گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے جس گاوں میں پیدا ہوا اس میں زیادہ تعلیم یافتہ لوگ تو نہیں تھے لیکن شھر سے قربت اور پرائمری ۔مڈل و قران کی تعلیم کی وجہ سے شعوری طور کافی ترقی یافتہ تھے۔میری ماں کا تعلق شھر سے تھا اور پرائمری تعلیم کی وجہ سے بے پناہ بصیرت کی مالک تھی اور میرا اکثر وقت نانی کے ہاں گزرتا جس کی وجہ سے شھری زندگی کا ماحول میسر آجاتا۔ مجھے شروع میں تو گاوں کے ایک گرلرز سکول میں عادی ہونے کے لیے داخل کیا گیا جہاں سکول سے بھاگ جانے پر لڑکیوں سے خوب مار کھائ مگر قسمت نے یاوری کی اور ایک اور بوائز سکول سے ہوتا ہوا کینٹ بورڈ سکول ملتان میں داخل کر دیا گیا۔یہاں سے میری زندگی نے ایک ترقی یافتہ شھری زندگی اور سفر وسیلہ ظفر ہے میں پہلا قدم رکھا۔ ملتان جانے کے لیے بار بار دریا سندھ پر لانچوں اور ایس ایس جھلم پر دریا پار کرنا ہوتا تو ایک نئی مگر عجیب و غریب دنیا سے آشنائ ہوئ۔اس دنیا کا حال ایک کتاب ۔(پارو ۔۔ ملاح اور چراغی )۔چھاپ کا بیان کردیا یہ کتاب یونائیٹڈ بک سنٹر ڈیرہ اسماعیل خان پر دستیاب ہے۔ ملتان جانے کے لیے پہلی بار ریل دیکھی اور اس کا سفر کیا ۔ ملتان کینٹ میں میرے گھر کے سامنے ائر پورٹ تھا جہاں سے PIA کا فوکر جہاز اڑ کر ہمارے سروں کے اوپر سے گزرتا اور ہم خوش ہوتے پھر ائرپورٹ جا کر جہاز دیکھ آئے۔۔اس وقت صدر بازار ملتان کے شمال مغربی کونے پر ایک سینما تھا جس کا نام امپریل تھا اور سرائیکی دوست اسے منڈوا کہتے تھے۔ ملتان قدیم تاریخ ۔تہزیب و ثقافت کا امین ایک پرامن خوبصورت شھر تھا جو زرعی پیداوار اور آموں کے باغات کی وجہ سے مشھور تھا۔ہر طرف گھروں ۔ بنگلوں۔سکولوں ۔سرکاری عمارتوں میں درخت اور پھولوں کے باغات تھے اور یہاں کے نظارے دھنک رنگ بکھیرتے اور میں قدرتی جلوؤں میں گم ہوجاتا۔
جاری ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر