سرفراز راجا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا گیا میں سیاست میں کبھی نہیں آونگاپھر اس نے اپنی سیاسی جماعت بنا لی ،سیاست شروع کی تو متنازعہ ریفرنڈم کی بھرپور حمایت کرکے فوجی آمر کو صدر بنوایا اور پھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا حصہ بن کے اسی فوجی آمر کو ہٹانے کی مہم چلائی۔ اس نے سٹیٹس کو توڑنے کا وعدہ کیا پھر اسی سٹیٹس کو کا حصہ بن گیا ،روایتی سیاست کی مخالفت کی پھر اسی کے بل بوتے پر سیاست کو آگے بڑھایا ،اس نے کہا کہ وہ لوٹے سیاستدانوں کو کبھی ساتھ نہیں ملائے گا پھر اس نے چن چن کرلوٹے اپنی پارٹی میں شامل کئے۔اس نے کہا کہ پارٹی کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں کو کبھی اپنی پارٹی کا حصہ نہیں بنائے گا پھر سب نے دیکھا کہ آزاد امیدواروں کو بلابلاکر گلے میں جھنڈے ڈالے گئے ،جنہیں ڈاکو ،قاتل کہا پھر انہی کے ساتھ مل کر حکومت بنالی
اس نے کہا کہ وہ کبھی کسی ملک سے پیسے نہیں مانگے گا آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو خودکشی ہی کرلے گا۔ پھر اس نے قوم کو دوسرے ملکوں سے امداد ملنے کی خوشخبریاں سنائیں اور آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹا کے ملکی تاریخ کا ایک مشکل معاشی معاہدہ کرڈالا۔اس نے قوم کو حساب لگا لگا کر سمجھایا کہ ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہونے سے ملک کا قرضہ کتنا بڑھتا ہے پھر اپنے دور میں ڈالر کو ریکارڈ پچاس فیصد تک مہنگا کردیا۔ اس نے سابقہ حکمرانوں پر قرضے لینے پر شدید ترین الفاظ میں تنقید کی پھر اپنے چند سالہ اقتدار میں تاریخی قرض لے کر سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اس نے قوم کو بار بار باور کرایا کہ مہنگائی ہو تو سمجھ جاو ، حکمران چور ہے پھر حکمران بن کر عوام کو بتایا کہ مہنگائی دراصل ایک عالمی مسئلہ ہوتا ہے ۔ اس نے ریاست مدینہ کو آئیڈیل بتایا پھر کبھی چینی اور کبھی سعودی نظام حکومت کو مسائل کا حل قرار دیا،،اس نے ہمیشہ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر لانے کا کریڈٹ لیا اور پھر بتایا کہ کوئی انسان تو نیوٹرل ہو ہی نہیں سکتا
اس کے مزید یوٹرنز پر بات ہوتی لیکن اس نے یوٹرن پر بھی یوٹرن لیتے ہوئے اسے عظیم لیڈر کی نشانی قرار دے دیا اور بات ہی ختم کردی ۔دوسری جانب حقیقت یہ بھی ہے کہ اس نے پاکستان کی ایک نسل کے بڑا ہونیکا انتظار کیا اس نوجوان نسل کو اپنا فالور بنایا انہیں ایک نئے پاکستان کی امید دلائی،تبدیلی کے خواب دکھائے،،خاموش طبقے کو سیاست کے لئے گھروں سے نکالا ،جنہوں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا تھا انہیں پولنگ اسٹیشنز پر لایا اور انتخابی عمل کا حصہ بنایا،، ان میں اکثریت ان کی تھی جو دراصل اس کے فین تھے جو اسے سب کچھ مانتے، اس کی باتوں پر اندھا اعتقاد کرتے اس کے ہر لفظ کو حرف آخر سمجھتے۔ لیکن پھر اس نے انہیں اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا، اس نے انہیں سکھایا کہ جو اس کے ساتھ ہیں وہ فرشتے اور جو مخالف ہو وہ سب چور ڈاکو،جو اس کا موقف تسلیم کرے وہ محب وطن اور جو نہ مانے وہ غدار۔ جو وہ کہتا ہے وہ نیکی کا راستہ جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ بدی کی راہ پر ، جو مخالفین پر چڑھائی کرے انہیں برے القابات سے نوازے وہ اس کا فرنٹ لائن ٹائیگرٹھہرا، ادارہ چاہے کوئی بھی ہو خلاف جائے تو اسے متنازعہ بنا دو۔ الزامات کا تیر کمان میں تیار رکھو جہاں کسی نے کوئی بات کی یہ زہر آلود تیر چلا دو ۔دلوں دماغوں میں انتقام کا ایسا زہر گھول دیا گیا کہ معاشرہ خوفناک حد تک بٹ کرررہ گیا،ادارے،میڈیا ،قوم سب تقسیم ہوکر رہ گئے،سیاسی مخالفین تو دور اس نے اداروں کے سربراہان اور ججز تک کو بھرے اجتماعات میں للکارنا اور دھمکیاں دینا شروع کردیا اس کے صف اول کے ساتھیوں نے قومی میڈیا پر اداروں کے اندر بغاوت پراکسانے کے بیانات تک داغ دئیے ،سوشل میڈیا پر سیلاب متاثرین کی امداد میں مصروف فوجی ہیلی کاپٹر حادثہ کے شہدا بھی شر انگیزی سے نہ بچ پائے، میڈیا میں اتنی واضح تقسیم پیدا کردی کہ اپنا چینل نہیں تو بکاو چینل ہمارا اینکر نہیں تو تو…؟ معاشرے میں سیاسی عدم برداشت اس حد تک بڑھ گئی کہ خاندانوں میں بھی تقسیم پیدا ہوگئی کہیں تو باپ، بیٹا بھائی آپس میں ہی دشمن بن گئے۔ اس کے تمام یوٹرنز کو اس کے غلط سیاسی فیصلے، سیاسی بیانات یا سیاسی نا پختگی قرار دیا جاسکتا ہے اوران کا ازالہ بھی ممکن ہوسکتا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاسی مخالفین کیخلاف کارروائیوں سے متعلق قابل ستائش ہرگز نہیں لیکن گزشتہ سالوں کے دوران معاشرے، عوام اور اداروں میں جو خوفناک تقسیم ،نفرت اور دوریاں پیدا کردی گئیں شاید اس نقصان کی تلافی ممکن ہوسکے گی نہ ہی تاریخ میں اس جرم کی معافی۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر