دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غائب سے مدد غائب|| ارشاد رائے

ارشاد رائے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں ،سیاست سمیت مختلف موضوعات پر انکی تحریریں مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ارشادرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے گھر سے مسجد کچھ فرلانگ پر ہے میں عصر کی نماز کیلۓ جا رہا تھا تو میرے ذہن میں چند سوال جنم لینے لگے کہ دنیا میں تقریباً پونے دو ارب مسلمان ہیں اور دن میں پانچ مرتبہ خدا کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں اس کے علاوہ حج عمرے اور دیگر زیارات پر بھی حاضری دیتے ہیں طاق راتوں کی تلاش مں بھی مارے مارے پھرتے ہیں اور پوری پوری رات گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں اگر پونے دو ارب مسلمانوں کی صرف ایک دن کی عبادات اور دعاؤں کا حساب لگا ئیں مثلاً ایک دن میں پانچ نمازوں کو پونے دوارب سے ضرب دیں پھر ایک مہینے اور ایک سال سے ملٹی پلائی کریں تو انسانی دماغ تو کیا کمپیوٹر بھی جواب سے لاجواب ہوکر پھٹ جاۓ گا
مگر معلوم نہیں یہ دعائیں جاتی کہاں ہیں یہ منزل مقصود پر بھی پہنچ پاتی ہیں یا راستے میں کہیں گم ہو جاتی ہیں اگر منزل تک پہنچ پاتی ہیں تو انہیں قبولیت کا شرف کیوں نصیب نہیں ہوتا اور پہلے کی طرح مسلمانوں پر غائب سے مدد کیوں نہیں اترتی پوری دنیا میں مسلم اُمّہ ہی کیوں ہلاک درماندہ و پسماندہ ہے؟
اس ادھیڑ بن میں تھا کہ مسجد آگئی اور میں نے چٹی چکانے والے انداز میں چار فرض ادا کیے معلوم نہیں ادا بھی ہوۓ کہ نہیں مگر جونہی میں نے دعا کیلۓ ہاتھ بارگاہ الہی میں بلند کیے تو میرے ان سوالوں کے جواب میرے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے
مجھے ایسا لگا جیسے میرے ذہن میں کسی غیر مرئی طاقت نے یہ خیال ڈالا ہو کہ بھائی تمھاری دعائیں کیوں کر قبول ہوں
تم تو پانچ منٹ کی بندگی اور عبادت میں بھی کئی دنیاوی خیالات ذہن میں رکھ کر شرک کے مرتکب ہو تے ہو
تمھیں تو دعائیں قبول کرنے والی ذات اقدس پر بھی پختہ یقین نہیں تمھاری عبادات اور دعائیں بھی تمھارے دنیاوی اعمال کی طرح ملاوٹ شدہ اور دکھاوے کی ہیں کبھی اپنے دنیاوی اعمال کا احاطہ کر کے تو دیکھیں معلوم ہو جاۓ گا کہ کیوں تمھاری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، اور کیوں غائب سے مدد غائب ہے ۔
اللہ اور اس کے رسول کا فرمان ہے جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں
ہم نے تمام اشیاء خورد ونوش کے ساتھ ساتھ دین میں بھی ایسی ملاوٹ کی کہ اصل دین بھی ہم میں نہیں رہا
اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا جھوٹ اور جھوٹی گواہی سے اجتناب کریں
مگر ہمارے ہاں کراۓ کے جھوٹے گواہان سے لیکر جھوٹے حلف نامے تک دستیاب و عام طام ہیں
اللہ کا فرمان ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں مت پڑو
مگر ہم کئی فرقوں کے ساتھ ساتھ لسانی اور نسلی گروہوں میں منقسم ہیں
فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں
کیا واقعی ہم ایک دوسرے کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ ہیں مجھے تو ملک کے اعلی ایوانوں سے لیکر عوام تک صورت حال بالکل مختلف لگتی ہے
پھر حکم ہوا رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں
مگر یہاں تو مرنے کے بعد بھی رشوت دیکر قبر کی جگہ نصیب ہوتی ہے
