عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمہوریت کی گردان تو آپ سب نے بہت سنی ہوگی ’جمہور کی حکومت جمہور کے لیے۔‘ پولیٹیکل سائنس کے حساب سے اس جمہوریت کا اپنا ایک فارمولا ہے، جس میں طاقت کا مرکز عوام کی منتخب حکومت ہوتی ہے۔
ہماری اس کچی پکی ہنڈکُلیا کو آپ کوئی بھی نام دیں، کم از کم جمہوریت نہیں۔
جمہوریت کی ٹافی پہ مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں اور اسے پکڑے بچہ جمہورا بس گھوم ہی رہا ہے۔
جمہورکی خاطر کیا کیا ہوتا ہے؟ جمہوریت میں ہونا کیا چاہیے اور ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے، ملاحظہ ہو۔
جمہور کے درمیان موجود وہ لوگ جو درد دل رکھتے ہیں اور جو مشکل وقت میں جمہور کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ امدادی ادارے کھول لیتے ہیں جیسے کہ عبد الستار ایدھی، چھیپا یا ظفر عباس۔
سوشل ورک ان کا صرف شوق نہیں بلکہ ایک طرح کا پروفیشن بھی ہوتا ہے۔ انہیں سول سوسائٹی، سماجی کارکن یا انسانیت کے خدمت گار کہہ لیں۔
محدود وسائل کے ساتھ جتنا ان کے بس میں ہوتا ہے یہ کرتے ہیں۔ ان خدمات کے عوض ہم سماجی تنظیموں کو عطیات دے سکتے ہیں، سپورٹ تو کرسکتے ہیں لیکن حکمرانی میں حصہ ہرگز نہیں۔
دلچسپ یہ ہے کہ سول سوسائٹی حکومتوں پہ اثر انداز تو ضرور ہونا چاہتی ہے مگر حکمرانی میں حصہ نہیں مانگتی۔
جمہور کی خدمت کے لیے بعض لوگ دین کا راستہ چنتے ہیں، ان کا پروفیشن مذہب ہوتا ہے۔ یہ مذہبی تعلیمات، مدارس اور مساجد کے ذریعے جمہور کو اپنی سروس مہیا کرتے ہیں۔
اگرچہ مذہب کے نام پہ پیسے اور مذہبی لوگوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں تاہم پوری قوم کی ضروریات پوری کرسکیں، یہ ان کے لیے بہرحال ناممکن ہے۔
مذہبی خدمات کے عوض ہم مولویوں کو عزت اور چندہ تو دے سکتے ہیں مگر حق حکمرانی ان کی جھولی میں نہیں ڈال سکتے۔
اپنے اپنے انداز سے قوم کی خدمت کا دعویٰ اور بھی کئی ادارے کرتے ہیں جیسا کہ سول بیوروکریسی، ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ۔ تاہم اپنے شہر کے کمشنر، اپنے علاقے کے کمانڈنگ آفیسر یا اپنی مقامی عدالت کے جج کو ہم عوام نہیں چُنتے، یہ ہمارے پاس اپنا ایجنڈا لے کر نہیں آتے، جمہور انہیں فرائض کی ادائیگی کے لیے منتخب نہیں کرتی۔ دوسری اہم بات کہ فوج، عدلیہ یا پھر سول بیوروکریسی اپنی خدمات کے عوض ریاست سے تنخواہ وصول کرتے ہیں، یہ تنخواہ جمہور کے ٹیکس اور ملکی خزانے سے نکلتی ہے۔
اس لیے ہم انہیں دیکھ کر سیلوٹ تو مار سکتے ہیں، شاباشی دے سکتے ہیں لیکن عوام پہ حکمرانی کا حق کسی صورت انہیں نہیں دیا جاسکتا۔
ہم عوام پہ حکمرانی کا حق صرف انہیں ہے جو جمہور کی خدمت کے لیے جمہوریت کے نظام کا راستہ چنتے ہیں۔ ان کا پروفیشن سیاست کہلاتا ہے۔
سیاست دان بن کر جمہوریت کی خدمت کی بہت سی شکلیں ہیں مثال کے طور پر کراچی کے نوجوان جبران ناصر ابھی اسمبلی کی نشست تک نہیں پہنچے لیکن عوامی مسائل اجاگر کرنے کے لیے وہ ایوان پہنچنے کا انتظار نہیں کر رہے۔
گوادر کے مقامی سیاست دان مولانا ہدایت اللہ کی ’حق دو تحریک‘ بھی جب شروع ہوئی تھی تو یہ حکمرانوں کی تحریک تھی، نہ ہی حکمرانی کے حصول کے لیے تھی۔
بعض سیاست دان جمہور کی خدمت کے لیے حکمران بننا اور حکومت میں رہ کرعوام کی خدمت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جمہور کی خدمت کے اس نظریے میں بھی کوئی قباحت نہیں کیوں کہ ایسے عوامی خدمت گزاروں کو علم ہوتا ہے کہ عملی طور پر پبلک کا بھلا تب ہی ہوسکتا ہے جب ریاست کے لامحدود وسائل ہاتھ میں ہوں اور فیصلہ سازی کا اختیار ہو۔
جو جمہور کا حاکم بننے کے لیے جمہوری نظام کا راستہ چنتے ہیں وہ دراصل ہم عوام کے سامنے خود کو پیش کرتے ہیں۔ ہم انہیں ان کی شخصیت، وعدوں، دعوؤں اور پالیسیوں کی بنا پر منتخب کرتے ہیں اور اگر نہ پسند نہ آئے تو مسترد بھی کر دیتے ہیں۔
ہم انہیں اس لیے چنتے ہیں کہ اگر وعدے پورے نہ ہوئے تو آئندہ نہیں آنے دیں گے، اگر ہمارے مال پہ ڈاکہ ڈالا تو پکڑ لیں گے۔
اپنے پڑھنے والوں کو آئیڈیل جمہوریت کے معمولی نکات کی یاد دہانی کرانے کا قطعی ارادہ نہ تھا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہور کی خدمت، سرکاری عہدے کے فرائض اور جمہوریت کے نظریات آپس میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔
ہمارے یہاں سب کو اپنے جثے کے مطابق حصہ درکار ہے۔
جنہیں ہم جمہور نے حکمرانی اور فیصلہ سازی کے لیے چُنا انہیں کرسی سے گرا دیا جاتا ہے، جنہیں ہم نے منتخب نہیں کیا بلکہ یوں کہیے کہ جنہیں ہم جانتے تک نہیں وہ ہماری قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔
ایک جمہوری سیٹ اپ میں سول سوسائٹی، مولوی، جج، افسر شاہی اور فوج، منتخب نمائندوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ حق حکمرانی کے حصے دار نہیں ہوسکتے۔
جن دینی شخصیات کو ہم نے اپنی مذہبی رہنمائی کے لیے سر آنکھوں پہ بٹھایا وہ اسی مذہب کارڈ کے ذریعے حکومت اور طاقت میں اپنا حصہ سمیٹ لیتے ہیں اور جس سیاست دان کو ہم نے مسیحا مانا وہ مشکل گھڑی میں لیڈرشپ کے بجائے ہمیں امدادی تنظیموں کی راشن لائنوں کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔
پاکستان میں صرف جمہوریت ہی نہیں، جمہوریت کے ماخذ یعنی ہم عام لوگوں کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔
جمہور کی خدمت سے وابستہ ہر حلقے کو سوچنا ہوگا کہ حق حکمرانی کی کھینچا تانی میں کہیں جمہور کا ریاست اور نظام پہ رہا سہا اعتبار بھی ختم نہ ہوجائے۔ یاد رکھیں تتر بتر قوموں کو بیڑا غرق ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر