ارشادرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز پاکستان آج کل تاریخ کی بد ترین بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے ملک کے دو تہائی حصے پراس وقت پانی ہی پانی ہے کہیں بارشی پانی ہے تو کہیں سیلاب کی تباہ کاریاں کئی شہر ڈوب گۓ کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں سینکڑوں لوگ زندگی کی بازی ہار گۓ ہزاروں زخمی ہیں لاکھوں لوگ گھر سے بے گھر ہو گۓ ہیں کئی ماؤں کی گودیں آجڑ چکی ہیں کئی بہنوں ، بیٹیوں کے سہاگ طلاطم خیز موجوں کی نظر ہو گۓ ہیں جانی نقصان کے علاوہ اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا ہے ملک کے کئی سیلاب زدہ علاقوں کا مواصلاتی نظام درہم برہم ہو چکا ہے کئی علاقے بجلی اور انٹر نیٹ کی سہولت سے محروم ہیں لوگوں کی آخری پونجیاں مال مویشی اشیاء خوردونوش دریا برد ہوچکے ہیں بچے کُھچے لوگ اپنے کمسن بچوں اور عورتوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر مجبور و بےبس ہیں اکثر علاقوں میں لوگوں کو اپنے پیاروں کے لاشے دفنانے کیلۓ خشک جگہ میسر نہیں کئی کمسن بچے یتیم ہونے کے ساتھ ساتھ گھر جیسی محفوظ پناہ گاہ سے محروم ہو چکے ہیں
پہلے سے غربت بھوک افلاس اور ننگ دھڑنگ سے ستاۓ لوگ انسانی تاریخ کے بڑے المیے سے دوچار ہیں میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کا بد ترین سیلاب آخر ختم ہو ہی جاۓ گا مگر اس سے متاثرہ لوگ کم ازکم نصف صدی پیچھے چلے گۓ ہیں وطن عزیز جسے پہلے سے کئی مشکلات کا سامنا ہے جس میں دہشتگری سیاسی عدم استحکام، معیشت اور معاشرت کا مسئلہ اہم ہے ان میں سیلاب کا اضافہ ایک نئی افتاد اور ابتلا ہے جس سے نمٹنا معاشی طور پر تباہ ریاست کیلۓ ہرگز آسان نہیں
جہاں دو تہائی ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کی ذد میں ہے وہاں میرے اپنے ضلع لیہ کے نشیبی علاقوں میں بھی سپر فلڈ کی وارننگ جاری ہے ملازموں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں ریسکیو اور دیگر متعلقہ ادارے ہائی الرٹ ہیں عوام الناس اور ان کے مال مویشیوں کو نشیبی علاقوں سے ریسکیو کر کے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے
شائد میرا آرٹیکل پبلش ہونے تک یا اس سے پہلے پانچ سے سات لاکھ کیوسک کا ریلہ گذر رہا ہوگا یا گذر چکا ہوگا
میں لم یزل سے دعا گو ہوں کہ ہم سب پر سحاب کرم کرے اور مزید جانی ومالی نقصان سے وطن عزیز کو محفوظ رکھے آمیں
میرا دعا پر ایسے پختہ یقین ہے جیسے ہر ذی روح کا موت پر مگر دعا بغیر عمل کے ایسے ہے جیسے بغیر روح کے مردہ جسم
یہاں کچھ لوگ اور مذہبی رہنما یہ بھی فرماتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ یہ آفت ہمارے برے اعمال اور گھٹیا کرتوتوں کا نتیجہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر سب سے پہلے اس کی زد میں بنی گالہ جاتی امرا سرے محل زمان پارک، اشرافیہ کے بنگلے ، محل ، قحبہ خانے شراب اور جوے کے اڈےاور دیگر کئی ایسے مقامات کیوں نہیں آتے ہر بار غریب مفلس اور مفلوک الحال لوگ جو گناہ خرید کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے اس کی زد میں کیوں آتے ہیں ہاں اس لحاظ سے یہ بات درست ہے کہ ہمارے انتظامی عمل درست نہیں کیونکہ ہم نے سیلاب کی گذر گاہوں کو ٹھوس اور مربوط بنیادوں پر نہیں جوڑا دریاؤں اور ردکہیوں کی گذر گاہوں میں شہر اور بستیاں آباد کر رکھی ہیں چھوٹے بڑے ڈیم نہیں بناۓ بندوں کے پشتے پکے نہیں کیے درخت اور باغات کاٹ کھاۓ ہیں ہماری گورنمنٹ اور متعلقہ ادارے ستر سال سے خواب غفلت میں سوۓ ہوۓ ہیں دراصل یہ ہیں ہمارے برے اعمال اور کمزوریاں جن کی وجہ ہر دوسرے چوتھے سال ایسی آفتیں ہم پر ٹوٹ پڑتی ہیں
میں اپنے کالم میں پرنٹ میڈیا کے توسط سے پاکستانی عوام ، گورنمنٹ ، اداروں ، پاکستانی اشرافیہ ، اہل ثروت اور صاحب استعطاعت لوگوں ملک کی تاجر برادری اور مخیئر حضرات سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں التجا کرتا ہوں منت سماجت کرتا ہوں انہیں بھنبھوڑ اور جھنجھوڑ کر کہتا ہوں کہ اب اپنے اعمال میں نیکی کا اضافہ کریں خدا کی قربت حاصل کریں اور اپنے وسائل کو زیادہ سے زیادہ بروۓ کار لائیں مصیبت زدہ آفت زدہ سیلاب زدگان کی بلاتفریق زیادہ سے زیادہ خدمت اور مدد کریں ان کی زندگیاں آسان بنا کر انسان ہونے اور انسانیت کا ثبوت دیں عالمی دنیا اور اقوام متحدہ اور این جی اوز سے اپیل ہے کہ وہ انسانیت کے ناطے پاکستانیوں کی ہر قسمی ہیلپ کریں
میں سمجھتا ہوں کہ انسان ایک دوسرے سے مایوس ہو سکتا ہے مگر انسانیت سے نہیں کیونکہ انسان زمانے میں سانس لیتا ہے اور انسانیت زمانوں میں زندہ ہے
آخر میں پاکستانی سیاستدانوں مقتدر حلقوں پاکستانی اداروں اسٹیبلشمنٹ سول بیورو کریسی پاک فوج سے اپیل ہے کہ تمام اختلافات بھلا کر اس مشکل گھڑی میں ایک قوم بن کر حالات کا ادراک اور ازالہ کریں اور سیلاب زدگان کی ہرمکمن مدد اور خدمت کریں جیسے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری نے خوبصورت جیسٹر اور پیغام دیا ہے کہ سیاست تو ہوتی رہے گی آؤ مشکل اور آفت کی اس گھڑی میں خدمت خلق کریں یہی موقع ہے یہی عبادت ہے یہی نیکی ہے یہی جنت کا پرمٹ ہے یہی جہنم کی آگ سے بچاؤ کا طریقہ اور موقع ہے
اللہ ہمسب کا حامی وناصر ہو (آمین )
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی