا حضور سے ملتانی قاعدے کا سبق پڑھتا اور ابے سئیں کے ساتھ دوکان پر بھی بیٹھتا ۔ ہماری دوکان سے زمیندار کے ٹو اور غریب لیمپ کا سگریٹ لیتے تھے ۔ ہمارے ایک قلمکار غلام یٰسین فخری تھے ۔ بستی کے ان پڑھ ان کو یٰسین فقری کے نام سے پکارتے ،وہ سگریٹ نہ لیتے مگر وہ ہم سے لیمپ کی خالی ڈبی لیکر اسے قینچی سے کاٹتے اور ڈبی پر طبع شدہ لیمپ یعنی لالٹین کی تصویر بکسوئے کے ساتھ جیب پر لگاتے اور فاطمہ جناح زندہ باد کہہ کر آگے چل پڑتے ۔ یہی ان کا روز کا معمول تھا ۔ مجھے کچھ علم نہ تھا ، دوسرے لوگوں کے پوچھنے پر میرے ابا حضور بتاتے کہ لالٹین محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان ہے ۔ ایوب خان نے دھاندلی سے فاطمہ جناح کو ہرایا ہے ۔ ہماری بستی میں سخت دینی ماحول تھا ، میرے نانا حضور مولانا یار محمد دھریجہ جو درگاہ دین پور شریف کے بانی حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوری کے مرید، مولانا عبید اللہ سندھی کے ساتھی اور مولانا عبداللہ درخواستی کے ہم مکتب تھے ، بستی میں کسی کو ریڈیو نہ سننے دیتے ۔ ماماں خان محمد دھریجہ نے اپنی دکان پر کالے رنگ کی باڈی والا فلپس کمپنی کا ایک ریڈیو رکھا ہوا تھا، جو چوری چوری چلایا جاتا اور ہاں! یہ بھی بتاتا چلوں کہ ریڈیو آن کرنے سے پہلے ایک نوجوان کی ڈیوٹی لگائی جاتی کہ خیال رکھنا کہیں مولوی یار محمد صاحب نہ آ جائیں ۔ خان محمد دھریجہ کی دوکان پر نوجوانوں کے ساتھ ہم کم عمر بچے بھی ریڈیو پر چوری چوری گانے سنتے ۔ جنگ کے دوران ملی نغمے چلتے بہت جوش و خروش کا مظاہرہ ہوتا، وطن کے گیت لوگ گنگناتے نظر آتے۔ نور جہاں کے پنجابی گیت ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے ‘‘ کو بہت پسند کیا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری بستی کے نامور شخص فخری صاحب جو محترمہ فاطمہ جناح کے حامی تھے کو ہمارے گائوں کے کسی شخص نے کہا کہ بلیک آؤٹ کا اعلان ہو گیا ہے، آپ لالٹین اپنی جیب سے اتار کر گھر رکھ دیں ، فخری صاحب (بعد میں جنہوں نے بہت نام کمایا، بہت بڑے صحافی بنے اور کراچی سے خوبصورت سرائیکی رسالہ سچار بھی شائع کیا ) نے کہا کہ جنگ کیلئے ہم فوج کے ساتھ ہیں مگر ایوب خان کے خلاف یہ لالٹین نہیں اُترے گا ۔ جنگ میں پاکستان کو فتح ہوئی ۔ چاچے کالو نے فخری صاحب کو کہا کہ اب تو ایوب خان کو مان لو ، فخری صاحب نے کہا کہ جنگ ایوب خان نے نہیں بلکہ پاک فوج اور نور جہاں نے جیتی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ’’یادِ ماضی عذاب ہے یا رب ، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ‘‘ کے مصداق مجھے یاد ہے کہ پاک بھارت جنگ کے دوران بھارتی فوج کے طیارے آئے اور خانپور ریلوے اسٹیشن اور دوسری جگہوں پر بمباری کی مگر پاکستانی فوج کے طیاروں نے ان کو مار بھگایا ۔ اپنے گائوں دھریجہ نگر جاتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ سو سال پہلے جو بڑا علمی مرکز تھا، اس کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ نہ ہسپتال، نہ سڑکیں، نہ سیوریج اور پرائمری سکول آج بھی پرائمری ہے۔ کیا حکمران اس طرح توجہ کریں گے؟ ایک بات یہ بھی ہے کہ 7 ستمبر یوم ختم نبوت بھی ہے کہ اس دن مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کے بعد اقلیتوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے تھا مگر اضافے کی بجائے کمی آئے ہے ، کیوں؟ اس صورتحال پر ارباب اختیار کو غور کرنا چاہئے کہ غیر مسلم اقلیتیں بھی پاکستان کی شہری ہیں اور ملک و قوم کیلئے ان کی خدمات بھی اہمیت کی حامل ہیں ۔ یوم دفاع کے حوالے سے یاد آیا کہ ملک کے اہم ادارے پاک فوج میں اقلیتی افراد بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک فوج میں مذہب کی بنیاد پر فرق نہیں ، پاک فوج کے چند اہم عہدیداروں میں ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈل کوسٹ، اسکواڈرن ولیم ہارلے ، کائی زاد سپاری والا ، سیسل چوہدری ،رئیر ایڈمرل لیسلی فورمن ، ڈاکٹرکیلاش دلدادہ ، میجر ہر چرن سنگھ ، کیپٹن دانش، رئیل وائس مارشل مائیکل جون، ائیر کموڈ نذیر لطیف ،اسکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی نے پاک فوج میں بہت اعلیٰ خدمات سر انجام دیں ، اس کے علاوہ بہت سے نام ہیں ان کی بھی بہت خدمات ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر