نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیلاب سیاست بہا لے گیا ۔۔۔||سرفراز راجا

سرفراز راجا اسلام آباد کے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ دو دہائیوں سے فیلڈ رپورٹنگ خاص طور پر پارلیمان اور ایوان اقتدار کو کور کرتے آرہے ہیں ، وہ مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

سرفراز راجا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوبیس گھنٹے ، تین دن،تین ہفتے،تین مہینے۔ ڈیڈ لائنز ختم ہوتی جارہی تھیں سیاسی طوطوں کی ہیشگوئیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ حکومت سے نکالے جانے کے بعد عمران خان زخمی شیر کی طرح دھاڑتے پھر رہے تھے۔ تمام تر آئینی و غیر آئینی کو ششوں کے باوجود وہ شہباز شریف کو شیروانی پہننے سے روک تو نہ سکے تھے لیکن اب بے قراری تھی کہ اگر میں نہیں تو تم کیوں ، ان کا بس نہیں چل پارہا تھا کہ کچھ اور نہیں تو کسی طرح شہباز شریف کے نام کے ساتھ بھی کل نہیں آج بلکہ ابھی سابق وزیر اعظم لگوا دیا جائے تاکہ کچھ تو دل کی تشفی ہوسکے۔

 

لیکن پھر غیر متوقع طور پر پنجاب حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد ان کے ہاتھ میں بہت کچھ آگیا۔ کہتے یہی تھے کہ جیسے ہی بڑے صوبے میں اختیار ملا اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی تاکہ مرکز بھی دباو میں آجائے لیکن پھر کسی نے سمجھایا کہ یہ نہ ہو صوبے میں مشکل سے حکومت ہاتھ میں آئی ہے وہ بھی نکل جائے۔ پھر مشورہ سامنے آیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کرادیا جائے۔ مقبولیت کی جو لہر چل رہی ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئندہ پانچ سال کے لئے بھاری اکثریت حاصل کرلی جائے مرکز میں فوری انتخابات نہیں بھی کرائے جاتے تو اگلے سال کرانے ہی ہوں گے جب دو تہائی حصے میں حکومت ہوگی تو ملک بھر میں بھی دو تہائی اکڑیت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ اس تجویز ہر سنجیدگی سے غور ہورہا تھا ہنگامی جلسوں کا شیڈول بھی اسی تیاری کی نیت سے جاری کردیا گیا تھا۔ لیکن قدرت کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ قدرتی آفات کسی سے پوچھ کر نہیں آتیں۔ موسمیات جیسے محکمے جدید سائنسی ٹیکنالوجی اور آلات کے زریعے کچھ اندآزے ضرور لگا سکتے ہیں لیکن روک ہرگز نہیں سکتے۔ برسات میں معمول سے تیس سے چالیس فیصد زیادہ بارشوں کے پیشگوئی تو کی گئی تھی لیکن ایسی تباہی کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکا تھا۔

سیلاب اور اس جیسی قدرتی آفات اور اس سے ہونے والی تباہی پاکستان کے حوالے سے کوئی نئی بات نہیں۔ 2005 کا زلزلہ ،2010 کا سیلاب اور اب پھر اسی قسم کی تباہی، ہر بار نقصانات اور امداد کی اتنی زیادہ بات کی جاتی ہے کہ وجوہات پر غور ہی نہیں ہوتا۔ ایک ہی قسم کا واقعہ اسی قسم کی خبریں ،اسی قسم کے نقصانات ،اسی قسم کی کہانیاں ،اسی قسم کے الزامات ،اسی قسم کی اپیلیں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ماضی سے سبق نہیں سیکھتے۔ بڑے ڈیموں کی تعمیر نہ ہونا،ناقص تعمیرات ،دریاو¿ں کے کنارے رہائشی اور کمرشل عمارتیں، ہنگامی حالات سے نمٹنے کی سہولیات اور تربیت کا فقدان ایسے واقعات اور نقصانات کی بڑی وجوہ ہیں ساتھ ہی ہمارے یہاں فنڈز کی کمی بڑے ڈیموں کی تعمیر میں بڑی رکاوٹ قرار دی جاتی ہے اور پھر اس سے کہیں زیادہ مالی نقصان ہم ہر چند سال بعد سیلاب جیسی قدرتی آفت میں اٹھا لیتے ہیں۔ اور حقیقت آخر میں یہی سامنے آتی ہے کہ ہم سرکاری سطح پر نہ ہی عوامی سطح پر سنیجدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ابھی سیلاب گزرنے کے بعد مٹی خشک نہیں ہوتی ہم سب بھلا دیتے ہیں دریاو¿ں کے کنارے پھر سے تعمیرات شروع ہوجاتی ہیں اور خود کو پھر سے کسی ایسی ہی ناگہانی کا شکار بننے کے لیے تیار کرنا شروع کرریتے ہیں۔ لیکن اس سب میں ایک بات جو سنہری لکیر دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اندر کچھ بھی ہو کم از کم باہر سے ایسے مواقع پر سب کو ایک ہونا پڑجاتا ہے۔ کچھ تنظیمیں،ادارے یا انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگ گمنام ہیرو کی طرح خلوص نیت سے کام کرتے ہیں لیکن سیاسی پوائنٹ سکورنگ بھی کم نہیں ہوتی تو بات سیاست کی ہورہی تھی بیچ میں سیلاب آگیا اسی طرح جس طرح ملک میں سیاست ہورہی تھی پھرسیلاب آگیا ،بات اور مطالبہ فوری انتخابات کا ہورہا تھا لیکن اب کونسے انتخابات؟ بے گھر لوگوں کو آباد ہونے میں سال نہیں تو مہنیے ضرور لگیں گے۔ امداد کے لئے دنیا سے اپیلیں کی جارہی ہیں تو وہاں انتخابات پر اربوں روپے کون خرچ کرے گا۔ آئین پاکستان تو قومی ایمرجنسی کی صورت میں عام انتخابات بھی ملتوی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اب تو مطالبہ کرنے والوں کو بھی نہ چاہتے ہوئے اپنی زبانوں کو تالے لگانا پڑ گئے ہیں۔ بہت کچھ جو سوچا جارہا تھا بارشوں نے ان تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ تباہ کن سیلابی ریلا کسی کی سیاست کو بھی بہا لے۔

یہ بھی پڑھیے:

سرفراز راجا کے مزید کالم پڑھیں

About The Author