نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکا جا سکتا تھا!||عامر متین

لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ اس لسی میں پانی ڈالنا بند کریں۔۔۔کچھ برا منا رہے ہیں کہ اتنے بڑے سانحہ پر میں مخول کیوں کر رہا ہوں۔۔مگر آپ ہی بتائیں کہ اس پر انسان روئے یا ہنسے۔۔کون حساب دے گاان لاشوں کا؟۔۔۔“

عامرمتین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو کیسے روکا جا سکتا تھا؟؟سیلاب کی تباہ کاریوں میں مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے؟؟سینئرصحافی عامر متین نے سیلاب سے متعلق کن بنیادی ایشوز کو ہائی لائٹ کیا ہے؟؟*

سیلاب سے تباہی کی وجوہات پر عامر متین کی ٹویٹس۔۔
سینئر صحافی عامر متین نے حالیہ سیلاب سے ہونیوالی تباہی سے متعلق 27اگست2022ء کو اہم ٹویٹس کی ہیں۔ان ٹویٹس میں انکی جانب سے چند اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ بروقت فیصلے کرکے اوراقدامات اٹھاکر حالیہ سیلاب سے ہونیوالی تباہ کاریوں سے کس طرح بچا جا سکتا تھا۔۔۔۔اس حوالے سے عامر متین صاحب نے جو ٹویٹس کی ہیں،انکی تفصیل کچھ یوں ہے:۔

”پاکستان میں سیلاب سے ۱یک ہزار سے زائد اموات اور کروڑوں افراد کو بے گھر ہونے سے بچایا جا سکتا تھا اگر وفاق صوبوں سے لڑائی بند کرکے دریائے سندھ کا سیلابی پانی لنک کینال کے ذریعے جہلم،چناب میں صحیح وقت پرمنتقل کردیتا۔۔۔ایسا کیوں نہ ہوسکا اور اب بھی ایسا نہیں ہورہا۔۔۔اسکی وجوہات کیا ہیں؟

کیا یہ سیلاب صرف خدائی آفت تھا یا اس سے ہونے والی کافی تباہی سے بچا جا سکتا تھا؟۔۔۔یہ ممکن تھا اوراب بھی ہے۔۔۔مگر ایسااس لئے نہ ہوسکا کیونکہ وفاق اور صوبوں کی لڑائی کی وجہ سے بروقت فیصلے نہیں ہوسکے۔۔کیسے۔۔؟ذرا توجہ سے سنیں اور سر پیٹیں۔۔

دریائے سندھ کے سیلاب کا پانی جہلم،چناب اور بقیہ آبی ذخیروں میں اس لئے بروقت نہیں ڈالا گیا اوراب بھی نہیں ڈالا جارہا کیونکہ اس نظام کو ’اِرساIRSA (Indus River System Authority)‘ اور ’فلڈ کمیشن‘چلاتے ہیں۔۔۔یہ نظام وفاق اور صوبوں کے مابین آبی معاہدوں پرمبنی ہے کہ کس صوبے کو کس وقت کس جگہ سے کتنا پانی ملے گا۔۔۔یہ معاہدے پتھر پرلکیر نہیں کہ تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔۔۔خاص طور پر اس وقت جب کروڑوں انسانوں اور مال کا مسئلہ ہو۔۔وفاق اور صوبے بڑی آسانی سے گنجائش نکال سکتے تھے اور نکال سکتے ہیں کیونکہ مسئلہ ملک اور شاید خطے کی تاریخ میں سب سے بڑی آفت سے نمٹنے کا ہے۔

بڑی آسانی سے یہ فیصلہ ہوسکتا تھا کہ وقتی طور پر صوبے اپنے پانی کے حصے کی مانگ نہیں کریں گے اورسندھ کے سیلاب کے پانی کو بروقت چھوٹے دریاؤں اورآبی ذخیروں میں منتقل کیا جا سکتا تھا۔۔۔صوبہ سندھ کو اس پر کیا اعتراض ہونا تھا جب انکی جان،مال،مویشی اور فصلیں بچ رہی تھیں۔۔۔اور خاص طور پر جب وفاق اور سندھ میں ایک ہی سیاسی اتحاد ”پی ڈی ایم“ کی حکومت ہے۔پنجاب کے جنوبی حصے بھی سیلاب سے بچ جاتے۔۔مگر ایسا نہ ہوسکا۔۔کیوں؟

اب اسکو حکومتوں،سرکاری عہدیداران اور متعلقہ اداروں کی نالائقی کہہ لیں یا شومئی قسمت کہ سینکڑوں لوگ مارے گئے۔کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے۔۔مال مویشی سب کچھ کھو دیا۔۔آخر کیوں؟

معاہدے،قانون اس لئے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ہو،فلاح ہو۔جب یہ سب خطرے میں ہوتا ہے تو فطرت اور انسانی بقا کے اصولوں کی بنیاد پراس میں فوراً تبدیلی لائی جاتی ہے اور لائی جانی چاہئے۔۔۔

جب ہمارے دوستوں کے ایک گروپ نے،جوسیلاب زدگان کی مدد کیلئے بنایا گیا تھا،پانی کے اعدادوشمار دیکھے،تو یقین نہیں آیا۔کچھ صحافی دوستوں کا خیال تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ذرا بات چیت، نیک نیتی اور غوروفکر سے آفت کے اثرات کم ہو سکتے تھے،(لیکن) اس کے باوجود کسی نے کچھ نہ کیا۔۔ذرا تفتیش سے ثابت ہوا کہ ایسا ہی ہوا ہے۔۔خدائی آفت کے ساتھ ساتھ انسانی غلطی سے جان و مال کا نقصان ہوا اور ابھی بھی ہورہا ہے۔۔۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ خیال وزیراعظم شہبازشریف کو آیا کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے؟
تیس چالیس سال سے نظام چلانے والوں کو یہ بنیادی خیال کیوں نہیں آیا؟
کیا کسی وزیراعلیٰ،سرکاری بابویا متعلقہ محکموں نے اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ یہ ممکن ہے؟
کیا اِرسا یا فلڈ کنٹرول والوں نے حکومت کو بریف کیا یا کوئی چٹھی لکھی ہو؟؟

معلوم ہوا کہ کسی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔اِرسا اور فلڈ کنٹرول کاسب سے زیادہ قصورنکلا۔

دریائے سندھ میں سیلاب کے دوسرے ریلے پربھی نئی آفت سر پرکھڑی ہے۔ساری رات نوشہرہ کے لوگ دریائے کابل میں 449000کیوسک کے تاریخی سیلاب سے بچنے کیلئے سڑکوں پر دھکے کھاتے رہے۔۔۔اب بتایا جارہا ہے کہ نوشہرہ میں مزیدسیلاب کا خطرہ شاید ٹل گیا ہے۔اب سیلاب اگلے اسٹاپ یعنی چشمہ بیراج کی جانب گامزن ہے اور پھر تونسہ جہاں پہلے ہی قیامت آچکی ہے۔پھر گدو سکھر اور سب سے چھوٹے اور خطرناک کوٹری بیراج سے اس خونی سیلاب نے گزرنا ہے۔۔ابھی قیامت نہیں آئی۔

چشمہ کے بارے میں متعلقہ محکمے پرامید ہیں مگرسیلاب کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

اب اصلی کہانی کھلتی ہے۔۔
۔۔۔واپڈانے اِرسا(IRSA)کو لکھا کہ وہ دریائے سندھ پر پریشر ہٹانے کیلئے بروقت چشمہ جہلم لنک کینال سے پانی دریائے جہلم میں منتقل کرنے کی اجازت دے ورنہ کراچی تک تباہی آسکتی ہے۔۔۔کوٹری کا دہانہ تنگ ہے،اس لئے یہیں مسئلے کا حل شروع کر دیا جائے۔۔اِرسا (IRSA)نے پہلے کی طرح کہا کہ توبہ توبہ۔۔پتھر پرلکھا پانی کا معاہدہ (water accord)ہے۔۔۔اسکو کیسے چھیڑا جا سکتا ہے؟کسی نے اس سے پہلے گوارا نہیں کیا تھا کہ حکومتوں سے ہی پوچھ لیتے کہ جان بچانی ہے یا پانی۔۔؟ویسے بھی جن فصلوں کیلئے پانی لینا تھا،وہ اسی پانی کی ذیادتی سے ختم ہورہی تھیں۔۔۔

اس دوران ہمارے جیسے لوگوں نے تفتیش شروع کر دی اور متعلقہ افراد سے پوچھنا شروع کردیا۔۔اِرسا کو ڈر پڑا کہ بات موذی صحافیوں تک پہنچ گئی ہے اور کہیں یہ مزید آگے نہ پہنچ جائے۔۔۔مزید ڈر یہ تھا کہ کہیں 30سالہ تجربے والے وزیراعظم کو بھی کہیں یہ بات سمجھ نہ آجائے کہ نقصان کم ہو سکتا تھا اور جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔۔۔مگر پھر ایک مسئلہ کا خیال آیا کہ کہیں دریائے سندھ کا پانی چشمہ جہلم لنک نہر میں چھوڑنے سے کہیں دنیا تباہ نہ ہوجائے۔۔۔کیا؟

۔۔۔آپ اسے مذاق سمجھ رہے ہونگے مگر میں اتنے سنگین مسئلے پرمذاق کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔۔۔۔بتایا گیا کہ چشمہ بیراج سے منسلک جوہری بجلی کا پلانٹ ہے۔اگر پانی نہرمیں چھوڑا گیا تو سیلاب کی وجہ سے آئی ہوئی مٹی پلانٹ میں پھنس کر اس کو تباہ کر سکتی ہے۔۔کیسا ہے؟؟

۔۔۔مسئلہ واقعی سنگین تھا۔۔۔جوہری دھماکے کی ذمہ داری کون لے؟اسکا بریف کیس کہیں کسی کے ہاتھ میں بندھا نہ رہ جائے۔۔مگر اب واپڈا میں بھی اک تگڑے جرنیل ہیں،کوئی بلڈی سویلین نہیں کہ جوہری بہانہ بنایا جا سکے۔۔اِرسا(IRSA) کو سمجھایا کہ پانی اگر چشمہ میں نہ چھوڑا گیا تو کیا ہوگا۔۔۔یہ سیلاب اگر یہاں نہ پکڑا گیا تو تونسہ سے کوٹری تک خطرہ ہے۔

اس دوران جب یہاں جوہری دھماکے کا خطرہ پیدا ہوچکا تھاتوشہباز شریف قطر(خط والے) میں اسی عطار کے لونڈے سے گیس نکلوا رہے تھے اور راجا پرویز اشرف نیاگرا فال پر سیلاب سے نمٹنے کی ٹریننگ لے رہے تھے۔۔۔

مگر واپڈا نے موذی صحافیوں سے متعلق ڈرایا کہ فدوی عامر متین،کاشف عباسی سے ایک وٹس ایپ گروپ میں اس بارے میں پوچھتے پایا گیا ہے۔۔۔اس لئے مہاراج کوئی اوپائے(حل) نکالئے۔۔اس لئے اِرسا نے گنجائش نکالی مگر ایک شرط کے ساتھ۔۔آخر دنیا کو جوہری دھماکے سے بھی تو بچایا تھا۔۔۔آخری خبریں آنے تک ہمیں بتایا گیا کہ جب پانی CSB 641پرہوگا تو پھر چشمہ جہلم نہر میں پانی چھوڑ دیا جائے گا(اور)اس سے پنجاب سندھ کے علاوہ دنیا کو بھی جوہری دھماکے سے بچا لیا جائے گا۔۔۔آپ پریشان ہورہے ہونگے کہ یہ کیا بلا ہے۔۔۔ہمارا بھی کچھ ایسا ہی خیال تھا۔۔۔مگر پھر محلے کے ثمرمبارک سے گہری تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ اس کا مطلب ہے کہ جب مٹی والا پانی بیٹھ جائے گا تو نہر میں پانی چھوڑ دیا جائے گا۔۔اس سے چشمہ جوہری پلانٹ میں مٹی نہیں جائے گی اور کوئی دھماکہ نہیں ہوگا۔۔۔اب پتہ نہیں رات کے کس پہر CSB 641ہوگااور جنوبی پنجاب اور سندھ کے لوگ چین سے سوسکیں گے کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔کے پی کے،کشمیر،گلگت بلتستان کا جو ستیاناس ہونا تھا وہ ہوچکا۔اب ڈاؤن اسٹریم جو ایک دوبکریاں بچی ہیں،انکی فکر نہیں رہے گی اور سانپ کا ڈر بھی نہیں ہوگا۔۔

کچھ سوال باقی ہیں۔

سندھ کا پانی جہلم،چناب اورپانی کے ذخیروں میں پہلے سیلاب کے وقت کیوں نہیں چھوڑاگیا؟
پانی کے معاہدے کو وقتی طور پرہی سہی،مگر اسکو مؤخر کیوں نہیں کیا گیا؟
کیا اس سلسلے میں کسی نے غور فرمایا؟ اگر ہاں تو پھر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟
اگر نہیں تواس پر کیوں نہیں غور کیا گیا؟

لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ اس لسی میں پانی ڈالنا بند کریں۔۔۔کچھ برا منا رہے ہیں کہ اتنے بڑے سانحہ پر میں مخول کیوں کر رہا ہوں۔۔مگر آپ ہی بتائیں کہ اس پر انسان روئے یا ہنسے۔۔کون حساب دے گاان لاشوں کا؟۔۔۔“

 

؎

 

تھریڈ کا لنک

 

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author