فرمایا ماں کے قدموں تلے جنت ہے
لیکن یہاں کہا جاتا ہے عورت کو جوتے کی نوک پر رکھنے والا مرد کا بچہ کہلاتا ہے
کیا کہوں کیسے لکھو المیے ہی المیے ہیں قدم قدم پر سانحے ہی سانحے ہیں
یہاں کمسن معصوم فرشتہ صفت بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں ، قبرستانوں پر قبضہ گروپ قابض ہیں ، مائیں بھوک سے بلبلاتے بچے مارنے پر مجبور ہیں ، جینوئن دوا اور خالص غذا خواب بن کے رہ گئ ہے ، غیرت کے نام پر جہالت اور ذلالت کا بازار گرم ہے ، مجسمے نہ توڑنے پر نکاح ٹوٹنے کے فتوے صادر کیے جاتے ہیں ، یہاں رشوت سکہ رائج الوقت ٹھہری ہوئی ہے ، یہاں تھانے سے لیکر امتحانی مراکز تک کی نیلامی کیلۓ بولیاں لگتی ہیں ، یہاں جعلی لائسنس جعلی پائلٹ گھوسٹ سکولوں سے لیکر گھوسٹ ملازمین تک وے آف لائف بن چکا ہے، یہاں ٹھنڈی مرغیاں جعلی انڈے ، عام اور شہد کو خالص اسلامی ٹچ دیکر مارکیٹ کیا جاتا ہے ، طبیب لیبارٹریوں اور دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ مک مکا کرکے مریضوں کی کھال ادھیڑ رہے ہیں ، یہاں روحانی باپ بچیوں کو فحش مواد اور مدرسوں میں مذہبی رہنما بچوں سے بدفعلی کے مرتکب ہوتے ہیں ، یہاں قانون شکنی پر فخر اور پابندی وقت مضحکہ خیز سمجھی جاتی ہے ، یہاں نسلوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں
یہاں بستی بستی گلی گلی شہر شہر قابیل بن چکے ہیں ، یہاں حسد اور خون حکمرانی کرنے لگا ہے، یہاں دلوں کی بنائی رات بن چکی ہے اور ہر شخص سورج کا پتہ پوچھتا پھرتا ہے ، کوئی مجھکو یا میں خود کو قتل نہ کردوں یہاں ہر شخص دوسرے سے یا خود سے ڈرا سہما ہوا ہے
یہاں اہل قلم ، دانشور ، رہبر اور علماء دین بجاۓ رہنمائی کے اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر خود براجمان ہیں ، ہمارے معیار یہ ہیں کہ شریف کو نادان ، مکار کو سمجھدار، قاتل کو بہادر، اور دولت مند کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں ، یہاں استاد کے ساتھ تعلق کو چھپایا جاتا ہے جبکہ کوتوال سے تعلق کو فخریہ انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، یہاں رائی کو پہاڑ سمجھ کر سر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دولت کو منزل سمجھ کر عمر بھر اس کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں
کالم کی دم ، قرآن کہتا ہے معجزے تو صرف اللہ کے پاس ہیں
مگر ہم خدا کے تخلیق کردہ لوگوں میں تلاش کرتے ہیں
قرآن کہتا ہے جو لوگ قبروں میں مدفن ہیں تم انہیں کچھ نہیں سنا سکتے (فاطر 22)
قرآن کہتا ہے اس سے بڑھ کر بھٹکا ہوا اور کون ہے جو اللہ کو چھوڑ کر اسے پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتا ( جواب دینا تو دور کی بات ہےکہ جن لوگوں کو وہ پکارتا ہے ) انھیں اس کا علم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی انہیں پکار رہا ہے وہ اس کی پکار سے یکسر بے خبر ہوتے ہیں ( الاحقاف 5)
مگر ہم کہاں کھڑے ہیں کبھی خود کو خوداحتسابی کے عمل سے گزاریں ایک نظر اپنے اعمال پر دوڑائیں اپنے کردار کو جانچیں تقوی کے پل صراط سے خود کو گزاریں قانون قدر ت کے ترازو میں اپنا میزان کریں تو حقیقت منکشف ہوجاۓ گی کہ ہماری دعاؤں کو قبولیت کا شرف کیوں حاصل نہیں ہوتا اور غائب سے مدد کیوں غائب ہے ؟؟

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author