گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم زندگی میں بہت سے عجیب معاملات دیکھتے ہیں مگر ان پر غور نہیں کرتے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی آدمی دوسرے آدمی کو گالی دے یا زیادتی کرے تو متاثرہ شخص کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ جواب میں صرف گالی تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس شخص کی جان لینے کے درپے ہو جاتا ہے۔ اس واقعہ کو دیکھنے والے بھی جوابی حرکت کو درست سمجھتے ہیں اور اگر معاملہ عدالت میں چلا جاے تو پہلا شخص مجرم ٹہرایا جاتا ہے۔ اب ایک اور سین دیکھتے ہیں۔ ایک سال کے بیٹے نے اپنی ماں کو ننھے ہاتھوں سے زور زور سے مارا جواب میں ماں نے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور چومنے لگی۔اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا واضع مطلب یہ ہے کہ بظاہر جو ایک مار کا معاملہ تھا اس کو ماں نے محبت میں بدل دیا۔ ماں نے برائی کو بھلائی کے خانے میں ڈال دیا۔ماں نے ایک قابل سزا چیز کو قابل انعام چیز قرار دے دیا۔یہ واقعہ تقریباً ہر گھر گزرتا ہے اور ہم اس کا مشاھدہ بھی کرتے ہیں مگر بغیر سوچے اس واقعہ سے گزر جاتے ہیں ۔ اصل بات اس سارے واقعہ سے یہ ظاہر ہوئی کہ یہ اللہ کی صفات کمال میں سے ایک صفت کی ہلکی سی جھلک ہے جو ماں کے رویہ کی صورت میں ہمیں دکھائی جاتی ہے۔ یہ خدا کی ایک نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ خدا نے اپنی رحمتوں کے کیسے عجیب نمونے اس دنیا میں بکھیر دیے ہیں۔ شفقت کی یہ انوکھی قسم جو ماں کے اندر پائی جاتی ہے اس کو ماں نے تخلیق نہیں کیا بلکہ اس کا خالق اللہ ہے۔ تو آپ اندازہ کریں جس صفت کا خالق اللہ ہے اس کے اندر یہ صفت کمال کے کس درجے میں ہو گی۔ اللہ کی شفقت کو اپنے پاس بلانے کے لیے ہمیں بھی اپنے دل کو معصوم بچے کی طرح شیشے کی طرح صاف و شفاف بنانا پڑے گا ۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اس زندگی میں آپ کے جسم کی نشونما اچھی غذا کھانے اور ورزش سے ہوتی ہے مگر آپکے دل و دماغ ایمان و یقین اور روح کی نشونما دینے میں ہوتی ہے۔ آپ اپنی ضرورت سے فالتو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ بند کوٹھڑی میں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی ۔بند ذھن خدا کا فیضان پانے سے یکسر محروم رہتا ہے۔ اپنے دل و دماغ کے دروازے کھولو ۔اللہ کا فیضان اسی کو ملتا ہے جو یہ دروازے کھولنے پر راضی ہوں۔ آج ہم خلوص دل سے گڑگڑا کر اللہ سے معافی مانگیں تاکہ وہ اپنی شفقت سے ہمارے قصور کو انعام کے خانے میں ڈال دے جیسے کہ ماں اور بچے کے واقع میں ہوتا ہے۔ رومی نے کہا ہے کہ صوفی کے پاس رنگین الفاظ کی کتاب نہیں ہوتی ۔ صوفی کے پاس تو برف کی طرح سفید صاف و شفاف دل ہوتا ھے جو عملی تعلیم کا مرکز بنتا ھے ۔
The Sufi’s book is not of ink and letters; it is nothing but a Heart white as snow. ~Rumi.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر