ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ برنگی چاکلیٹس، کیک، براؤنیز، چکن سینڈوچز، کافی، ڈرنکس، چھوٹے گڈی پیکس، قہقہے، باتیں!
ڈاکٹرز کافی روم کا منظر زندگی کی حسین تصویر تھا۔ چند خوش باش ہنستی کھیلتی لڑکیاں!
”آئیے ڈاکٹر ہمارے ساتھ شامل ہوں“ ایک بولی۔
کافی کا سپ لیتے ہوئے ہم نے پوچھا، کس کی سالگرہ ہے؟ ”
”کسی کی بھی نہیں“ سب ہنس پڑیں۔
”پھر یہ سب؟“ ہم نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ڈاکٹر عائشہ کی شادی کی تاریخ طے ہوئی ہے۔ یہ سب اس کے شوہر نے بھیجا ہے مہر کے ساتھ“
”مہر کے ساتھ؟ تمہارا مطلب ہے حق مہر؟ مگر وہ تو نکاح کے موقعے پر لکھا جاتا ہے“
ہم نے بھرے پنڈال میں زوردار لڑائی کو تصور کیا، یہ بارات واپس جائے گی اور دلہن کا باپ سفید پگڑی دوسرے باپ کے پاؤں میں ڈال دیتا ہے۔
”نہیں ہمارے ہاں جو دلہن والے طے کرتے ہیں وہ دولہا شادی سے پہلے ہی بیوی کو دے دیتا ہے تاکہ اپنے لیے جو کچھ بھی خریدنا ہے، خرید لے۔ یا پھر اپنے نام بنک میں جمع کروانا ہے تو کروا لے“ عائشہ بولی۔
”یعنی رقم دیتا ہے، ہم نے سوچا اچھا بھئی بری کے جوڑوں اور زیور کے لیے دے دیتا ہو گا۔ چلو اچھا ہے دلہن اپنی پسند سے کپڑے لے۔ زیادہ تر سسرال والے تو پچھلی صدی سے جمع شدہ بوسیدہ کپڑے دے کر دلہن کو فارغ کرتے ہیں“ ہماری نظر میں ایک براؤن رنگ کا اٹیچی آ گیا جسے دو دن کی دلہن نے بہت شوق سے کھولا تھا اور پھر اسی تیزی سے بند کیا تھا۔
”کیوں بھئی عائشہ کتنے پیسے ملے؟“ ہم نے عائشہ کو چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
”پندرہ ہزار“ وہ مسکرا کر بولی۔
”کیا۔ کیا کہا؟“
ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
”پندرہ ہزار“
” پندرہ ہزار یعنی پندرہ ہزار ریال؟“
ریال کی قیمت پاکستانی روپوں میں ہمیں یاد آ گئی اور ہمیں چکر آ گئے۔
”جی ہاں“ وہ ہماری اڑتی رنگت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔
کافی ہمارے ہاتھ سے چھلک گئی اور ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگے۔ یقین سے باہر، ناقابل بیان۔ ہم بڑبڑا رہے تھے۔
”کیا سب لڑکیوں کو اتنا ہی ملتا ہے؟“ حواس پہ قابو پا کر ہم بولے۔
”جی سب کو ملتا ہے، لیکن ہر کسی کی رقم کم یا زیادہ ہوتی ہے“
”کم سے کم کتنی؟“
”کم سے کم پانچ ہزار اور زیادہ سے زیادہ تیس ہزار“
”باپ رے باپ“ ہم باقاعدہ طور پہ کپکپا رہے تھے۔
”اور اگر لڑکے کے پاس اتنے پیسے نہ ہوں تو؟“
اسے انتظام کرنا پڑتا ہے ہر حال میں۔ کبھی تو نوکری سے جمع کرتا ہے، کبھی ماں باپ بہن بھائی دیتے ہیں اور کبھی بنک سے قرضہ لیتا ہے اور کبھی سب رشتے دار حصہ ڈالتے ہیں شادی سے پہلے ”
ہمیں دولہا دلہن کو ملنے والی سلامیاں یاد آ گئیں جن پہ ساس صاحبہ کڑی نظر رکھے ہوتی ہیں۔
”اور اگر طلاق ہو جائے تو کیا مہر واپس کرنا پڑے گا؟“ ہم نے پوچھا۔
” نہیں طلاق بے شک ہو، یہ سب دلہن کو دیا جا چکا، اب واپس کچھ نہیں کرنا“
” کیا دلہن کو جہیز ملتا ہے؟“ ہم نے ایک اور سوال داغا۔
”بالکل بھی نہیں“ عائشہ حیران ہو کر بولی۔
” دلہن کے ابا صرف شادی والے دن مہمانوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ بعض بار وہ اس سے بھی معذرت کر لیتے ہیں اور کھانے کا انتظام بھی دلہا کو کرنا پڑتا ہے“
”دلہن رخصت ہو کر کہاں جاتی ہے؟“ ہم نے بے تابی سے پوچھا۔
”دلہن کے لیے دلہا علیحدہ گھر کا بندوبست کرتا ہے، چاہے کرائے کا چھوٹا سا فلیٹ ہو۔ اسے آراستہ کرنا دولہا کی ذمہ داری ہے۔ دولہا دلہن رخصت ہو کر سیدھا اس فلیٹ میں جاتے ہیں“
”ٹی وی، فریج، فرنیچر برتن؟“
”یہ سب کچھ دولہا خرید کر لاتا ہے“
”پہناؤنیاں؟“
”وہ کیا ہوتی ہیں؟“
ہمیں ہنسی آ گئی۔ پہناؤنیوں کی تفصیل بتائی تو سب حیران ہو کر کہنے لگیں، کیوں مگر کس کیے؟
”کیا شروع سے علیحدہ رہنے پر ماں باپ برا نہیں مناتے؟“ ہم نے پوچھا۔
”نہیں کیوں؟
اگر لڑکی کی شادی ہے تو لڑکے کی بھی تو ہے۔ لڑکی اپنے ماں باپ سے جدا ہو کر گھر بسا رہی ہے تو لڑکے کو بھی ایسا ہی کرنا ہے۔ دونوں کو اپنے ماں باپ کے گھر سے نکل کر اپنا گھر بسانا ہے ”
ہم نے چشم تصور میں دولہا کی ماں کو دندلیں پڑتی دیکھیں۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے ہاں لڑکے کی شادی مشکل ہے“
” جی ہاں لیکن جب اسلام نے مہر کا حکم دیا ہے تو اسے وقت زمانے اور لڑکی/ لڑکے کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے“
ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہنسیں یا روئیں؟
” شادی کے بعد گھر کون چلاتا ہے؟ ہم نے ہمت نہ ہاری۔
”شوہر ہی سب خرچ کرتا ہے بلکہ اپنی بیوی کو ملازمہ بھی رکھ کر دیتا ہے“ عائشہ مسکرا کر بولی۔
”اور اگر مرد دوسری شادی کر لے تو؟“
”اگر بیوی کو اعتراض نہ ہو تو کر لے لیکن اس صورت میں اسے دوسری بیوی کے لیے علیحدہ گھر کا بندوبست کرنا ہو گا۔ سب کچھ برابر دونوں کو دیا جائے گا۔ پھر وہ ایک رات ادھر اور دوسری رات ادھر“
”اور اگر بیوی کو اعتراض ہو تو؟“
”تب بیوی طلاق لے سکتی ہے۔ طلاق لے کر دوسری شادی کر لے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ یہاں عورت کی دوسری شادی کوئی مسئلہ نہیں چاہے اس کے بچے بھی ہوں“
”طلاق کی صورت میں بچوں کا کیا بنتا ہے؟“
”دونوں مل جل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون پاس رکھے گا لیکن خرچ تو باپ ہی اٹھائے گا۔ دونوں فریقین بچوں کے معاملات پہ طلاق کے بعد بھی بات کرتے ہیں اور ملتے رہتے ہیں“
ہماری چشم تصور میں اپنی طرف کے طلاق شدہ جوڑے آ گئے جو ایک دوسرے کا نام سنتے ہی نفرت سے کالے پیلے ہو کر تھوکتے ہوئے کہتے ہیں، نام نہ لینا حرام زادی کا۔
ہم سانس لینے کے لیے رکے تو اب کے ہمیں سوالوں کا سامنا تھا۔
”ڈاکٹر، آپ کو مہر ملا تھا کیا؟“
”ملا تھا“
ہم نے مری مری آواز میں جواب دیا۔ مولوی صاحب یاد آ گئے جو ایک بوسیدہ سا نوٹ ہماری مٹھی میں تھما رہے تھے اور اس وقت بھی ہم نے سوچا تھا کہ اس تکلف کی بھلا کیا ضرورت تھی؟
”کتنا؟“ عائشہ متجسس تھی۔
ہمیں علم تھا کہ ہمارے جواب کے بعد کچھ لڑکیاں تو ضرور بے ہوش ہوں گی۔
ہم نے فوراً پانچ سو بتیس روپوں کو عمانی ریالوں میں تبدیل کیا۔ آج کل ایک عمانی ریال ساڑھے پانچ سو روپے کے برابر ہے۔ آپ ذرا پانچ سو پچاس روپوں کو پندرہ ہزار عمانی ریال سے ضرب دے لیجیے۔ کہیے چکر آ گئے نا۔
تھوک نگلتے ہوئے ہم بولے،
”تقریباً ایک ریال“
” کیا؟ کیا؟ نہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟
واللہ حرام حرام، استغفراللہ ”
”کیا آپ ڈاکٹر بن چکی تھیں شادی سے پہلے؟“
”ہاں“ ہم سے جواب دینا مشکل تھا۔
”ڈاکٹر کیا آپ لوگ بہت غریب اور مسکین تھے؟“
ہم نے چشم تصور میں جائزہ لیا ممکنہ غربت اور مسکینی کا مگر جواب کچھ نفی میں ہی تھا۔
” پھر کیوں ایک ریال؟“
”دیکھو ہمارے ہاں شادی ایک احسان عظیم ہے جو دولہا والے دلہن پہ کرتے ہیں۔ وہ لڑکی کو بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے لڑکی کے ماں باپ کا بوجھ ہلکا کیا ہے اور والدین عاجزی سے شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے۔
رہتے اکیسویں صدی میں ہیں۔ اونٹ کی بجائے کار میں بیٹھتے ہیں۔ کچے گھر کی بجائے پکا گھر یا بنگلہ ہے، ہاتھ میں جادوئی آلہ سمارٹ فون ہے۔ لیکن مہر کے لیے انہیں چھٹی صدی عیسوی کا اسلام یاد آ جاتا ہے۔ ارے ہمارے ابا نے بھی یہی کیا۔ وہ تو ہم ہی اس آج کی طرح گھاگ نہیں ہوئے تھے ورنہ کھڑے ہو جاتے ”
”اور اگر کوئی لڑکی زیادہ مانگ لے تو؟“
توبہ کرو، سب مرنے مارنے پہ تل جائیں گے۔ لڑکی کو درس دیا جائے گا کہ اچھی لڑکیاں ایسے گھر نہیں بسایا کرتیں۔ تو تو میں میں ہو جائے گی، بارات واپس چلی جائے گی۔ مہر کو لوگ اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ”میں نے مسکرا کر کہا۔
” تو ماں باپ کہہ دیا کریں نا“
ماں باپ تو اس خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ شکر ہے رشتہ آیا۔ شکر ہے ہماری بیٹی کو پسند کر لیا۔ اگر مہر مانگ لیا تو لڑکے والے ناراض ہو کر بھاگ نہ جائیں ”ہم نے دل گرفتگی سے کہا۔
” توبہ شادی سے پہلے ہی دلہن کی اتنی بے وقعتی“ عائشہ حیران ہو کر بولی۔
” جس معاشرے میں لڑکی کی پیدائش پہ ناک بھوں چڑھائی جائے، اسے ناکارہ مال سمجھا جائے، اس کی ذمے داری جلد از جلد سر سے اتارنا مقصد ہو وہاں لڑکیوں کی عزت سسرال کیسے کرے؟ جب ماں باپ ہی نہیں کر سکتے۔
اور سنو سسرال کو خوش کرنے کے لیے ماں باپ کو لڑکی کے ساتھ پھول پھندنے ٹانکنے پڑتے ہیں ڈھیروں جہیز کی صورت میں ورنہ فقیروں کی بیٹی ہونے کا طعنہ ساری عمر ملتا ہے۔ سسرال کی چیزوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لے کر آتیں نا ساتھ میں رئیس زادی، عام فقرہ ہے۔
دلہن اور دولہا کہیں علیحدہ ٹھکانہ نہیں بناتے بلکہ دلہن کو ساس سسر کی خدمت کی فہرست دی جاتی ہے پہلی رات ہی۔ اور یہ بھی سمجھا دیا جاتا ہے کہ میرے خاندان کی جوتیاں سیدھی کرو گی تو بسو گی میرے ساتھ۔ ورنہ چونڈا پکڑ کر نکال باہر کروں گا۔
بہو پہ سارے گھر کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے۔ اگر کماتی ہو تو اس کی کمائی قبضے میں کی جاتی ہے۔
ماں بہنیں دن رات اس بات کا خاطر خواہ بندوبست کرتی ہیں کہ میاں بیوی میں انڈر سٹینڈنگ نہ ہونے پائے اس سے ان کے پایہ تخت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جھوٹی سچی باتوں کا مصالحہ کان میں روزانہ ڈالا جاتا ہے۔ غیر عورت اور اپنوں کا فرق کافی کوششوں سے واضح کیا جاتا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان کچھ بھی راز نہیں ہوتا۔ بیٹے کو اچھی طرح سمجھا دیا جاتا ہے کہ اگر جنت حاصل کرنی ہے تو بیوی کا نہیں، ماں کا بن کر رہنا ورنہ دودھ نہیں بخشوں گی۔ بیویاں بہت مل جائیں گی، ماں تو ایک ہی ہوتی ہے۔
ساری عمر لڑکی سسرال کی خدمت کرتی ہے، جب وہ ان سے فارغ ہوتی ہے تو خود فارغ ہو چکی ہوتی ہے ”ہم انتہائی غم زدہ تھے۔
سب ڈاکٹرز منہ کھول کر یہ قصیدہ سن رہی تھیں، سب کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی۔
پھر ان میں سے ایک بولی،
”پھر پاکستانی لڑکی شادی کیوں کرتی ہے؟“
” یہ ہمیں بھی نہیں پتہ کہ پاکستانی لڑکی شادی کیوں کرتی ہے؟
شاید ماں باپ کا دباؤ، شاید معاشرے کا چلن کہ انہیں لگتا ہے شادی نہ ہوئی تو ان کا کیا بنے گا؟ شادی ہی انہیں زندگی کا نصب العین نظر آتی ہے چاہے ساری عمر رو رو کر بسر کرنی پڑے ”
”کیا کوئی لڑکی علیحدگی کا سوچتی ہے؟“
”سوچتی سب ہیں مگر جائیں کہاں؟ ماں باپ لال جھنڈی اٹھائے کھڑے ہیں۔ پاس نہ قابلیت ہے نہ ہنر، ہاتھ میں مہر کے پانچ سو بتیس روپے ہیں۔ بچے یا شوہر چھین لے گا یا خرچہ نہیں دے گا۔ کہاں جائے؟
”اف خدایا آپ لوگ اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں کیا؟ حکومت کچھ کیوں نہیں کرتی؟“
”حکومت بھی انہی مردوں سے بنی ہے جنہیں عورت دو کوڑی کی نظر آتی ہے۔ ویسے بائی دے وے، پاکستان میں عرب کی عورت کو بہت آئیڈیلائز کیا جاتا ہے“
”کس وجہ سے؟“
” تم لوگوں کے حجاب اور عبایہ کی وجہ سے“
” لیکن ہم تو ہر چیز میں آواز بلند کر سکتے ہیں اور قاضی کے پاس جا کر شکایت بھی کر سکتے ہیں۔ قاضی فوراً بلا کر کان مروڑ دیتا ہے۔
توبہ توبہ، شکر ہے ہم پاکستان میں پیدا نہیں ہوئے ”سب الحمدللہ کا ورد کر رہی تھیں۔
ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے، زیر لب یہ کہتے ہوئے، اگلے جنم موہے عربی ہی کیجیو، بھلے شوہر دوسری شادی کرے یا تیسری، ارے ہم تو اپنے گھر اس کے پیسے پہ عیش کریں گے اور کیا فرق پڑتا ہے اگر شکل دوسرے یا تیسرے دن دیکھنی پڑے، روزانہ کیا سر پہ سوار کرنا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر